ڈیل کا نتیجہ ڈھیل


ملک کی سیاسی صورتحال کنٹرول ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے گزشتہ چھ ماہ سے حکومت کے خلاف جو تحریک شروع کی تھی جب اپنے نقطۂ عروج پر پہنچنے لگی تو اس میں پھوٹ پڑ گئی۔ حکومت نہیں بلکہ ملکی نظام کو بدلنے کی باتیں کرنے والے اتحاد سے عوام کی توقعات ابتدا میں بہت کم تھیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوامی توقعات بھی بڑھنے لگیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ عوام نے پی ڈی ایم کی باتوں پر کان دھرنا شروع کر دیے۔

پی ڈی ایم کا فیصلہ ہوا کہ ضمنی انتخابات میں حصہ لیا جائے اور اس کے بعد ملک کے چاروں صوبوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات تبدیلی سرکار کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوئے۔ پے در پے شکست نے حکومت کی عوامی مقبولیت کا راز فاش کر دیا۔ ضمنی انتخابات کی کامیابی کا کریڈٹ پی ڈی ایم کو بھی جاتا ہے مگر اس کا اصل کریڈٹ عوام کو جاتا ہے جنہوں نے حکومتی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹ کاسٹ کیے۔ بات جب حکومتی کارکردگی کی تھی تو نتیجہ بھی حسب توقع آیا۔

تاہم اس دوران پی ڈی ایم میں اسمبلیوں سے استعفوں کے معاملہ پر پھوٹ پڑ گئی۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے لگ گئیں۔ بجائے اس کے کہ اس معاملہ کو پی ڈی ایم کے اجلاس میں طے کیا جاتا ، فریقین نے میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی شروع کر دی۔ تلخی کے ساتھ ساتھ دوریاں بھی بڑھنے لگیں۔ نتیجہ یہ کہ اے این پی اور پی پی پی جیسی اہم سیاسی جماعتیں پی ڈی ایم سے عملی طور پر باہر ہو گئیں۔ مولانا فضل الرحمان نے حالیہ انٹرویو میں دونوں سیاسی جماعتوں کو پی ڈی ایم میں واپسی کی دعوت دیتے ہوئے فریقین کو بیان بازی سے منع کیا ہے مگر لگتا یہی ہے کہ یہ دعوت دینے میں کافی دیر ہو چکی ہے اور تلخیاں اور بدگمانیاں عروج کو پہنچ چکی ہیں پہلے تو یہ اتحاد ممکن نہیں رہا اور اگر ہو بھی گیا تو بہرحال پہلے جیسی بات نہیں رہے گی۔ اور لگتا یہ ہے کہ مولانا کو احساس ہو گیا ہے کہ اگر پی ڈی ایم ٹوٹ گی تو اس کے اثرات اپوزیشن جماعتوں کے لیے تباہ کن ہوں گے۔

اسی دوران حمزہ شہباز کی خاموشی نے رنگ دکھایا اور مریم نواز بھی آہستہ آہستہ خاموش ہو گئیں اور اسی خاموشی کے ساتھ شہباز شریف کی بھی ضمانت ہو گئی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ شہباز کرے گا پرواز مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ پرواز صیاد کی منشا کے مطابق ہو گی یا شہباز اپنی مرضی کی اڑان لے گا، اس کا فیصلہ تو آنے والے کچھ دنوں میں ہو جائے گا۔ تاہم ایک سوال اب ضرورپیدا ہو گیا ہے کہ کیا شہباز شریف اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے حق میں ہیں۔

کیا شہباز شریف مستقبل میں نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو لے کر چلیں گے۔ کیا شہباز شریف مریم نواز شریف کی اسلام آباد میں دھرنے کی خواہش کو پورا کریں گے۔ ان سوالات کا جواب تو آئندہ کچھ مدت میں سامنے آئے گا جبکہ میرے اندازے کے مطابق ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ خادم اعلیٰ کسی ایڈونچر نہیں بلکہ خدمت کے مشنری جذبے سے سرشار باہر آئے ہیں۔ خدمت کی اس ڈیل کے نتیجے میں تو ڈھیل دی گئی ہے۔

ویسے ایک قیاس یہ بھی تو کیا جا سکتا ہے کہ مریم نواز اپنے منصوبے میں کامیاب رہی ہیں انہوں نے اپنے والد کے ساتھ مل کر حکومت کو مسلسل دباؤ میں رکھا تاکہ اسٹیبلشمنٹ شہباز شریف کے ساتھ معاملات کو حل کرے اور ایسا ہی ہوا۔ نتیجے کے طور پر شہباز شریف جیل سے باہر ہیں اور اب ڈرائیونگ سیٹ پر وہ خود موجود ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اپنے خاندان اور پارٹی کے لیے کتنی سہولیات حاصل کرپاتے ہیں۔ لازمی بات ہے کہ پنجاب کے ممکنہ بلدیاتی انتخابات اور مردم شماری پر بھی شہباز شریف کی توجہ ہو گی۔

اور پی ڈی ایم کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے۔ اگر کسی ممکنہ ڈیل کے تحت شہباز شریف نے بھی لانگ مارچ، استعفوں اور دھرنے سے اجتناب کیا تو پھر پی ڈی ایم اور خاص طور پر مولانا فضل الرحمان کا مستقبل کیا ہو گا۔ شاید اسی مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے مولانا نے پی پی پی اور اے این پی کو پی ڈی ایم میں آنے کی دعوت دی ہے۔

فی الوقت تو آسان ہدف حکومت بنی ہے۔ تحریک لبیک پاکستان کے ورکرز نے چند گھنٹوں میں ملک کو جام کر کے رکھ دیا۔ ایک لمحے کو تو گمان ہوا کہ حکومت نام کی کوئی چیز ہی موجود نہیں ہے۔ ایک ایٹمی صلاحیت کے حامل ملک کی جو تصویر دنیا نے دیکھی ہے ، اس پر بہرحال کئی سوال کھڑے ہوں گے۔ سڑکوں پر تشدد کے واقعات کی تصاویر اور ویڈیوز ایک مدت تک ہمارا پیچھا کریں گی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے متفقہ ریاستی بیانیہ تشکیل دے۔ ایک ایسا بیانیہ جس میں سزا و جزا ریاست کی ذمہ داری ہو ، کسی سیاسی جماعت یا گروہ کو سزا جزا کے معاملات ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ ہو۔ معتدل معاشرے کے قیام کے لیے ریاست کو آج نہیں تو کل اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہوں گی اور معاشرے میں کسی بھی سطح پر موجود شدت پسندی چاہے وہ مذہبی ہو یا لسانی ہو یا پھر سیاسی ہو ، کو سختی کے ساتھ ختم کرنا ہو گا۔

ریاست کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ شدت پسندی کے ساتھ نا تو ڈیل ہوتی ہے اور نہ ہی ان کو ڈھیل دی جاتی ہے۔ کسی بھی ڈیل کے نتیجے میں ڈھیل کا مطلب اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا شدت پسندی کا جتنا جلدی خاتمہ ہو جائے اتنا ہی اچھی بات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments