ابا! میں بھلا آپ کا شکریہ کیسے ادا کر سکتی ہوں؟


تحریر: ملالہ یوسف زئی (آکسفرڈ یونیورسٹی)
میں اپنے والد کا شکریہ ادا کرنے کے لئے یہ پیش لفظ لکھ رہی ہوں۔

جہاں تک میں جانتی ہوں میرے والد محبت، درد مندی اور انکساری کی مجسم تصویر ہیں۔ انھوں نے مجھے محبت کا درس محض الفاظ کے ذریعے نہیں دیا بلکہ اپنے عمل سے محبت اور مہربانی کے کام کر کے دکھایا۔ میں نے اپنے والد کو کسی کے ساتھ بد تہذیبی اور بے انصافی پر مبنی سلوک کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ خواہ مسلمان ہو یا عیسائی، گورا ہو یا کالا، غریب ہو یا امیر، مرد ہو یا عورت، سب ان کی نظر میں برابر ہیں۔ اسکول کے پرنسپل، ایک سوشل ایکٹیوسٹ اور فعال سماجی کارکن کی حیثیت سے وہ ہر ایک کا خیال رکھتے، انھیں احترام دیتے اور مدد کرتے تھے۔ ہر شخص ان سے پیارکرتا تھا، اس لئے وہ میرے لئے محبوب ترین ہستی بن گئے تھے۔

مالی طور پر ہم ایک امیر خاندان سے تعلق نہیں رکھتے تھے لیکن ہم اخلاقی اور علمی لحاظ سے بہت امیر تھے۔ ابا کا خیال ہے کہ ایک خوشحال زندگی کے لئے دولت کوئی لازمی عنصر نہیں اور نہ ہی تحفظ کا باعث ہے۔ ہم نے کبھی بھی خود کو غریب محسوس نہیں کیا، حالاں کہ مجھے وہ وقت بھی اچھی طرح سے یاد ہے جب ہمارے پاس کھانے کے لئے بھی کافی رقم نہیں ہوتی تھی۔ اگر میرے والد اسکول سے معمولی سی رقم کماتے تو ایک دن میں اس کا بیشتر حصہ گھر پر خرچ کرتے۔

وہ پھل خریدتے اور باقی رقم میری ماں کے حوالے کرتے کیوں کہ وہی گھر کے سودا سلف فرنیچر، کٹلری وغیرہ کا انتظام کرتیں۔ خریداری میرے والد کے لئے ایک بے زار کن کام تھا، اتنا بے زار کن کہ اگر میری ماں خریداری میں بہت زیادہ دیر لگاتیں تو وہ ان سے بحث شروع کر دیتے۔ میری ماں اسے یاد دلاتی ہوئی کہتیں: ”دیکھیے میں آپ کے لئے ہمیشہ عمدہ کپڑے منتخب کرتی ہوں اور جب آپ اسے پہنیں گے تو میرا شکریہ ضرور ادا کریں گے۔“ وہ میرے بھائیوں، میری ماں اور مجھے مسرور اور صحت مند دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے لئے ہماری زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت تعلیم، احترام اور غیر مشروط محبت کی تھی جو ہمیں امیر اور پرمسرت محسوس کرنے کے لئے کافی تھی۔

میرے ساتھ ان کی محبت میرے لئے ہر برائی اور شر سے تحفظ اور ڈھال کا کام دیتی ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جو مجھے ایک عورت کی حیثیت سے اپنے مستقبل کے لئے پرمسرت تحفظ فراہم نہیں کرتا، میں ایک پرمسرت اور پر اعتماد بچی کی طرح بڑی ہوئی۔ میں ایک ایسے گھر میں پلی بڑھی جہاں خواتین اور لڑکیوں کے لئے غیرمعمولی احترام پایا جاتا تھا، جب کہ ہماری دیواروں سے باہر کی دنیا اس کے برعکس تھی لیکن میرے والد نے مجھے محبت کی ڈھال فراہم کی تھی۔ وہ ایک ایسے معاشرے میں میرے محافظ تھے جو صنفی برابری پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ شروع سے ہی وہ ہر اس چیز کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہے جو میرے مستقبل کو خطرے میں ڈال سکتی۔ برابری میرا حق تھا اور اس کا حصول انھوں نے میرے لئے یقینی بنا دیا تھا۔

ہمارے گھر میں احترام کی یہ روایت خصوصاً خواتین کے لئے، ابا کی زندگی گزارنے کی اعلیٰ اقدار پر مکمل یقین کے ساتھ آئی تھی اور وہ ہمیں بھی انھیں اپنانے کے مواقع فراہم کرتے تھے۔ میں نے ان سے یہ سیکھا ہے کہ جتنا ممکن ہو مجھے بہترین عمل کرنا چاہیے تاکہ میں بہترین بن سکوں اور مجھے ہر حال میں لوگوں کا احترام کرنا چاہیے ، چاہے وہ کہیں کے بھی رہنے والے ہوں۔

میرے والد اور میں شروع ہی سے دوست رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ اگرچہ ایسا بہت کم ہوتا ہے کیوں کہ جیسے ہی لڑکیوں کی عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے، باپ بیٹی کے درمیان فاصلے بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ میں اپنا ہر معاملہ ماں کے مقابلے میں اپنے والد کے ساتھ زیادہ شیئر کرتی تھی۔ یہاں تک کہ ماہواری کے درد کی شکایت سے لے کر پیرڈ پیڈز کے لانے تک۔ در حقیقت میں اپنی ماں سے بے حد خوف زدہ رہتی کیوں کہ وہ طبیعت کی بہت سخت تھیں۔ اگر اپنے بھائیوں کے ساتھ میرا کوئی جھگڑا ہوتا جو عموماً روزانہ ہوتا، تو والد ہمیشہ میرا ساتھ دیتے۔

میں پاکستان میں اپنی کلاس کی دوسری لڑکیوں، پڑوس کی سہیلیوں اور وادیٔ سوات کی دیگر لڑکیوں سے مختلف نہ تھی لیکن مجھے تعاون اور حوصلہ افزائی پر مشتمل پرورش پانے کا ایک ان مول موقع ملا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ میرے والد مجھے روزانہ لمبے لمبے لیکچر دیتے یا مشورے دیتے رہتے بلکہ ان کے اخلاق، سماجی تبدیلی کے لئے ان کی لگن، ان کی دیانت داری، ان کی کشادہ دلی، ان کا وژن اور ان کے طرز عمل نے مجھ پر گہرا اثر ڈالا تھا۔

میرے والد ہمیشہ مجھے سراہتے تھے۔ مجھے ہمیشہ یہ کہا جاتا تھا کہ ”جانی! تم اپنی تعلیم میں بہت اچھی جا رہی ہو۔ تم تقریر بہت اچھی کر لیتی ہو۔“ جانی، میرا عرفی نام ہے جو مجھے میرے والد پیار سے کہتے ہیں۔ مجھے ہمیشہ میری چھوٹی کامیابیوں، اپنے اسکول کے کام، آرٹ کے کام، تقریری مقابلوں اور ہر چیز کے لئے قدر افزائی اور حوصلہ افزائی ملی۔ میرے والد ہمیشہ مجھ پر فخر کرتے تھے۔ انھوں نے مجھ پر اپنے آپ سے زیادہ اعتماد کیا اور اس سے مجھے حوصلہ ملا کہ میں کچھ بھی کر سکتی ہوں اور سب کچھ کر سکتی ہوں۔

میرے والد ایک بہت اچھے سامع ہیں اور یہ ان کی خصوصیات میں سے ایک ہے جسے میں بہت پسند کرتی ہوں۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوتے ہیں جب وہ اپنے آئی پیڈ پر ٹویٹر میں مصروف ہوں۔ تب انھیں متوجہ کرنے کے لئے انھیں ان کا نام ”ابا“ دس دفعہ پکارنا پڑتا ہے۔ اس وقت جب بھی میں انھیں آواز دوں گی تو وہ کہیں گے کہ ”جی جانی!“ لیکن ٹویٹر پر ہوتے ہوئے دراصل وہ کچھ نہیں سن رہے ہوں گے۔ عام حالات میں جب وہ لوگوں اور خاص طور پر بچوں کی باتیں سن رہے ہوں تو وہ مکمل طور پر ان کی طرف توجہ مرکوز کرتے ہیں اور پورے دھیان سے ان کی بات سنتے ہیں۔

وہ میری بات بھی اتنی ہی توجہ سے سنتے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ مجھے سنا، میری چھوٹی چھوٹی کہانیاں، میری شکایات، میری پریشانیاں اور میرے سارے منصوبے سنے۔ میرے والد نے مجھے احساس دلایا کہ میری آواز مؤثر ہے اور اس کی اہمیت ہے۔ انھوں نے مجھے اپنی آواز استعمال کرنے کی ترغیب دی اور مجھے بے حد اعتماد دیا۔ میں جانتی تھی کہ کہانی کو کس طرح بیان کرنا ہے، تقریر کس طرح کرنی ہے، اور جب طالبان سے سامنا ہوا تو مجھے لگا کہ میں اپنی تعلیم اور اپنے حقوق کے دفاع کے لئے آواز بلند کرنے کی بھرپور طاقت اور صلاحیت رکھتی ہوں۔

بڑی ہو کر مجھے معلوم ہوا کہ میرے والدین کتنے مختلف تھے، جب میرے آس پاس کی لڑکیوں کو یا تو اسکول جانے سے روک دیا جاتا تھا یا انھیں ایسے مقامات پر جانے کی اجازت نہیں تھی جہاں ہجوم میں مرد اور لڑکے شامل ہوتے۔ ہم اس قسم کے معاشرے میں بہت ساری خواتین اور لڑکیوں کو ضائع کر دیتے ہیں جہاں مرد یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ خواتین کو کس طرح رہنا چاہیے اور خواتین کو کیا کرنا چاہیے۔ میں نے ایسی حیرت انگیز لڑکیوں کو دیکھا ہے جنھیں اپنی تعلیم اور اپنے مستقبل کو ترک کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔

ان لڑکیوں کو کبھی بھی خود پر اعتماد کرنے کا موقع نہیں دیا گیا لیکن میں ان لڑکیوں میں سے نہیں تھی، میں ان جگہوں پر بھی تقریر کرتی تھی جہاں صرف لڑکے تقریر کرتے تھے۔ اگرچہ میں اپنے قرب و جوار میں مردوں کو زیرلب یہ کہتے ہوئے سنتی کہ ان لڑکیوں کو علاحدہ رکھنا چاہیے۔ میری اپنی ہم جماعت ساتھیوں اور سہیلیوں کو ان کے والدین اور بھائی ان اسکولوں میں جانے سے منع کرتے جہاں لڑکے اور لڑکیوں کے مابین تقریری مقابلے منعقد ہوتے۔ میرے والد اس قسم کی ذہنیت کے سخت خلاف تھے اور اس میں تبدیلی لانا چاہتے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ میرے والد ہمارے گھر کے مہمان خانے میں اپنے ان دوستوں اور بزرگ افراد کے ساتھ گفت گو کرتے جو ان سے ملنے کے لئے آتے تھے۔ میں ان کے لئے چائے لے کر جاتی اور وہاں ان کے ساتھ بیٹھ جاتی۔ میرے والد نے کبھی نہیں کہا: ”ملالہ، تم جانتی ہو، یہاں زیادہ عمر کے لوگ بیٹھے ہیں، سیاست پر بحث ہو رہی ہے، تمہیں یہاں نہیں بیٹھنا چاہیے۔“ بلکہ وہ مجھے وہاں بیٹھنے اور سننے دیتے، یہاں تک کہ مجھ سے کمرے کے اندر ہونے والی باتوں پر رائے بھی طلب کرتے۔

یہ بہت ضروری ہے کیوں کہ ایک غیر مساوی گھر یا معاشرے میں جب ایک لڑکی پھلتی پھولتی ہے تو اسے اپنے خوف سے لڑنا پڑتا ہے کہ اپنے لئے خواب دیکھنا اس کے لئے درست نہیں ہے۔ لاکھوں لڑکیوں کے لئے گھر کے مقابلے میں اسکول ایک زیادہ محفوظ جگہ ہے۔ گھر میں انھیں کھانا پکانے، صفائی کرنے اور شادی کے لئے تیار رہنے کا کہا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ میرے والدین کے ساتھ ساتھ اسکول نے مجھے معاشرے کی مقررہ حدود سے تحفظ دیا۔ جب میں نے اسکول جانا شروع کیا تو میری دنیا میرے حیرت انگیز اساتذہ اور مشفق پرنسپل پر مشتمل تھی۔ اس کے ساتھ میری کلاس کے وہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تھیں جن کے ساتھ میں باہم سیکھنے کے عمل میں مصروف رہتی اور ہم اپنے روشن مستقبل کے سنہرے خواب دیکھا کرتے۔

اس بات کی وضاحت میرے لئے بہت مشکل ہے کہ جب میرے والد نے اسکول کھولا تو میں وہاں پڑھنے کے لئے کتنے شوق سے جاتی تھی۔ جب میں سیکھ رہی تھی تو میں محسوس کرتی تھی کہ جسمانی طور پر میرے دماغ کی نشوونما بڑی تیزی سے ہو رہی ہے۔ میں جانتی تھی کہ نئی معلومات کی وجہ سے میرے ذہن میں وسعت پیدا ہو رہی تھی اور وہ تمام چیزیں جو میرے ذہن میں جمع ہو رہی تھیں، ان کی بدولت میری وسعت نظر میں اضافہ ہو رہا تھا۔

میرے والد جن کی وجہ سے میں بلندی تک پہنچ گئی ہوں، آج بھی پہلے کی طرح ہیں۔ وہ مثالیت پسند ہیں اور ایک استاد ہونے کے ساتھ وہ شاعر بھی ہیں۔ بعض اوقات مجھے لگتا ہے کہ وہ ایک رومانوی دنیا میں رہتے ہیں، ایک ایسی دنیا جس میں وہ لوگوں سے محبت کرتے ہیں، اپنے دوستوں، اپنے خاندان اور تمام انسانوں سے محبت کرتے ہیں۔ میں شاعری پڑھنا پسند نہیں کرتی لیکن میں اس کی محبت کا پیغام سمجھ سکتی ہوں۔

جو لوگ ہماری دنیا میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں، وہ عام طور پر یا تو جلد ہی ہمت ہار جاتے ہیں یا وہ اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانے میں پس و پیش سے کام لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ جانتے ہیں کہ تبدیلی لانا ایک مشکل کام ہے۔ میں کیا کر سکتا ہوں، میں کس طرح مدد کر سکتا ہوں؟ لیکن میرے والد نے ہمیشہ اپنے آپ پر اعتماد کیا اور انھوں نے اپنی صلاحیت کو کم سے کم تبدیلی لانے کے لئے بھی استعمال کیا۔ انھوں نے مجھے سکھایا کہ اگر آپ محض ایک شخص کی مدد کر سکتے ہیں تو آپ کو یہ محسوس نہیں کرنا چاہیے کہ یہ معمولی مدد ہے۔ ہر چھوٹی مدد ایک بڑی تبدیلی کی بنیاد بن سکتی ہے۔ میرے والد کے خیال میں کامیابی صرف مقصد تک پہنچنا نہیں ہے بلکہ اس سفر کو شروع کرنے میں ایک خوب صورتی پنہاں ہوتی ہے اور اس سفر کے دوران معاشرے کو کچھ دینا اور تبدیلی کی حوصلہ افزائی کرنا ہی اصل مقصد ہے۔

میرے والد شاید پوری دنیا کو اس بات پر قائل نہیں کر سکتے کہ عورت کے ساتھ احترام اور مساوات کے ساتھ برتاؤ کیا جائے جو وہ آج بھی ہر روز کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ انھوں نے میری زندگی کو بہتر بنا دیا ہے۔ انھوں نے مجھے میرا مستقبل دیا ہے، انھوں نے مجھے میری آواز دی ہے اور انھوں نے مجھے پرواز کرنے دیا ہے۔

ابا! میں بھلا آپ کا شکریہ کیسے ادا کر سکتی ہوں؟

(اپنے والد ضیاء الدین یوسف زئی کی کتاب Let Her Fly کے اردو ترجمہ پر ملالہ یوسف زئی کا تحریر کردہ پیش لفظ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments