ایک اجازت نامہ درکار ہے



میرا نیٹ سلو ہے، کئی دنوں سے ایک کال ملا رہی ہوں، لگ ہی نہیں رہی۔ میں خدا سے ایک اجازت نامہ لینا چاہتی ہوں۔ اجازت نامہ کہ میں اپنے بچوں کو سب سے پہلے انسانیت کا درس دوں؟ اور پھر رحمت العالمینﷺ کے عفو و درگزر کے واقعات سنا کر ان کے دلوں کے تار مذہب سے جوڑوں؟

علماء کی محفلوں میں اس بات پر بحث جاری ہے کہ کون سے گناہ زیادہ لائق تعزیر ہیں؟ کس نوعیت کی نافرمانی پر کوئی شخص واجب القتل قرار دیا جائے؟ جبکہ رب کریم کے نام سے ”اپنے“ (ذاتی و سیاسی مفادات پر مبنی) فرمان جاری کرنا بھی تو جرم ہے۔ کلام ربی کا محکم حوالہ ہے کہ جس نے ایک جان /انسان کو قتل کیا گویا وہ پوری انسانیت کا قاتل ٹھہرا تو پھر کیا ایک مسلمان کا کسی دوسرے مسلمان کو قتل کرنا گناہ نہیں؟ اور ان سب سے بڑھ کر بچوں سے ان کا معصوم بچپن چھیننا، کیا یہ گناہ نہیں ہے؟

گزشتہ دنوں تحریک لبیک کے دھرنوں میں لی گئی ایک تصویر نظر آئی۔ جس کو دیکھ کر اپنے حال کی تو کیا مستقبل کی جھلک بھی بڑی واضح دکھائی دے رہی ہے۔ بڑوں کے ہاتھوں میں تو ڈنڈے سوٹے دیکھنا اب معمول سا لگتا ہے۔ مگر بھولپن کی چھینٹیں پڑتی صورت اور حیران آنکھیں لیے ننھے ننھے ہاتھوں میں ڈنڈے دیکھنا مجھ جیسی ماں کے لیے نہایت ہی تکلیف دہ ہے۔

ن م راشد نے کہا تھا کہ :
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
ریگ دیروز میں خوابوں کے شجر بوتے رہے
سایہ ناپید تھا سائے کی تمنا کے تلے سوتے رہے

سو ہم محبت و رواداری کے تاریک کھنڈروں کے مکینوں نے اپنی طرف آتی ہر روشنی کی کرن کو تو ڈنڈے مار مار کر بھگایا ہی ہے اور محبت کی کونپلوں کو ہمیشہ بے دردی سے کچلا تو ہے۔ مگر اب ان کھنڈرات کے باسی اپنے ننھے ننھے بچوں کے شفاف دلوں میں تعصب بھرے الفاظ سے ڈنگ مار مار کر اپنے اپنے مفاداتی عقیدوں کا جو زہر بھر رہے ہیں۔ کیا ہم کبھی ان معصوم ذہنوں اور شفاف دلوں میں اترتی اس کڑواہٹ کی بھی کوئی ویکسین ایجاد کر پائیں گے؟ یہ بچے بھی کیا یہی سب کچھ کریں گے؟ کیا ان کا مستقبل بھی یونہی تاریک رہے گا؟

نفرتوں سے اٹے اس متشدد سماج کے حبس آلود موسم میں سانس لیتے اپنے بچوں کو دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ اس زہریلی اور بدبودار فضاء میں میرے معصوم بچوں کا زیادہ دیر تک سانس لینا ممکن نہیں۔ ہمارے سماج سے محبت و رواداری تو کب کی ہجرت کر چکیں۔ اب باقی کچھ بچ گیا ہے تو وہ نفرت اور عدم برداشت ہے۔ رہی سہی کسر تعصب اور شدت پسندی نے پوری کر دی ہے۔ اس تعصب کے کالے بادلوں نے ہمارے ملک کے ہر باسی کے ذہن و دل میں ڈیرے ڈال لیے ہیں۔

بڑھتی ہوئی عدم برداشت سے رستی سرخ نمی نے رواداری و برداشت کو سیلن زدہ کر دیا ہے۔ بھائی چارہ اور انسان دوستی جیسے جذبوں کو پھپھوندی لگ گئی ہے۔ دلوں میں رچی وحشیانہ اناؤں، کج فہمیوں، خود ساختہ محرومیوں اور اندھی نفرتوں کا ایسا بدبو دار تعفن ہے جس میں میرے بچے زیادہ دیر تک سانس نہیں لے پائیں گے۔ سو مجھے اجازت چاہیے کہ میں اپنے بچوں کو سب سے پہلے یہ بتا پاؤں کہ مذہب محبت و رواداری کا نام ہے۔

مذہب اخلاق کا، سچائی و ایمان داری کا اور احترام آدمیت کا نام ہے۔ مذہب خالق اور اس کی مخلوق کے مابین ایک مامتا بھرے احساس سے گندھے باہمی رشتے کا نام ہے۔ پھر مجھ سمیت کسی مبلغ و عالم کو یعنی کسی بھی تیسرے شخص کو اپنی تعصب کی عینک لگا کر اس رشتے کو جج کرنے کا حق نہ ہے۔

مجھے اجازت درکار ہے کہ میں اپنے بچوں کو سکھا پاؤں کہ وہ سوالات جن کی بازپرس مالک یوم الدین کے ذمہ ہے۔ اپنی انا کی تسکین کی خاطر تم وہی سوال لوگوں سے اس دنیا میں پوچھ پوچھ کر ان پر پارسائی کی دھاک نہیں بٹھا سکتے۔ تمھارے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگوں کی جان وعزت لازماً محفوظ رہنی چاہیے۔ تم لوگ بس خوش رہو، پیار بانٹو، معاف کرو، احسان کرو، جیو اور جینے دو اور باقی سب خالق پر چھوڑ دو۔

سو مجھے ایک اجازت نامہ درکار ہے۔ ملک عزیز میں زندہ رہنے کو، جہاں ہم کسی کو سوچنے، سوال کرنے اورمختلف نقطۂ نظر رکھنے کا حق دینے کو تیار نہیں۔ ایسے معاشرے میں جہاں پر کچھ بھی کہتے یا لکھتے آپ کو یہ ڈر ہو کہ جانے کب کس بات پر آپ پر کفر کا فتویٰ صادر کر دیا جائے اور آپ واجب القتل قرار دیے جائیں۔ کیا اس معاشرے میں زندہ رہنے کو اس سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں؟ جو ان جنت اور دوزخ کے ٹکٹ بانٹنے والوں کو بہ وقت ضرورت دکھایا جا سکے۔ مگر میرا نیٹ سلو ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments