منڈی فیض آباد کے انصر کا ایک بیرے سے تعلیم یافتہ نوجوان بننے تک کا سفر

محمد صہیب - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


لاہور کی لمز یونیورسٹی (لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز) میں موجود ایک کیفے کے سامنے بینچ پر دو نوجوان بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک ہوٹل کا بیرا انصر علی جبکہ دوسرا اسی یونیورسٹی کا طالبعلم سالار خان تھا۔

یہ سال 2015 میں گرمیوں کی ایک شام تھی۔ انصر کے چہرے پر تذبذب کے آثار نمایاں تھے، لیکن یہاں بات آرڈر غلط یا دیر سے لانے کی نہیں بلکہ انصر کے مستقبل کی تھی۔

ایسا ہی مضطرب چہرہ لیے سال 2009 کے اواخر میں انصر نے اپنی والدہ کے سامنے پڑھائی چھوڑنے اور خاندان کی مالی معاونت کرنے کی حامی بھری تھی۔ ان کے والد اسی سال وفات پا گئے تھے اور یوں انصر کا میٹرک ادھورا رہ گیا تھا۔

لیکن اس مرتبہ فرق یہ تھا کہ سالار انصر کو اپنی ادھوری تعلیم دوبارہ شروع کرنے کی پیشکش کر رہے تھے۔ انصر کے لیے اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ لینا خاصا مشکل تھا لیکن اس کے باوجود اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے سالار اور ان کے ساتھیوں پر اعتبار کرتے ہوئے حامی بھر لی۔

لیکن ایک ایسی کہانی جو محض ایک تصویر سے شروع ہوئی تھی چھ برس بعد ایک پڑھے لکھے ڈگری یافتہ نوجوان پر ختم ہو گی اس کا شاید نہ انصر کو یقین تھا اور نہ ہی سالار کو گمان۔

یہ اسی عظم اور مسلسل لگن کی کہانی ہے جس کے بارے میں شاید آپ گذشتہ روز ٹوئٹر پر وائرل ہونے والے ایک تھریڈ میں پڑھ چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’ساتھیوں کے طنزیہ چہروں کو برداشت کیا مگر مستقبل کے بارے میں پُرعزم رہا‘

زندگی میں مجھے ہزارہ برادری کی سول سرونٹس خواتین نے متاثر کیا’

خیبرپختونخوا کی پہلی خاتون ڈی پی او جنھیں سی ایس ایس کی تیاری ان کے شوہر نے کروائی

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انصر اور سالار نے ہمیں اس حوالے سے مزید تفصیلات بتائی ہیں۔

انصر ایک ہر دل عزیز ویٹر

ضلع ننکانہ صاحب کے چھوٹے سے قصبے منڈی فیض آباد کے رہائشی انصر کے چار بہن بھائی ہیں۔ والد کی وفات کے بعد وہ ملازمت کی غرض سے لاہور آ گئے اور پھر لمز میں موجود زاکر تکہ ریستوران میں بطور ویٹر کام کرنے لگے۔

انصر بتاتے ہیں کہ بچپن میں جب ان کے گھر بجلی کا بل آتا تو وہ اپنی امی کے ساتھ اسے جمع کروانے بینک جایا کرتے اور وہاں مینیجر کو دیکھ کر ان کی امی انھیں کہتی کہ ایک دن تم بھی پڑھ لکھ کر ایسے افسر بنو گے۔

ہر کام ‘اپنائیت اور محنت’ سے کرنے والے انصر نے چند ہی مہینوں میں اپنی مسکراہٹ اور پرسکون شخصیت کی بدولت لمز یونیورسٹی کے طلبا میں بھی اپنی جگہ بنا لی تھی۔

سالار بتاتے ہیں کہ ہم کھانے جاتے اور انصر وہاں نہ ہوتا تو بہت عجیب لگتا۔ ‘انصر ہر وقت خوش رہنے والا لڑکا تھا، کچھ لوگ ہوتے ہیں نہ جو اپنا کام بڑی خوبصورتی سے کرنا جانتے ہیں، انصر میں وہ خاصیت تھی۔’

ادھر انصر کے مطابق وہ صرف اس لیے خوش نہیں رہتے تھے کہ وہ کما کر گھر والوں کو بھیج رہے ہیں بلکہ وہ خود کو اس لیے بھی خوش قسمت سمجھتے تھے کہ وہ ‘پڑھے لکھے، اچھے لوگوں میں اٹھ بیٹھ رہے ہیں۔’

انصر کہتے ہیں کہ ان سب کو دیکھ کر مجھ میں پڑھنے کی لگن کبھی مرجھائی نہیں اور میں یہی سوچتا کہ چلو پڑھائی نہیں کر رہا تو پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ بات چیت تو ہو جاتی ہے۔

اس سب کے دوران انصر کی شہرت لمز میں اس ویٹر کی تھی جو کبھی آپ کا آرڈر نہیں بھولتا اور وقت پر آرڈر پہنچانے کے ساتھ آپ کے ساتھ اچھی گپ بھی مارتا ہے۔

لیکن یہ سب ایک دن صرف ایک تصویر کے باعث بدلنے والا تھا۔ یوں تو کچھ افراد انصر کی کہانی سے واقف تھے لیکن یہ بات زبان زد عام نہیں تھی۔

انصر کی تصویر اور ان کی مالی معاونت کا فیصلہ

سالار اور ان کی ایک دوست جب انصر کے پاس سنہ 2013 میں ‘ہیومنز آف نسٹ’ کی جانب سے ان کی تصویر بنانے گئے تو انصر نے انھیں اپنی کہانی بتائی اور کہا کہ وہ اپنی کلاس میں ایک لائق بچے تھے اور اکثر مشکل امتحانات سے پہلے ان کے دوست انھیں چھیڑا کرتے تھے کہ تم تو یہ امتحان باآسانی کر لو گے۔

یہ تصویر اتنی مقبول ہوئی کے وہاں موجود طلبا کا انصر سے لگاؤ مزید بڑھ گیا۔ یہ بات فی الوقت تو آئی گئی ہو گئی لیکن ٹھیک دو برس بعد جب سالار سٹوڈنٹس کونسل کے سربراہ منتخب ہوئے تو انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ انصر کی ادھوری پڑھائی مکمل کرنی ہے۔

سالار بتاتے ہیں کہ ‘اس وقت سب ہی بہت جذباتی تھے اور ہم تو انصر کے لمز میں داخلے کے خواہاں تھے۔ لیکن پھر وقت کے ساتھ ان پر مزید حقیقتیں آشکار ہونا شروع ہوئیں۔‘

سب سے پہلا خدشہ جو انصر نے سالار کے سامنے ظاہر کیا وہ یہ تھا کہ اگر وہ پڑھائی کریں گے تو ان کے گھر کا چولہا کیسے جلے گا۔ اس پر سالار نے ان کا حوصلہ بڑھایا کہ اس حوالے سے وہ اور ان کے دوست جلد کوئی حل ڈھونڈ لیں گے۔

عام طور اس طرح کےبڑے منصوبوں کے بارے میں کوئی نہ کوئی یہ ضرور کہتا ہے کہ ‘ہونا کچھ بھی نہیں ہے’ لیکن سالار اور ان کے دوستوں نے ‘جو ہو گا دیکھا جائے گا’ کے فلسفلے پر عمل کیا۔

ایسے میں انصر بتاتے ہیں کہ ان کے ذہن میں بھی کہیں سوالات ضرور تھے لیکن پھر ایک دن کراچی سے تعلق رکھنے والا لڑکا ان کے پاس آیا اور کہنا لگا کہ ‘انصر تم کب تک یہاں برتن اٹھاؤ گے، کیا تم نے پوری زندگی یہی کرنا ہے۔’

انصر کے ذہن میں یہ الفاظ آج بھی گونجتے ہیں، اور وہ کہتے ہیں کہ اس وقت میں نے رک کے سوچا کہ کسی کا والد یا بھائی یا کوئی اپنا ہی ایسے مشورے دیتا ہے، اس وقت انصر نے ٹھان لی کہ اب وہ پیچھے مڑ کے نہیں دیکھیں گے۔

ایف اے کی تعلیم اور یونیورسٹی میں داخلہ

سالار کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ہمیں انتظامی مسائل نظر آنے لگے۔ انصر کیونکہ پانچ برس سے سکول نہیں گئے تھے تو اب وہ صرف ایف اے یعنی آرٹس کے شعبے میں ہی انٹر کر سکتے تھے۔ انھیں ایک پرائیویٹ سکول میں داخلہ دلوایا گیا اور انصر کے مطابق انھوں نے انٹر میں 814 نمبر لیے اور اپنی جماعت میں اول آئے۔

سالار کہتے ہیں کہ انصر میں ایک الگ قسم کی خود اعتمادی تھی جس سے ہمیں بھی حوصلہ ملتا رہتا تھا۔

سالار کے مطابق ‘انصر کبھی بھی خود کو وہ کریڈٹ نہیں دیتا جس کا وہ حق دار، اس لڑکے نے بہت محنت کی ہے۔’

انصر بھی پانچ برس بعد دوبارہ پڑھائی کرنے لگے تو انھیں ‘بہت عجیب’ لگا۔ لیکن انٹر پاس کرنے کے بعد اپنا کریئر تلاش کرنے میں انصر کی مدد سالار کے والد نے کی۔

انصر کو اعداد و شمار سے لگاؤ تھا اور یوں اکاؤنٹنگ اینڈ فنانس میں ڈگری حاصل کرنے کے لیے انھوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی اسلام آباد میں داخلہ لیا۔

یہاں انصر کو انگریزی زبان لکھنے اور بولنے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس کی ایک وجہ ان کے ابتدائی تعلیم بھی تھی۔ تاہم یہاں بھی انھیں مدد ملی اور وہ اس رکاوٹ کو بھی پھلانگ کر آگے بڑھتے گئے۔

ہر مرحلے پر سالار اور ان کے دوست انصر کی مدد کرتے رہے۔

گذشتہ ہفتے انصر نے اسلامک بانڈز سے متعلق اپنے تحقیقی مقالے کا دفاع کیا ہے اور اب چند ہی ماہ میں انھیں ڈگری بھی مل جائے گی۔

لیکن ان کا سفر ابھی یہاں ختم نہیں ہوا۔ انصر کہتے ہیں کہ ‘مجھے ایسے لگ رہا جیسے میں پھر سے وہیں سے شروع کر رہا ہوں جہاں سنہ 2015 میں سب کچھ چھوڑ کر آیا تھا۔‘

’آج بھی میں ویسے ہی نوکری کی تلاش کروں گا، اور پھر اس میں ترقی کے لیے محنت کروں گا، لیکن جب میں کچھ بن جاؤں گا تو یہ سب واپس ضرور لوٹاؤں گا۔‘

سالار کے لیے انصر ایک دوست، ایک بھائی اور کبھی کبھار ایک رشتہ دار جیسے ہیں جن پر انھیں فخر ہے لیکن یہی سوال جب انصر سے پوچھا گیا تو یہ کہتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی کہ ’سالار تو میرے لیے سب کچھ ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp