بیٹا ہو تو سلیم صافی جیسا


ابھی ابھی معروف صحافی اور اینکر پرسن سلیم صافی کو ان کی والدہ کے انتقال پر تعزیت کا فون کیا۔ فون کی گھنٹی دیر تک بجتی رہی کسی نے فون نہیں اٹھایا، بات نہ ہو سکی۔ یہ اچھا ہوا، اس لیے کہ ماؤں کے مر جانے کے بعد ہمدردی کے لفظ بہت بے معنی اور بے اثر ہوتے ہیں۔ کوئی لفظ اس دکھ کا کیسے مداوا کر سکتا ہے؟ کوئی جملہ کیسے اس الم کو بانٹ سکتا ہے؟

میری سلیم صافی سے بہت ملاقات نہیں، دوستی کا دعویٰ بھی میں نہیں کر سکتا لیکن جب بھی ملاقات ہوئی، بہت ہی احترام کے دائرے میں ہوئی۔ میل ملاقات کے طریقے سے ہی انسان کی تربیت کا پتہ چلتا ہے۔ سلیم صافی سے جب بھی ملاقات ہوئی یہ احساس ہوا ان کی تربیت ایسے پاکیزہ ماحول میں ہوئی ہے جہاں دوسرے کا احترام، گفتگو کا سلیقہ اور ملاقات کا قرینہ سکھایا گیا ہے۔

گزشتہ برس تین رمضان کو میری والدہ کا انتقال ہوا تھا۔ اس برس رمضان کی چار تاریخ سلیم صافی کی والدہ کو نصیب ہوئی۔ گزشتہ برس کے بعد ان سانحات پر میرا دل بہت مغموم ہو جاتا ہے، کسی کا غم اپنا دکھ بن جاتا ہے، کسی کے آنسو اپنی آنکھ سے ٹپکنے لگتے ہیں۔

قلب انسانی میں رقص عیش و غم رہتا نہیں
نغمہ رہ جاتا ہے، لطف زیر و بم رہتا نہیں

میری جب بھی صافی صاحب سے ملاقات ہوئی، موضوع چاہے، روس اور امریکہ کی سرد جنگ ہو، قبائلی علاقوں کے مسائل ہوں یا خیبر پختون خواہ کی بدتر حالت ہو، سلیم صافی کی گفتگو میں اپنی والدہ کا ذکر آ ہی جاتا۔ جب یہ ذکر گفتگو میں در آتا تو سلیم صافی نہ معروف صحافی ہوتے نہ مشہور اینکر بس ایک بچے کی طرح ہو جاتے جس کی گفتگو کا حرف حرف اپنی ماں کی محبت سے معمور ہے۔ ایسے میں انھیں عہدے رتبے اور محفل کا خیال بھول جاتا تھا۔

اس موضوع پر وہ دیر تک بہت دلچسپی سے بات کرتے، اپنی والدہ کی علالت کا تذکرہ دکھ سے کرتے، ان کے ادویات اور اوقات کے بارے میں تفصیل سے بتاتے۔ ان کی دعاؤں کی تاثیر کا تذکرہ کرتے، ان کی شب و روز کی مصروفیت کا احوال بتاتے۔ اس لمحے وہ سب باقی باتیں بھول جاتے، نہ سیاست کا میدان خا زار ان کو یاد ہوتا، نہ سماج کی علتوں پر ان کی نظر ہوتی، نہ وہ کٹیلے سوال کرتے، نہ چبھتے جواب دیتے۔ وہ اس موضوع کے ساتھ ہی محبت میں بدل جاتے، لجاجت ان کے لہجے میں در آتی اور ہر ملاقات کے اختتام پر وہ اپنی والدہ کی درازی عمر کی دعا ضرور کرتے۔

سلیم صافی کے والد کا انتقال انیس سو پچھتر میں ہو گیا تھا، ان کا تعلق خیبر پختون خواہ کے ضلع مردان کے ایک گاؤں ”کاٹلنگ“ سے تھا، یہی ان کا آبائی مسکن ہے۔ نو بہن بھائیوں میں سلیم صافی کا نمبر پانچواں ہے۔ والد کے انتقال کے بعد مالی حالات دگر گوں تھے تو بڑے بھائی نوروز صافی نے گھر کے معاش کی ذمہ داری لی اور والدہ نے بچوں کی تربیت کا فریضہ سنبھال لیا۔ ان کی والدہ، بخت نذیراں پاکیزگی کی بہت قائل تھیں، بچوں میں بھی یہی صفت در آئی ہے۔ انھوں نے بہت محنت، محبت اور مشقت سے بچوں کی تربیت کی، والد کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا، ہر بچے کا بھرپور انداز میں خیال رکھا اور اس کی تربیت پر توجہ مرکوز کی۔

صافی صاحب کی والدہ بہت پڑھی لکھی نہیں تھیں لیکن ماں محبت کے لیے کسی ڈگری کی محتاج نہیں ہوتی۔ بچوں سے محبت ان کی سرشت میں ہوتی ہے۔ سلیم صافی کی والدہ کی محبت صرف اپنی اولاد کے لیے مختص نہیں تھی وہ سب سے محبت سے پیش آتیں، سب کے لیے دعا کرتیں، سب کی خیر مانگتیں۔

سلیم صافی کی والدہ کی شخصیت میں سختی اور دبدبہ نہیں تھا، ان کا سارا وجود محبت سے بنا ہوا تھا، یہی شفقت ان کی شخصیت کا سب سے اہم وصف تھی، وہ سب کو دعا دیتیں، چھوٹے بڑے سے شفقت سے ملتیں، سب کے بھلے اور خیر کی دعا کرتیں، لباس کی پاکیزگی کا ان کو ہر لمحہ خیال رہتا، نماز کی قضا کا ان کے ہاں کوئی تصور نہیں تھا، یاسین شریف کا ورد ان کا روز کا معمول تھا، دن بھر تلاوت اور وظائف میں گزرتا، جب وقت ملتا تو پھر سب کی خیریت اور عافیت کے لیے ہاتھ بلند کر دیتیں۔

سلیم صافی کی والدہ کو اپنے اس بیٹے پر بہت فخر تھا، وہ ہمیشہ سب سے کہتیں کر فرماں بردار بیٹا ہو تو سلیم جیسا۔ سلیم صافی بھی ان کی خدمت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے، رات کو چاہے جتنی دیر سے گھر میں داخل ہوں پہلے والدہ کے کمرے میں جاتے۔ ان کو سلام کرتے، خیریت دریافت کرتے، دن بھر کا احوال پوچھتے، وہ اکثر والدہ کے سو جانے تک ان کے پاؤں دباتے تھے۔

ہر شخص کو بس اپنی ماں کے ہاتھ کا کھانا پسند ہوتا ہے۔ سلیم صافی بھی والدہ کے ہاتھ کا بنا ساگ، مکئی کی روٹی اور لسی فرمائش کر کر کے بنواتے اور والدہ ان کی فرمائش پوری کر کر کے نہال ہوتی رہتیں۔

سلیم صافی اکثر دوستوں سے ذکر کرتے تھے کہ اگر ان کی والدہ کا علاج امریکہ میں ہو تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر، بیچ باچ کر والدہ کا علاج امریکہ سے کروا لیں لیکن علاج ممکن نہیں تھا۔ اس کے باوجود یک سعادت مند بیٹے نے ہر ممکن خدمت کی، کبھی دوائی ختم نہیں ہونے دی، کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی۔ والدہ کا التفات آخری لمحے تک ان کو عزیز رہا۔

سلیم صافی کی والدہ قریباً آٹھ روز سے اسلام آباد کے کلثوم انٹرنیشنل ہاسپٹل میں داخل تھیں۔ آخری دنوں میں قوت گویائی بھی ختم ہو چکی تھی۔ اشاروں کی مدد سے بچوں کو بات سمجھاتیں، دلاسا دیتیں۔ رمضان کا چوتھا روزہ تھا، مغرب کی اذان کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ سلیم صافی کے بہن بھائی افطار کے لیے قریب کے کمرے میں تھے۔ سلیم صافی کی والدہ ”بخت نذیراں“ کے بدن میں جنبش ہوئی، بول کچھ نہ پائیں مگر انھوں نے نقاہت کے مارے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ مغرب کی اذان ہونے والی ہے، انھیں اس جاں کنی کے عالم میں بھی نماز کا خیال تھا۔

سلیم صافی والدہ کے پاس اکیلے تھے جب ان کی والدہ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی، بہن بھائیوں کو اس سانحے کے بارے میں اس وقت پتہ چلا جب والدہ کے کمرے سے سلیم صافی کی آواز میں اشھدان لا ۤالہ الا اللہ کی آواز سنائی دی۔ اس وقت مغرب کی اذان ہو چکی تھی، اندھیرا پھیل چکا تھا اور سلیم صافی کا سارا حوصلہ ہنر اور ہمت آنسوؤں میں ڈھل چکا تھا۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments