جعلی ریاست مدینہ اور اس کی حقیقت


عمرانی ریاست مدینہ میں رہنے والی رابعہ الربا کو عوامی جمہوریہ چین میں عارضی طور پر مقیم تحریم عظیم کا سلام قبول ہو۔

رابعہ نے اپنے خط میں جعلی ریاست مدینے کے زبردستی کے خلیفہ اول کے اس بدنام زمانہ بیان کا ذکر کیا ہے جو دنیا کے ہر خبر شائع کرنے والے ادارے نے چھاپا۔ رابعہ، صرف خلیفہ وقت نہیں بلکہ پاکستان کے ہر شہر، گاؤں، قصے کے ہر چوک، ہر تھڑے پر بیٹھا آدمی یہی سوچ رکھتا ہے۔ وزیراعظم تو بس یہ ثابت کر رہے ہیں کہ تعلیم اور شعور بھی ایسی سوچ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

رابعہ، وزیراعظم کے اس بیان کے بعد مجھے بیجنگ کی ایک معتبر یونیورسٹی سے حال ہی میں پی ایچ ڈی کرنے والے ایک طالب علم کا پیغام موصول ہوا۔ محترم اس پیغام میں ایک تحقیقی مقالے کی مدد سے وزیراعظم کے بیان کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں جواب میں ان سے صرف ان کے پی ایچ ڈی کے چار سال ضائع ہو جانے کا افسوس ہی کر سکی۔ ان جیسے ہزاروں طالب علم یہاں اور دیگر کئی ممالک میں مقیم ہیں۔ رابعہ، صاف بات کروں تو یہ بھی سب جانتے ہیں۔

بس ہم اندر اور باہر سے ایک ہیں، یہ مختلف ہیں۔ انہوں نے چین، جاپان، امریکہ، یورپ میں رہنا ہے، وہاں کے انسان دوست قوانین سے فائدہ اٹھانا ہے لیکن جب پاکستان میں ویسے ہی قوانین یا سوچ لانے کی بات ہوتی ہے تو انہیں آگ لگ جاتی ہے۔ یہ پاکستان میں رہنے والوں کے لیے ایسی تحقیقات ڈھونڈ کر لاتے ہیں اور دوسری طرف اپنے گھر والوں کو پاکستان سے نکالنے کے لیے کاغذات پورے کرتے ہیں۔

میں نے یہاں بہت سے ایسے مرد بھی دیکھے ہیں جو روز رات ایک نئے بستر پر سوتے ہیں۔ سالوں بعد جب گھر جاتے ہیں تو ماں کی گود میں لیٹ کر اپنے لیے پاکیزہ دلہن ڈھونڈنے کی فرمائش کرتے ہیں۔ شادی کی رات دلہن پاکیزہ نہ نکلے تو اگلے روز اس کے گھر والوں کو بلا کر ذلیل کرتے ہیں۔ کیا ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہیں پاکیزگی جانچنے کا تجربہ کب اور کیسے حاصل ہوا؟

اس لیے اب میں کسی دیسی مرد سے عورت مارچ یا خواتین کے حقوق کے حوالے سے بات نہیں کرتی۔ وہ اس حوالے سے مجھ سے سوال بھی کریں تو میں جواب نہیں دیتی کیونکہ میں جانتی ہوں کہ یہ بس میرا وقت اور توانائی ضائع کرنا چاہتے ہیں ورنہ حقیقت تو یہ بھی جانتے ہیں بس اسے قبول کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔

رابعہ، آپ نے اپنے خط میں مجھے اپنے ارد گرد پھیلی حقیقت قبول کرنے کا کہا تھا۔ میں نے ہمت کرتے ہوئے آپ کا مشورہ مان لیا۔ اس پل مجھے احساس ہوا کہ میں خود کو جتنا کمزور سمجھ رہی تھی، اصل میں اتنی کمزور نہیں تھی۔ میں بس اس حقیقت کو ماننے سے انکار کر رہی تھی۔ جب اسے مان لیا تو میرے اردگرد پھیلا اندھیرا خود بخود چھٹ گیا۔ اب میں اجالے میں ہوں۔ گرچہ میری آنکھیں چندھیا رہی ہیں، ہر اب میں انہیں بند نہیں ہونے دوں گی۔ مجھے ہر صورت اس اجالے کا سامنا کرنا ہے۔

رابعہ، گوہر تاج میری محسنہ ہیں۔ پچھلے دنوں ان سے کئی بار بات ہوئی۔ ہر دفعہ وہ بہت محبت سے مجھے سمجھاتی رہیں۔ میرا حوصلہ بڑھاتی رہیں۔ ان کے ایک جملے نے مجھے اندھیرے سے نکل کر اجالے میں آنے میں بہت مدد دی۔ گوہر تاج نے کہا کہ، تحریم مان لو کہ تمہاری زندگی آسان نہیں ہے۔ پتہ نہیں ان کے اس جملے میں کیا تھا، پر اس سے مجھے جو ہمت ملی اس نے مجھے آگے بڑھنے میں بہت مدد دی۔

رابعہ، جب تک ہم اپنی حقیقت قبول نہیں کرتے تب تک ہم اندھیرے میں ہی بھٹکتے رہتے ہیں۔ جعلی ریاست مدینہ کے خلیفہ کو بھی ادھر ادھر کی ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے حقیقت قبول کرنی چاہیے۔ کسی بھی مسئلے کا حل اسے قبول کیے بغیر تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ جنسی جرائم کی وجہ ان کا شکار ہونے والے افراد کا لباس یا رویہ نہیں بلکہ ان جرائم کو کرنے والے افراد ہوتے ہیں۔

مجھے چین میں رہتے ہوئے چار سال ہو چکے ہیں۔ میں نے ان چار سالوں میں چین کے کئی شہروں اور دیہاتوں کا سفر کیا۔ میں نے ان سالوں میں وہ سب کچھ کیا جو اگر پاکستان میں کروں تو وہ میرے ساتھ ہونے والے کسی جرم کی وجہ بن جائے۔ میں نے یہاں رات دو بجے اکیلے سڑکیں ناپی ہیں، صبح پانچ بجے ٹیکسی لی ہے، دن کے مصروف ترین اوقات میں سب وے استعمال کی ہے۔ مجال ہے کبھی کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا ہو۔ بیجنگ سب وے کا حال تو کچھ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ہاتھ لگا بھی دے تو آپ نہ اس کا ہاتھ جھٹک پائیں نہ پلٹ کر اسے تھپڑ جڑ سکیں۔

دیکھو اتنے رش میں بھی کوئی اپنے آپے سے باہر نہیں ہوتا۔ حالانکہ نہ یہاں برقع نہ نقاب بلکہ اب تو گرمیاں آ گئی ہیں۔ مزید پندرہ دن گزریں گے تو یہاں عورتوں کے کپڑوں کی لمبائی دیسی مردوں کی عقل جتنی رہ جائے گی۔ اس کے باوجود وہ مزے سے گھوم رہی ہوں گی۔ نہ کسی کی نظر ان کے ہاتھوں کو اپنا لباس ٹھیک کرنے پر مجبور کرے گی، نہ انہیں اپنے گھر سے نکلنے سے پہلے اپنے لباس یا گھڑی پر نظر دوڑانی پڑے گی۔

یعنی مسئلہ لباس نہیں، سوچ ہے۔ ہمیں اس سوچ کو قابو کرنا ہے نہ کہ اس سوچ کا شکار ہونے والے ا فراد کو۔ چین میں دیسی مرد بھی بہت پائے جاتے ہیں۔ ننگی ٹانگیں دیکھ کر ان کی رالیں بہنا شروع ہو جاتی ہیں۔ بے چینی زیادہ بڑھے تو ایک دوسرے کے کانوں میں سرگوشیاں شروع کر دیتے ہیں۔ یہ اس سے زیادہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ جانتے ہیں چینی حکومت ان کے خلاف ایک شکایت موصول ہونے پر انہیں ملک بدر کر دے گی۔ یہ پھر بھی ہلکی سزا ہے ورنہ چینی قوانین کے مطابق ایکشن لیا گیا تو یہ جیل بھی جا سکتے ہیں۔

رابعہ، میں نے اپنے پہلے بھی لکھا تھا کہ اس معاملے میں ایک اور مسئلہ مردوں کی وہ سوچ ہے جو ان کے گھر کی عورتوں کے لیے مختلف ہے اور گھر کی باہر کی عورتوں کے لیے مختلف ہے۔ پچھلے دنوں ایک مولانا کی ویڈیو دیکھی۔ یہ مردوں کو چار شادیاں کرنے کی تلقین دیتے ہیں۔ کہتے ہیں اس سے اسلام کی خدمت ہوتی ہے۔ اسی خدمت کے چکر میں خود بھی تین بار بیاہ کر چکے ہیں۔ میں اکثر سوچتی ہوں کیا وہ اپنے دامادوں اور بہنوئیوں کو بھی اسلام کی خدمت کرنے کا درس دیتے ہوں گے یا یہ سبق بس دوسرے مردوں کے لیے ہے؟

لکھنے کو بہت باتیں ہیں، پر تحریر کافی طویل ہو چکی ہے۔ مجھے اندھیرا اپنی طرف پکار رہا ہے۔ میرا دل اس کی پکار پر لبیک کہنا چاہتا ہے پر میں اسے روکے ہوئے ہوں۔ مجھے ابھی کچھ دیر اجالے میں رکنا ہے۔ یہی میرے لیے بہتر ہے۔

فی امان اللہ۔

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم
اس سیریز کے دیگر حصےگولڈن گرلز: ڈیجیٹل بہن چارہایک عورت کی نظرمیں مردانگی کیا ہے؟

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم

گولڈن گرلز کے عنوان کے تحت رابعہ الربا اور تحریم عظیم بتا رہی ہیں کہ ایک عورت اصل میں کیا چاہتی ہے، مرد اسے کیا سمجھتا ہے، معاشرہ اس کی راہ میں کیسے رکاوٹیں کھڑا کرتا ہے اور وہ عورت کیسے ان مصائب کا سامنا کر کے سونا بنتی ہے۔ ایسا سونا جس کی پہچان صرف سنار کو ہوتی ہے۔

golden-girls has 28 posts and counting.See all posts by golden-girls

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments