افسانوی مجموعہ: آب مرگ


احسان اللہ لاشاری کا افسانوی مجموعہ ”آب مرگ“ ابھی ختم ہوا ہے، اس سے پہلے کہ میں اس میں موجود افسانوں پر بات کروں، یہاں میں جیلانی بانو صاحبہ کے ایک مضمون کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں، جو دوہزار پانچ میں ”دنیا زاد“ رسالے میں شائع ہوا، اس میں وہ لکھتی ہیں کہ

”آج ایک ادیب کے لیے یہ دنیا جتنی غورطلب ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ ہم نئی صدی میں داخل ہو رہے ہیں، یہ انسانی تہذیب کا بہت الجھا ہوا دور ہے۔ فیصلے، نظریے، سیاسی اخلاقی اصول، پیار اور محبت کے رشتے۔ سب سائنس اور سیاست کی بڑھتی ہوئی طاقت نے بدل ڈالے ہیں۔”

تو اس بدلتی ہوئی دنیا میں ایک اچھا ادیب وہی ہو گا جو اپنے زمانے کے ساتھ جڑا ہو گا۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس عہد کے انسان کے مسائل کیا ہیں اور وہ اپنی کہانیوں میں اس کا اظہار بھی کرے۔ ”آب مرگ“ کے افسانوں کی ایک خوبی تو یہی ہے کہ یہ اس عہد کے افسانے ہیں، یہ موجود ہ دورکے انسان کے مسائل کا بیاں ہے۔

مثال کے طور پر کتاب کا پہلا افسانہ ”سنگ تراش“ ہی لے لیجیے، جس طرح کی شدت پسندی ہمارے ہاں بڑھتی جا رہی ہے، یہاں فن اور فن کار کے ساتھ بالکل ایسا ہی سلوک روا رکھا جائے گا جیسا کہ اس کہانی کے مرکزی کردار کے ساتھ ہوتا ہے جو ایک آرٹسٹ ہے، مجسمے تراشتا ہے، وہ ایک ایسے علاقے اور ایسے زمانے میں موجود ہے جہاں فن کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ اس کے فن پارے توڑ دیے جاتے ہیں اور مجبوراً اسے اپنا علاقہ چھوڑنا پڑتا ہے۔

”تتلیاں“ افسانہ اس پدرشاہی معاشرے کے منہ پر طمانچہ ہے، یہاں خواتین اپنے حقوق کے لیے لانگ مارچ نہ کریں تو کیا کریں۔

”وظیفہ جی“ اس مجموعے کی بے حد عمدہ اور مضبوط کہانی ہے، اس کہانی کا مرکزی کردار ایک چھوٹا لڑکا رحمت ہے جسے اس کا باپ اپنی جنت کمانے کے چکر میں مدرسے میں داخل کرا دیتا ہے، جہاں وہ گھر گھر جا کر روٹی سالن مانگتا ہے، بچہ تو بچہ ہوتا ہے اس کے اندر بھی اچھا کھانا کھانے کی امنگ ہوتی ہے، وہ بھی زندگی کو جینا چاہتا ہے، پھر وہ ایک روز ایک شادی کی تقریب میں بن بلائے داخل ہو جاتا ہے جہاں لوگ اسے دھتکار کر نکال دیتے ہیں، اس کہانی کا اختتام بے حد دلگیر ہے۔

”خواب حقیقت“ افسانے کا شمار ہارر فکشن میں آئے گا، کہانی کی ابتدا میں مصنف نے قبرستان کی جس طرح منظرکشی کی ہے وہ ایک خوفزدہ سا ماحول بنا دیتی ہے، پھر یک دم کہانی فلیش بیک کی تکنیک کے ساتھ ماضی کی جانب مڑتی ہے جہاں ہمیں اس کردار کے بارے مزید تفصیلات ملتی ہیں۔ اور پھر جیسے ہی کہانی واپس حال میں آتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ یہ سب تو ایک خواب تھا اور کردار اپنے بستر پر موجود ہے۔ اگر کہانی یہاں ختم ہو جاتی تو یقیناً یہ ایک روایتی اختتام ہوتا کہ ہم نے کتنی ایسی کہانیاں پڑھ رکھی ہیں جہاں سب کچھ ہونے کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک خواب تھا مگر یہاں مصنف نے آخری پیراگراف لکھ کر کہانی کو ایک نئی جہت دی ہے۔

”اچانک گلاس اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ اسے اپنے دائیں ہاتھ کی پشت پر چھوٹے چھوٹے زخم نظر آئے تھے۔ جن سے تازہ خون رس رہا تھا۔ یہ دیکھ کر اس کے حواس گم ہو گئے۔ وہ چکرا کر گرپڑا۔“

وہ افسانہ کہ جس پر اس کتاب کا نام رکھا گیا ہے، وہ پانی کے مسئلے پر ہے، جس طرح کا لوکیل اور ماحول اس کہانی کا ہے، وہ میرے ذہن میں بچپن کی کچھ ادھوری تصویریں بناتا ہے، ہمارے گاؤں سے کافی دور ایک چھوٹا سا قبیلہ آباد تھا جہاں لوگ جوہڑوں میں بارش کا جمع شدہ پانی اپنے پینے کے لیے استعمال کرتے تھے، مدت ہوئی کہ میں کبھی وہاں گیا نہیں، شاید اب بھی وہاں انسان اور جانور جوہڑوں سے ہی پانی پی رہے ہوں کہ غریبوں کے حالات اتنی جلدی نہیں بدلتے۔

تو میں کہہ رہا تھا کہ یہ کہانی پڑھ کر مجھے وہ قبیلے کے لوگ یاد آ گئے تھے اور میں اداس ہو گیا۔ یہ کہانی بھی اداس کر دینے والی کہانی ہے۔ پانی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ اس عہد کے انسان کے بڑے المیوں اور پریشانیوں میں سے ایک ہے۔ سندھو دریا کے پانیوں کو کم ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں، زیرزمین پانی کی سطح نیچے اور نیچے ہوتی جا رہی ہے۔ اس مسئلے پر یقیناً بہت کچھ لکھا جانا چاہیے۔

اس کتاب کے شروع میں دو مضامین بھی ہیں، جو امید ہے عمدہ ہوں گے تاہم میں افسانوں کی کتاب کے شروع میں لکھے گئے مضامین اس لیے چھوڑ دیتا ہوں کہ کہیں میں کتاب میں شامل افسانے فاضل مضامین نگاروں کے چشمے سے نہ پڑھنے لگ جاؤں جب کہ میرے اپنے پاس ایک اچھی عینک موجود ہے۔ ہاں کتاب ختم کرنے کے بعد مضامین پڑھ لینے میں کوئی برائی نہیں۔

یہ احسان اللہ لاشاری کی پہلی کتاب ہے اور سچ پوچھیں تو یہ بے حد عمدہ افسانوی مجموعہ ہے ، جسے افسانے کے قارئین کو ضرور پڑھنا چاہیے۔

اس کتاب کو ”ق پبلی کیشنز ڈیرہ اسماعیل خان“ نے شائع کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments