یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں


پاکستان کے قیام سے لے کر موجودہ صورتحال تک فی الحال کوئی ایک جملہ جو مجھے تسلی دے رہا ہے تو وہ ایک ایسے شاعر کا مصرعہ ہے ، جس نے ہم سب سے پہلے زندگی کی حقیقتوں کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اس محسوس کی گئی تلخی کو الفاظ کا روپ دے کر ہمیشہ کے لیے امر کر دیا

اور وہ مصرعہ ہی اس تحریر کا عنوان ہے ”یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں“

اس مختصر تحریر میں کس کس چیز کا رونا روؤں ۔ حکومتی حکمت عملیوں کا یا حکومتی ناتجربہ کاری کا۔ لیکن ہمارا ماضی بھی تو اسی قسم کے فیصلوں سے بھرا پڑا ہے ۔ ہمارا افسانہ نگار ”غلام عباس“ ”آنندی“ کی صورت میں اسی سماج اور اس پر قابض حکمران طبقے کی نااہلی کا رونا بہت پہلے رو چکا ہے۔ آج بھی ”آنندی“ والی سوچ اسی تازگی کے ساتھ موجود ہے اور معاملات کو اسی فکری سطح پر حل کیا جا رہا ہے۔

ہمارے ہاں بچوں کو زندگی گزارنے کی کوئی تربیت نہیں دی جاتی ، نہ یہ بتایا جاتا ہے کہ معاملات کا بہترین حل گفتگو، مکالمے، عمل اور کردار کی صورت میں ہوتا ہے۔ شدت پسندی مار دھاڑ حل نہیں بلکہ مزید بگاڑ کا سبب بنتے ہیں ، بس یہاں دھڑا دھڑ پیدائش کا عمل جاری ہے ، یہاں معیار سے زیادہ مقدار اہم ہے۔

ابھی جب میں قلمی مشقت میں مصروف ہوں تو ٹی وی چینل پر ایک موصوفہ کورونا کی تباہی کی دہائی دے رہی ہے ، سامنے کھلی فیس بک دن بھر لاہور میں ہونے والی خانہ جنگی کی تفاصیل سے بھری پڑی ہے ، جب کہ آج صبح کا آغاز بھی ایسی خبر سے ہوا جس کے بعد خیالات نے اپنا رخ کسی اور دنیا کی جانب پھیر لیا۔

”فرتاش سید“ جیسا آدمی جو خیالات، جذبات اور تخیل کی دنیا کا ایسا شہزادہ تھا جس نے اپنے قلم سے جذبات و احساسات اور زندگی کی تلخ حقائق پر مبنی تاریخ کو نہ صرف رقم کیا بلکہ امر کر دیا۔ وہ بھی ہم سے جدا ہو گیا۔ ایسے لوگوں کا معاشرے سے چلے جانا کسی بڑے خوف میں مبتلا کر دیتا ہے کہ جن کا پیغام صرف اور صرف محبت ہو ، جن کے پاس علم و ادب کی باتیں اور جن کی گفتگو کا موضوع انسانیت کی بھلائی ہو۔

جب ہر طرف افراتفری کا عالم ہے ، ملکی حالات ہر حوالے سے قابل رحم ہیں ، جہاں ہر انسان دوسرے انسان کا دشمن معلوم ہو رہا ہے ، ان حالات میں ایسی خبریں زندگی کی معنویت چھین لیتی ہیں۔

میں عجیب الجھن کا شکار ہوں ، سوشل میڈیا کی کہانی الیکٹرانک میڈیا سے نہیں ملتی۔ پرنٹ میڈیا کی کہانی ان دونوں ذرائع سے نہیں ملتی ۔۔۔ سچ کیا ہے؟ اس سوال کی تلاش تو بہت پہلے سے ہی میں نے کرنا چھوڑ دی تھی کیونکہ ایسا سماج جہاں ہر انسان اپنا سچ اپنے ساتھ اٹھائے پھر رہا ہو ، وہاں اس نوعیت کے سوال کی تلاش محض بے وقوفی کے علاوہ کچھ نہیں۔

لیکن کیا یہ سمت درست ہے  جس کی جانب ہم چل رہے ہیں؟ کیا مسائل کا بہتر حل یہی ہے جو ہم نے تلاش کیا یا کر رہے ہیں؟ ہم کیوں ہمیشہ ایک ہجوم کی صورت میں سوچتے ہیں؟ ہماری نفسیات کیوں ہجوم کی نفسیات ہے؟ ہم آج تک ہجوم سے قوم تک کا سفر نہیں کر پائے؟

یہاں ہر انسان کو اپنے نفع نقصان کا خیال ہے ، یہی ہمارا اجتماعی رویہ ہے اور جہاں کوئی غلط نہ ہو ، وہاں انسانوں کی اوقات گاجر اور مولی جیسی ہوتی ہے اور اس کی بہترین تصویر گزشتہ چند دنوں کے پاکستان کے حالات ہیں۔ اب مزید کیا لکھوں جب سامنے پہیہ جام ہڑتال کا اعلان ہو چکا ہے ۔ گزشتہ منظرنامے سے کوئی عبرت نہیں پکڑ رہا اور نہ ہی حکمت عملی میں تبدیلی آ رہی ہے تو مسائل اسی طرح بڑھتے رہیں گے اور چند مہینوں بعد پھر اسی طرح کا منظرنامہ ہمارے سامنے ہو گا۔

آہ! کب ہم قوم بن کر سوچیں گے؟ کب ہمارے ہاں مکالمے کی فضاء پیدا ہو گی؟ کب ہم دوسری طرف موجود انسان کو انسان سمجھیں گے؟ کب ہمارے ہاں معاملہ فہمی پیدا ہو گی؟ کب ہم مار دھاڑ جلاؤ گھراؤ سے نکل کر فکری سطح پر مسائل کا حل تلاش کریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments