ہلدا کروگر: ناکام اداکارہ مگر کامیاب جاسوس جنھوں نے بڑے سیاستدانوں کو اپنے دام میں پھنسایا


انھوں نے بالی وڈ سٹار بننے کی کوشش کی مگر اس میں انھیں کچھ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی مگر اسی دوران وہ میکسیکو کے چند بڑے سیاستدانوں کو اپنے دام میں پھانسنے میں ضرور کامیاب رہیں۔

تاہم کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ ہلدا کروگر ناصرف ایک اوسط درجے کی اداکارہ تھیں بلکہ وہ ایک جاسوس بھی تھیں۔ انھیں میکسیکو میں کام کے دوران نازیوں کا تعاون حاصل رہا اور اُن کی پشت پناہی کرنے والوں میں ہٹلر کے وزیر برائے پراپیگنڈا جوزف گوئبلز بھی شامل تھے۔

ہلدا کا مقصد کچھ چھوٹا نہیں تھا۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ میکسیکو میں دستیاب تیل کی دولت اور دیگر قدرتی وسائل تک جرمنی کی رسائی کو ممکن بنایا جائے تاکہ اس دولت کا استعمال کرتے ہوئے وہ سرمایہ اکٹھا کیا جائے جس کی مدد سے سوویت یونین تک رسائی کی راہ ہموار ہو پائے۔

مؤرخ اور کتاب ’لائف اینڈ ورک آف اے نازی سپائی اِن میکسیکو‘ کے مصنف جان البرٹو بتاتے ہیں کہ ’اگر اداکاری کی بات کی جائے تو وہ بہت اوسط درجے کی ایکٹر تھیں مگر اس دور کے اعلیٰ طبقے (اپر کلاس) کے افراد پر قابو پانے اور انھیں اپنا گرویدہ بنانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔‘

لیکن یہ کہانی صرف ایک سنہرے بالوں والی عورت کی خوبصورتی تک محدود نہیں ہے جو فریب کاری میں مہارت رکھتی تھی بلکہ اس سے بہت بڑھ کر ہے۔ ہلدا کی وفات آج سے 30 برس قبل ہوئی تھی۔

وہ سنہ 1912 میں جرمنی کے مغربی شہر کولون میں پیدا ہوئی تھیں اور 20 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے وہ ایکٹنگ کے شعبے میں اپنا نام کسی حد تک بنا چکی تھیں۔

اداکاری کے شعبے میں انھیں معمولی اور درمیانے درجے کے کردار نبھانے کو ملتے تھے، شاید یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے میڈیا جائزوں میں ان کا نام بطور اداکارہ کچھ زیادہ نمایاں نہیں تھا۔

ہٹلر

1930 کی دہائی میں انھوں نے امریکہ کے تجارتی سینما میں خود کو متعارف کروانے کی ناکام کوشش کی۔ بڑی اور معروف اداکارہ بننے کے اپنے خواب کو پورا کرنے کی غرض سے انھوں نے ایک بااثر امریکی تاجر سے شادی بھی کی لیکن انھیں بالی وڈ سے وہ نتائج حاصل نہ ہو پائے جن کی وہ توقع کر رہی تھیں۔ مگر ان تمام کامیابیوں اور ناکامیوں کے درمیان جرمنی کو سپورٹ کرنے کی اُن کی خواہش کبھی ان کے ذہن سے محو نہ پائی۔

مؤرخ جان البرٹو کے مطابق ‘وہ ایک ناکام اداکارہ تھیں اور انھوں نے زندگی میں معمولی کردار ادا کیے۔ اس وقت ان کی پشت پناہی ہٹلر کے وزیر برائے پراپیگنڈا گوئبلز کر رہے تھے۔ وہ (ہلدا) ان ہی کی اجازت سے امریکہ روانہ ہوئی تھیں۔ لیکن بعد میں ان کے حوالے سے فیصلہ کیا گیا کہ امریکہ کے بجائے میکسیکو میں ان کا کردار زیادہ اہم ہے۔’

وہ مزید بتاتے ہیں کہ میکسیکو کے مشن پر روانہ کرتے ہوئے انھیں ‘محب وطن’ ہونے کا کردار نبھانا تھا اور اس مشن کی تکمیل کے لیے انھیں اپنی خوبصورتی کا خوب خوب فائدہ اٹھانا تھا۔

میکسیکو میں؟

میکسیکو کے بہت سے وزرا ہلدا کروگر کے حلقہ احباب میں شامل رہے۔ ہلدا کی سوانح عمری لکھنے والوں کے مطابق وہ وہاں انھوں نے بہت سے بااثر افراد اور کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور دوستانے قائم کیے۔

مؤرخ جان البرٹو کا کہنا ہے کہ ‘انھوں نے سٹریٹجک وسائل جیسا کہ پارا (مرکری) تک رسائی حاصل کرنے کے سلسلے میں ان میکسیکن افراد کے تعلقات کا استعمال کیا جس نے جرمنی کی ممنوعہ تجارتی خام مال حاصل کرنے میں مدد کی۔ انھوں نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی فوجی نقل و حرکت سے متعلق معلومات بھی جرمنی منتقل کیں۔’

مؤرخ جان وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ نازی ازم کے متعدد منصوبوں میں سوویت سرزمین میں داخل ہونے بھی شامل تھا مگر ایسا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اسلحے اور ایندھن کی ضرورت تھی۔ طاقتور میکسیکنز کے ساتھ اپنے تعلقات کی وجہ سے کروگر نے جلد ہی ایک اہم مقام حاصل کر لیا تھا۔

اس ضمن میں ہونے والی تفتیش میں میکسیکو کے اعلی حکام اور کاروباری افراد کے جرمنی کے ساتھ مبینہ تعلقات کا ذکر کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے تحقیق کرنے والوں کے مطابق ‘ہلدا کو میکسیکو تیل کی دولت تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ وہ تعلقات عامہ کی ماہر تھیں جبکہ میکسیکنز سنہرے بالوں والی خواتین سے ویسے ہی محبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وہ ایسا ظاہر کرتی تھیں جیسا کہ وہ بیوقوف ہیں مگر درحقیقت وہ انتہائی سمجھدار اور ذہین تھیں۔’

ہٹلر کے وزیر برائے پراپیگنڈا جوزف گوئبلز کی مدد اور رہنمائی کی بدولت ہلدا نے بتدریج نازیوں کے لیے بہت سی فیورز حاصل کیں۔ ‘وہ میکسیکو کے اعلیٰ حکام کی قربت حاصل کرنے میں اس لیے بھی کامیاب ہو گئی تھیں کیونکہ امریکہ نے ان کے لیے رابطے استوار کرنے کے عمل کو آسان بنایا۔’

مؤرخ جان وضاحت کرتے ہیں کہ اپنے رابطوں، خاص طور پر طاقتور پی آر آئی پارٹی میں، کو استعمال کرتے ہوئے وہ ایسی اہم معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں جس نے جرمنی کو میکسیکو میں توانائی اور معدنی وسائل تک رسائی ممکن بنانے میں مدد دی۔

دوسری جانب صورتحال یوں تھی کہ معدنیات پیدا کرنے والے جنوبی امریکہ کے دوسرے ممالک نے نازیوں کے ساتھ تجارتی روابط ختم کر دیے تھے۔

در حقیقت ، بولیویا جیسے ممالک نے جرمنی کا سامنا کرنے والے ممالک کے اتحاد کی حمایت کی غرض سے اپنے خام مال جیسے ٹن کی ‘خصوصی’ قیمتیں مقرر کر دیں تھیں۔

میکسیکو ہی کیوں؟

اس ملک کے جغرافیائی تناظر کے علاوہ، نازی جرمنی یو ایس ایس آر کے نظریاتی تقابل پر تھا۔

اور ہٹلر کے توسیعی منصوبے میں روسی سرزمین پر سٹریٹجک پوزیشن قائم کرنا بھی شامل ہے ۔

سوویت یونین اپنے آپ کو صرف ایک عالمی طاقت کے طور پر آگے بڑھا رہا تھا جبکہ نازی پورے یورپ میں اپنی جیو پولیٹیکل طاقت کو بڑھانے کے لیے مختلف طریقوں کا جائزہ لے رہے تھے۔

اگرچہ یہ سب کچھ میکسیکو سے بہت دور ہو رہا وقوع پذیر ہو رہا تھا، میکسیکو جو سنہ 1910 میں آنے والے انقلاب کے ہچکولے برداشت کر رہا تھا اور اس وجہ سے اس ملک کے قدرتی وسائل کو ریاستی طور پر قبضے میں لے لیا گیا تھا۔ دوسری جانب 1846 اور 1848 کے دوران ہونے والی امریکی مداخلت کے نتیجے میں یہ ملک اپنا اہم حصہ کھو چکا تھا۔

اس تمام تر تاریخی اور موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے جوزف گوئبلز مختلف انداز میں سوچ رہے تھے۔

سنہ 1938 میں میکسیکو نے اپنے ملک میں واقع تیل کے ذخائر کو قومیا لیا تھا۔ اور اسے ایک فوری مسئلہ یہ درپیش تھا کہ امریکی اور برطانویوں نے ان کی صنعت کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔

اس صورتحال نے میکسیکو کو جیو پولیٹیکل مقابلے سے دوچار کر رکھا تھا اور دوسری جنگ عظیم کے ابتدائی برسوں میں نازیوں نے اس سے فائدہ اٹھایا۔

مؤرخ جان کہتے ہیں کہ ‘میکسیکن قوم پرستی کا سلسلہ 1980 کی دہائی تک جاری رہا۔’

پولینڈ پر جرمنی کے حملے (1939) کے بعد میکسیکو کے توانائی کے ذخائر کی سمگلنگ نازی جرمنی کے لیے ‘سٹریٹجک’ حیثیت اختیار کر چکی تھی۔

‘ہٹلر کے لیے اپنی مسلح افواج کو مضبوط بنانا ضروری تھا۔ اور اس کے لیے اسے اپنی جنگ کی صنعت کو مضبوط کرنے کی ضرورت تھی جس میں اس کی جزوی مدد میکسیکو کے ذریعے ہوئی۔’

تیل کے علاوہ پارا اور ایلومینیم نہ صرف بجلی کی پیداوار میں استعمال ہوتے تھے بلکہ یہ ہوائی جہازوں کی تیاری کے لیے بھی استعمال ہوتے تھے۔

بلآخر پرل ہاربر پر جاپانی حملوں کے بعد امریکہ بھی ہٹلر کو شکست دینے کے لیے قائم ہونے والے اتحاد میں شامل ہو گیا۔

ہٹلر کے وزیر برائے پراپیگنڈا جوزف گوئبلز نے اپنے بچوں کو زہر دینے کے بعد سنہ 1945 میں خودکشی کر لی تھی۔ جس کے بعد ہلدا کا کریئر بھی مزید آگے نہ بڑھ سکا اور اس کی مشہوری ایک اداکارہ ہونے سے زیادہ پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر رہی۔

مؤرخ جان کے مطابق ‘جب پچاس کی دہائی میں نازیوں کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کی تفصیلات سامنے آنے لگیں تو اس کا اثر ہلدا پر بھی ہوا۔ انھیں ایسا محسوس ہوا جیسا یہ سب جرائم کرنے میں وہ برابر کی شراکت دار تھیں، درحقیقت انھیں مکمل طور پر معلوم نہیں تھا کہ نازی کن جرائم کا ارتکاب کر رہے تھے۔’

سنہ 1991 میں دنیا کی رنگینیوں سے دور شمالی جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے میں اُن کا انتقال ہوا۔ مؤرخ جان کے مطابق میکسیکو کی اشرافیہ میں انھیں اب بھی یاد کیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp