اسے پرواز کرنے دو


قلم ہاتھ میں رکھنے والوں کے لے وہ بڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے جب کوئی فرمائشی کالم لکھنے کا کہتا ہے۔ ایسا میرے ساتھ بار ہا ہو چکا ہے۔ ایک بار انفارمیشن ڈائریکٹر سرور خٹک نے تو حد ہی کردی اپنی کتاب دیتے وقت اس پہ لکھ بھی دیا کہ ”یہ کتاب میں اس شرط پہ دے رہا ہوں کہ آپ اس پہ کالم لکھیں گے“۔ میں اسے تکتا ہی رہ گیا اور مروتاً کچھ نہ کہہ سکا۔ اس واقعے پر میرے دوست سمیع اللہ گران نے کہا ”بابو صاحب! آپ کے کالم کی قیمت 200 روپے ہے؟

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کچھ کتابیں یہ اہلیت رکھتی ہیں کہ ان پہ کچھ لکھا جائے میری آج کی منتخب کردہ کتاب ”اسے پرواز کرنے دو“ بھی کالم کی متقاضی ہے۔ میں نے کالم کا ارادہ تو کیا ہے لیکن سوچ رہا ہوں کہ لکھوں یا نہ لکھوں۔ دل مخمصے میں گرفتار کہ لوگ انگشت نمائی نہ کریں کہ ملالہ یا اس کی فاؤنڈیشن سے کیا امیدیں لگا بیٹھا ہوں۔ اور پھر یہ بھی کہ بعض لوگوں کے نزدیک یہ ایک متنازعہ کردار بھی ہے وغیرہ وغیرہ۔ حالاں کہ سچ یہ ہے کہ ”میں ہوں ملالہ“ پہ اک شاندار کالم لکھا تھا جس کے شکریے کا (تا حال) اک ایس ایم ایس تک بھی مجھے موصول نہیں ہوا۔

بس استاد محترم فضل ربی راہیؔ نے کہا کہ ”ضیاء الدین یوسف زیٔ آپ کا شکریہ ادا کر رہے تھے“ ۔ ہو سکتا ہے یا اللہ جانے۔ اسی طرح میری قلمی محب روح الامین نایاب بھی یہی گلہ رکھتے ہیں کہ میں نے ملالہ پہ پانچ کالم لکھے جب وہ اسلام آباد آئی تو سیٹی سے چند چہیتوں کو اسلام آباد بلوالیا، فنگشن ہوا، ہوہا ہوئی اور اور پھر اللہ اللہ خیرسلا یہی پوچھا تک نہیں گیا ایسے میں بندہ کیا کلم لکھے اور کیا جگر کاوی کرے۔

بہر کیف! ملالہ ہماری بیٹی ہے، ہمارا فخر ہے، ہمارا اعزاز ہے۔ چاہے لوگ کچھ بھی کہتے رہیں اس نے سوات کا نام دنیا بھر میں روشن کیا۔ وہ نام، وہ مقام اور وہ احترام پایا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس کے والد ضیاء الدین یوسف زیٔ ہمارے دوست رہے۔ ان کے ساتھ اٹھک بیٹھک رہی اور کئی ایک ادبی محافل میں ہم نے اکٹھے مقالے بھی پڑھے۔ آج ہم ان کی انگریزی کی کتاب ”Let her fly“ کے اردو ترجمے پر کچھ لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اس کتاب کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کا اعزاز استاد فضل ربی راہیؔ کو حاصل ہوا۔ جنہوں نے (کرونا سال) میں بڑی دلجمعی اور جانفشانی سے اس کا ترجمہ ہی نہیں کیا بلکہ ترجمے کا حق ادا کر دیا ہے۔ ترجمے کے حوالے سے یہی کہا جاتا ہے کہ یہ کبھی بھی اصل متن کا نعم البدل نہیں ہو سکتا لیکن میں بلا جھجک کہتا ہوں کہ یہ ترجمہ اصل متن کے بہت قریب قریب ہے۔ جس طرح خشونت سنگھ کے ناول ”دلی“ کا ترجمہ ڈاکٹر عرفان احمد خان نے اصل سے بھی خوبصورت انداز میں کر کے دکھایا ہے بعینہ فضل ربی راہی نے بھی مذکورہ کتاب بہترین اردو ترجمہ کر کے ثابت کر دیا ہے کہ ”ہم بھی کسی سے کم نہیں“ ۔

کتاب بنیادی طور پر تو ضیاء الدین یوسف زیٔ کی خود نوشت ہے لیکن اس میں صنفی امتیازات، معاشرتی اقدار اور پختون کلچر کے خد و خال سے بھی بھی خوب پردے سرکائے گئے ہیں۔ اپنے بچپن کے متعلق فرماتے ہیں کہ ”بچپن میں کمسن بچیوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا، گوئیاں کھیلنا اور کچے کوٹھوں پہ دوڑنا اب بھی یاد آتا ہے، کہ کس طرح نوخیز لڑکیاں اپنے کومل رخساروں کو آنچل سے ڈھانپ کر سوانگ بھرا کرتی تھیں“ ۔ اپنی بہنوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”میری بہنوں کے جوتے پھٹے پرانے ہوتے، ان کے پاؤں بھی کھردرے اور سخت ہوتے جبکہ مجھے مرد ہونے کے ناتے بادام، انڈے کی زردی اور مرغی کی اچھی بوٹی یعنی ران اور سینہ عطا کیا جاتا جبکہ میری بہنیں الگ کمرے میں بچا کھچا سالن کھایا کرتیں“ ۔

(یاد رہے! ضیاء الدین کے والد برکانا کی اک مسجد میں پیش امام ہونے کے علاوہ سکول میں اسلامیات کے استاد بھی تھے)۔ کتاب میں چائے اور دودھ پتی کا ذکر بھی بڑا مزیدار ہے۔ جو ابوالکلام آزاد کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ ”میرے لیے فخر کا دن وہ نہیں جب ملالہ ملکہ برطانیہ سے ملاقات کرتی ہے یا جب ملالہ اقوام متحدہ میں تقریر کرتی ہے یا جب ملالہ کو امن کا نوبل انعام ملتا ہے بلکہ میرے لیے فخر کا وہ دن ہے جب ملالہ اکسفورڈ یونیورسٹی میں داخل ہوتی ہے اور وہاں کے پرنسپل نے ملالہ کے لیے چائے بنائی اور اسے ملالہ کے حوالے کیا“ ۔

یہی نہیں بلکہ اس خودنوشت میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ کہیں کھکھلاہٹ سے باچھیں چر کے کانوں سے جا لگتی ہیں تو کہیں آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ یہ کتاب اگر اک طرف ہمیں حوصلہ، عزم اور ہمت کا درس دیتی ہے تو دوسری طرف ان بچوں، بچیوں اور والدین کے لیے بھی تحرک کا باعث ہے جو روایتی شکنجوں کی جکڑ بندیوں سے نکل کر اڑان بھرنے کا عزم رکھتے ہیں۔

اب آتے ہیں کتاب کے تنقیدی پہلوؤں کی طرف، پہلی بات تو یہ کہ مجھے کتاب کے بے ربط نام پہ قدرے اعتراض ہے کہ اگر یہ ضیاء الدین یوسف زیٔ کی خودنوشت ہے تو اسے اپنی بیٹی کی طرف اشارہ کرتا ہوا نام ”Let her fly“ رکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ دوم یہ کہ فاضل ترجمہ نگار نے بھی سیدہ عابدہ حسین کی خودنوشت ”Power Failure“ کے اردو ترجمے ”اور بجلی کٹ گئی“ جیسے لفظی ترجمے ہی پر اکتفا کر لیا۔ ورنہ کوئی اہل زبان کا ترجمہ ”اذن پرواز“ ہی کرتا۔

اب مجھے نہیں معلوم کہ اسے فروگزشت کہیں گے یا نہیں۔ میں کتاب کے چند مندرجات پہ بھی تحفظات رکھتا ہوں۔ مثلاً صفحہ نمبر 9 پہ جب ملالہ اپنے ابتدائیے میں فرماتی ہے کہ ”میں اپنا ہر معاملہ ماں کے مقابلے میں اپنے والد کے ساتھ زیادہ شیئر کرتی تھی۔ یہاں تک کہ ماہواری کے درد کی شکایت سے لے کر پیریڈ پیڈز کے لانے تک۔“ ترجمہ نگار کو مشرقی روایات کے مطابق اس جملے کو حذف کر دینا چاہیے تھا یا ترمیمی پیرایہ بھی استعمال کیا جاسکتا تھا۔

جیسے ڈاکٹر عرفان احمد خان نے خشونت سنگھ کے انگریزی ناول ”دلی“ اور ”ٹرین ٹو پاکستان“ کے ننگے جنسی جملوں کو انتہائی ادبی رنگ دے کر اک نئی شان پیدا کردی مثلاً سیکس کو انہوں نے ”اندرونی معاملات میں مداخلت“ کا پیراہن پہنا کر کس ہنر مندی سے اس میں ادبیت پیدا کردی۔ یہاں بھی ایسی استادی دکھائی جا سکتی تھی۔

ضیاء الدین یوسف زیٔ نے یہ کتاب در حقیقت لکھی تو اپنی خود نوشت ہے لیکن مجھے کہنے دیجئے کہ پوری کتاب میں ان کی اپنی شخصیت دوسری شخصیات کے بار بار ذکر ہونے کی بنا کتاب کے آخر تک آنکھ مچولی کھیلتی ہی دکھائی دیتی ہے۔ گویا ”صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں“ ۔ مثلاً زیادہ تر ذکر اپنی زوجہ محترمہ ”تورپیکئی“ کا کرتے نہیں تھکتے۔ پھر اس سے بھی زیادہ ملالہ کا ہالہ کتاب پہ چھایا نظر آتا ہے۔ اپنے بیٹوں خوشحال اور اتل کی طبیعتوں پہ بھی کافی حاشیے کھینچے گئے ہیں۔ پھر پاکستان میں عموماً اور پختون معاشرے میں خصوصاً صنفی امتیاز کے بارے میں کافی کچھ لکھا گیا ہے۔ اور پھر قریباً ہر باب کے اختتام پر طالبان کے تلخ تذکرے بھی ساتھ ساتھ چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ جس سے ان کی اپنی شخصیت دب کے رہ جاتی ہے۔

کتاب میں کافی اغلاط بھی نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔ مثلاً صفحہ 7 پر ”کے کام کر کے دکھایا“ یہ غلط ہے۔ جب کام جمع یا زیادہ ہیں (کیونکہ پہلے کے آیا ہے ) تو دکھایا کی جگہ دکھائے ہونا چاہیے۔ اسی طرح ”ہماری پدری کلچر“ بھی غلط ہے۔ یہاں ہماری کی جگہ ہمارے لکھنا چاہیے۔ ”مجھے فون پہ کال آ رہے تھے“ بھی غلط ہے اور یہ جملہ بھی غلط بھی غلط ہے کہ ”بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیاں کھاتی ہیں“ نیز ترجمہ نگار نے بھینس کے مادہ بچے کو بچھڑا لکھا ہے۔

حالاں کہ بچھڑا یا بچھڑی تو گائے جنتی ہے۔ بھینس کے بچے کو اہل زبان کٹا یا کٹی کہتے ہیں۔ نہیں تو وزیراعظم عمران خان سے پوچھ لیں۔ اسی طرح ”حامی“ کو ”ہامی“ لکھا گیا۔ ”افسر“ کو ”افسر“ جبکہ ”الفاظ“ کو ”الفظ“ کے علاوہ ”ستارہ“ اور ”ستارا“ سے لے کر ”کرے“ اور ”کریں“ جیسی اغلاط پہ بھی غور نہیں کیا گیا۔ نیز روزمرہ اور محاورہ کے علاوہ تذکیر و تانیث اور مذکر و مؤنث کی اغلاط کے ساتھ بعض جملوں کا درو لبت بھی قابل گرفت ہے۔

گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بھی ”پیر کامل“ نہیں ہوتا۔ اور انسان تو ہے ہی خطا کا پتلا۔ میری اپنی تحریروں میں بھی کبھی کبھی شترگربگی کا شائبہ گزرتا ہے۔ لیکن اسے اتنا اچھالنا نہیں چاہیے۔ کیونکہ دوسری کی آنکھ میں تنکا دیکھنے والوں کی اپنی آنکھ میں بھی بسا اوقات شہتیر پڑا ہوتا ہے۔ تاہم تنقید برائے اصلاح میں کوئی حرج نہیں۔ غلطیاں سبھی سے ہوجاتی ہیں۔ چاہے وہ بابو ہو، راہی ہو یا شجاعت علی راہی، اے کاش پروف میں امجد علی سحاب ہی سے ماہرانہ امداد لے لی گئی ہوتی۔ میں امید رکھتا ہوں کہ اگلے ایڈیشن میں ان نشاندہیوں کا ازالہ کیا جائے گا۔

ہماری بات کا صاحب برا نہ مانیے گا
نہیں کسی سے عداوت یقین جانیے گا

تصدیق اقبال بابو
Latest posts by تصدیق اقبال بابو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments