ضمیر کی آواز


خاموش اور سہمی ہوئی رات کی تاریکی میں بوجھل قدموں کی چاپ بھی یوں گونج رہی تھی جیسے فوج کا کوئی دستہ زمین کو اپنے بھاری بھرکم بوٹوں تلے روند رہا ہو، شاید یہی وجہ تھی کہ وہ انتہائی احتیاط سے قدم اٹھانے کے باوجود اپنے ہی قدموں کی چاپ پر چونک اٹھتا، اطراف کا جائزہ لیتا اور پھر چل پڑتا، محتاط انداز میں قدموں کی رفتار برقرار رکھنا اگرچہ مشکل تھا، لیکن اس کے پاس مسلسل تیزی سے آگے بڑھنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا، آدھی رات کا یہ پراسرار سناٹا اس کے کانوں میں یوں گونج رہا تھا جیسے مخبوط الحواس ہجوم ہاتھوں میں ہتھیار اٹھائے چیختا چلاتا اس کی جان کے درپے ہو۔

یہ محض اس کا وہم نہیں تھا کہ جس کا ذکر یہاں استعارہ کے طور پر کرنا مقصود ہو، بلکہ کچھ ہی دیر پہلے وہ ایک ایسے ہی شوریدہ سر ہجوم سے کسی نہ کسی طرح اپنی جان بچا کریہاں تک آ پہنچا تھا، اگرچہ وہ ہجوم تو کافی پیچھے رہ گیا تھا، لیکن وہ دل دہلا دینی والی چیخ و پکار اس کے کانوں میں اب بھی گونج رہی تھی، رات کا سناٹا جس قدر گہرا ہوتا جا رہا تھا اسی قدر اس کے کانوں میں گونجتی آوازیں بلند ہوتی چلی جا رہی تھیں۔ اس کی دہشت زدہ آنکھوں سے یوں لگتا تھا جیسے وہ پر تشدد ہولناک منظر آخری عکس بینا بن کر اس کی آنکھوں میں اترا ہو، کہ جس کے بعد اب کچھ اور سجائی دینا ممکن نہ رہا ہو۔

پسینے میں شرابور حال سے بے حال، مجروح بدن پر زخموں سے بہتا خون چاٹتا وہ مسلسل چلتا چلا جا رہا تھا، اگرچہ نقاہت اور کمزوری کے باعث اس کے قدموں کی رفتار کم ہوتی چلی جا رہی تھی، لیکن اپنے وجود کو آگے دھکیلنے کی حتی الامکان کوشش سے صاف ظاہر تھا، کہ وہ جلد از جلد دور کہیں دور بہت دور نکل جانا چاہتا ہے، کہ جہاں نہ صرف وہ ہجوم بلکہ اس کا خوف بھی اسے نہ چھو سکے، لیکن آج پہلی بار اس پر یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ ہم صرف اتنی ہی دور جا سکتے ہیں کہ جتنا لمبا قدم ہم بڑھا پاتے ہیں، اور یہ لمبے قدم مل کر اٹھائے جاتے ہیں، فرد تو پستہ قامت ہوتا ہے، قدآور تو وہ فکر ہوتی ہے جو افراد کو امداد باہمی کے جذبے سے سرشار رکھتی ہے، لہٰذا، فرد اگر چاہے بھی تو تنہا اتنی دور نہیں جا سکتا کہ جہاں وہ زمین کے المیوں اور آسمان کی خوش فہمیوں سے نجات پا سکے، جبکہ تقدیر کے فیصلے انہی مستقیم قدموں کی بنیاد پر صادر ہوتے ہیں، تقدیر اب تک اپنے فیصلوں میں جس قدر بے رحم ثابت ہوئی تھی، اسی قدر اس کے پیمانے انصاف پسند ثابت ہو رہے تھے۔

اس کے قدم اس کے خواہش کے بر خلاف نہ صرف چھوٹے ہوتے چلے جا رہے تھے بلکہ اس کے بے ربط الجھے ہوئے خیالات کے طرح الجھتے بھی جا رہے تھے، اس نے لڑکھڑانا شروع کر دیا تھا، اس قدر بوجھل پن تھا کہ اب اس کے لیے مزید قدم بڑھانا انتہائی دشوار تھا۔ وہ ٹھہر گیا، اس سے پہلے کہ اس کا جسم زمین پر ڈھیر ہو جاتا ، اس نے اپنے جھکتے ہوئے جسم کو سہارا دینے کے لیے دونوں ہاتھوں سے اپنے گھٹنے تھام لیے، گردن ڈھلک گئی، وہ کچھ دیر اسی حالت میں اکھڑی ہوئی سانسیں بحال کرنے کی کوشش کرتا رہا، اس کا پورا وجود تکلیف نقاہت اور خوف سے کانپ رہا تھا، کچھ دیر یوں ہی سانسیں بحال کرنے کے بعد اس نے اپنی جھکی ہوئی گردن اٹھائی تو سٹریٹ لائٹ کی مدھم روشنی میں اس کے مجروح چہرے پر تکلیف اور خوف کے آثار مزید نمایاں ہو گئے، اس نے اپنی آنکھوں کو قدرے سکیڑتے ہوئے جو عموماً دور تک دیکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں، سامنے سڑک پر تاحد نگاہ نظر دوڑائی، اگرچہ گنجان آباد شہر کی سڑکیں نہ تو اس قدر کشادہ ہوتی ہیں، اور نہ ہی طویل لیکن اسے اس وقت یہ سڑک زمین کے طول و عرض پر پھیلی ہوئی ایسی شیطانی سازش دکھائی دے رہی تھی، جو صدیوں پر محیط ہو، عدم تحفظ کا یہ شدید احساس محض کسی مفروضہ پر مبنی نہیں تھا، بلکہ یہ شہر جن مخصوص حالات سے دوچار تھا، اس سے یہ صاف ظاہر تھا کہ اس شہر کے تمام راستوں پر ان شدت پسندوں کا ڈیرہ تھا، جن کے ڈورے مطلق العنان قوتوں کے ہاتھ میں تھے، اور وہ جب چاہتے پوری کی پوری بساط الٹ دیتے، یا پھر سے کوئی چال چلنے کے لیے سجا لیتے۔

اور اسی بساط پر اب اسے ایک ایسی جائے پناہ کی تلاش تھی، کہ جہاں وہ ایک پٹا ہوا مہرہ کچھ دیر ٹھہر کر سستا سکے، کچھ دیر ٹھہرنا گھڑی دو گھڑی سستانا سفر جاری رکھنے کا لازمی تقاضا ہے، جبکہ منزل تمام تر تقاضوں اور شرائط سے بالاتر کسی دیو مالائی تصور کی مانند صدیوں سے ایستادہ سراب زدگان کی منتظر، ہم عموماً سفر کے تقاضے پورے کرتے کرتے منزل کہیں کھو بیٹھتے ہیں، اور شاید ایسا اس لیے ہوتا ہے تاکہ منزل کا دیو مالائی تصور کہیں زائل نہ ہو جائے، منزل کا نہ ملنا ہی اس کی پرکشش عمارت ہے اور راستوں کے آباد رہنے کی ضمانت بھی۔

اسی اثناء میں جبکہ وہ منزل سے نا آشنا محض سفر کو محفوظ بنانے کی کوشش میں سرگرداں تھا، اسے اپنے دائیں جانب ذرا فاصلے پر ریل کی پٹری دکھائی دی، جس کے انتہائی دائیں جانب مختصر سا نشیب تھا، جہاں جا بجا خود رو جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں، فی الوقت اسے اس سے بہتر جائے پناہ نہیں مل سکتی تھی، لہٰذا اس نے اپنی تمام تر قوتوں کو جمع کیا اور کسی نہ کسی طرح گرتا پڑتا اپنے وجود کو گھسیٹتا ریل کی پٹری تک جا پہنچا، پٹری عبور کرتے ہی اس نے اپنے وجود کو نشیب کی جانب دھکیل دیا، وہ لڑھکتا ہوا خود رو جھاڑیوں کے درمیان جا پہنچا، وہ ڈھے سا گیا تھا، اس کی بچی کچی قوتیں بھی جواب دے چکی تھیں، وہ نہ جانے کب تک یوں ہی جھاڑیوں کے درمیان چت آنکھیں موندے پڑا رہا، اس لمحے اسے دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے وہ ہر درد، تکلیف اور خوف سے عاری ہو، بند آنکھوں کا خوابیدہ اطمینان کھلی آنکھوں کی دہشت زدہ کیفیت پر حاوی تھا کہ اچانک پٹری پر گزرتی تیز رفتار ریل گاڑی کی آواز نے اس کے خوابیدہ اطمینان کو چکنا چور کر دیا۔

اس نے چونک کر آنکھیں کھولیں اور گھبراہٹ کے عالم میں اپنے اطراف کا جائزہ لیا، اس کے چہرے پر ایک دفعہ پھر خوف اور تکلیف کے ملے جلے تأثرات ابھر آئے تھے، وہ ابھی تک زمین پر چت پڑا ہوا تھا، حالات کی سنگینی کا احساس شدت اختیار کرتا چلا جا رہا تھا، لہٰذا انتہائی نقاہت اور تکلیف کے باوجود اس نے حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے اپنے جسم کو قدرے بہتر زاویہ دینے کی کوشش شروع کر دی، اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو زمین پر مضبوطی سے جما دیا اور ان کی مدد سے اپنے بدحال زخم خوردہ جسم کو پیچھے کے جانب خود رو جھاڑیوں کے مزید قریب گھسیٹنا شروع کر دیا، جھاڑیوں کے عین درمیان پہنچ کر اس نے اپنے وجود کے اوپر والے حصہ کو اٹھایا اور خود رو جھاڑیوں کی خستہ حال ٹہنیوں پر اپنی کمر ٹکا دی، وہ ہانپ رہا تھا، تھکن اور تکلیف سے اس نے اپنی آنکھیں سکیڑ لیں، اور ہونٹوں کو مضبوطی سے بھینچ لیا، اس نے اپنا سر پیچھے کی جانب ٹہنیوں پر گرا دیا ، وہ گہری گہری سانسیں لے رہا تھا، اس لمحے وہ ان خود رو جھاڑیوں سے ذرا بھی مختلف نہیں تھا، بے یار و مددگار فطرت کی ستم ظریفی کا شکار، وہ با آسانی کیموفلاج ہو گیا تھا۔

ماحول سے مطابقت اس سے بڑھ کر فطرت کی اور کیا ستم ظریفی ہو سکتی ہے، تنہائی کا داخلی احساس اتنا شدید تھا کہ اس لمحے پوری کائنات میں سوائے اس کے کوئی دوسرا وجود نہیں تھا، کچھ دیر یوں ہی پڑے رہنے کے بعد اس کی سانسیں بحال ہونا شروع ہو گئیں، اس نے آہستگی سے اپنی آنکھیں کھولیں اور پہلی بار ایک اچٹتی سی نظر اپنے مجروح جسم پر ڈالی۔

اس کے پیٹ اور کمر پر تیز دھار آلہ سے کھودے گیے گہرے گھاؤ تھے، جن سے خون رس رہا تھا اور کہیں کہیں جم سا بھی گیا تھا، اس کی ٹانگوں اور بازوں پر بھاری لاٹھیوں کی ضرب کے متعدد نشانات تھے، اسے شاید اندرونی چوٹیں بھی آئیں تھیں، اس کا پورا جسم جگہ جگہ سے سوج چکا تھا، اس نے تکلیف اور نقاہت کے باعث سر کو پیچھے کی جانب ٹہنیوں پر گرا دیا، اور ایک دفعہ پھر سے آنکھیں موند لیں، جیسے جیسے اس کا جسم ٹھنڈا پڑتا جا رہا تھا، اس کے جسم پر آئی چوٹیں اور گھاؤ اسی قدر تکلیف دہ ہوتے جا رہے تھے، اس کے لیے اب اپنے جسم کو ذرہ برابر ہلانا بھی محال تھا، وہ تکلیف کے احساس سے بچنے کے لیے ان خود رو جھاڑیوں کے طرح سرد و گرم خشک و تر سے بے پروا ساکت ہو جانا چاہتا تھا، لیکن سانسیں تھیں کہ اس پرتشدد ہجوم کی مانند اس کا پیچھا چھوڑنے کا نام نہیں لے رہی تھیں، اس کے حلق میں جیسے کانٹے چبھ رہے تھے وہ نہ جانے کب سے شہر کی مانوس گلیوں اور سڑکوں پر بھاگتا اور چھپتا چلا آ رہا تھا، اس کا گلا خشک، جسم تر، آنکھیں نم اور ذہن تاریک ہوتا چلا جا رہا تھا، لیکن دل تھا کہ دھڑکنے سے باز نہیں آ رہا تھا۔

اگرچہ اس کے چہرے پر تکلیف اور درد کے تاثرات نمایاں تھے، لیکن چوں کہ اب وہ نیم بیہوشی کے عالم میں پر سکوت تھا، نقاہت اور کمزوری جس قدر حاوی ہوتی چلی جا رہی تھی ، خوف کا احساس اسی قدر زائل ہوتا جا رہا تھا، یہ خیال کہ اس کے چہرے پر اب خوف کے آثار نمایاں نہیں ہیں، اس کے تاریک ہوتے ذہن میں لاشعوری طور پر کسی بجلی کے کوندے کی طرح لپکا، اور کچھ ساعت کے لیے اسے روشن کر گیا، نیم بیہوشی کے عالم میں بھی اس کے چہرے پر نمودار ہونے والی دھیمی سی فاتحانہ مسکراہٹ دیکھی جا سکتی تھی، جبکہ تقدیر ہر احساس سے ناآشنا اپنے پروں پر بے رحم پیمانے سجایے غوطہ زن تھی۔

بظاہر اس کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا، لیکن خوف کو مات دیے جانے کے خیال نے اس کے تاریک ذہن کو موہوم سی جلا بخشی تھی، لہٰذا اب اس کا ذہن کسی حد تک اس قابل ہو گیا تھا کہ وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثے کا جائزہ لے سکے، جائزہ عموماً بے ربط کڑیوں کا بکھرا ہوا سلسلہ ہوتا ہے، جو اپنے منطقی انجام تک پہنچتے پہنچتے ایک لڑی کی شکل میں کوئی تسلسل قائم کرتا ہے۔

یوں لگتا تھا جیسے قدرت اس پر مہربان ہو اور اس سے پہلے کے وہ ابدی نیند سو جائے اس پر قوانین فطرت آشکار کرنا چاہتی ہو۔

آخر میں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا، مجھ پر یہ ظلم کیوں ڈھایا گیا
اس سوال نے اس کے مجروح چہرے پر تأسف اور استعجاب کا ملا جلا کرب بکھیر دیا۔

یہ سوال اس کے ذہن کی کھڑکیوں پر پڑے بھاری بوسیدہ پردوں پر چیونٹیوں کی طرح رینگ رہا تھا، اور اسے بے چین کیے دے رہا تھا، پردوں سے آشنائی اگرچہ دیرینہ تھی، لیکن بخیوں سے جھانکتے سوال نئے تھے، یہاں تک کہ اس سوال نے ذہن کے بند چوکٹھوں کی دراڑوں سے مدھم سی سایہ دار روشنی کی مانند جھانکنا شروع کر دیا، وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر اسرار روشنی کی جانب کھینچتا چلا گیا، ابھی وہ کشمکش گریز و چاہ میں ہی مبتلا تھا، کہ اچانک اسے یوں محسوس ہوا، جیسے وہ کسی لامحدود، انتہائی تاریک اور عمیق خلاء میں معلق ہو، اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی پڑ رہی تھیں، اس کے لیے توازن برقرار رکھنا دشوار ہو رہا تھا، اس کا سارا وجود سنبھالے نہیں سنبھل رہا تھا، اس کا غیر متوازن ڈولتا ہوا جسم اس بات پر شاکی تھا کہ وہ جہاں کھڑا ہے اس کے پاؤں تلے کوئی فرش ہے بھی یا نہیں، فضاء میں معلق اس کے ہاتھ جیسے کچھ ٹٹولنے کی سعی میں یہاں وہاں تیر رہے تھے، چوں کہ توازن کشش ثقل کا متقاضی ہوتا ہے، اور ثقل ایک ٹھوس احساس ہے، لہٰذا اسے اس وسیع و عمیق تاریکی میں کسی ایسے ٹھوس سہارے کی ضرورت تھی جو اس افتاد میں اس کی الجھنوں کو کوئی نشان رہ فراہم کر سکے، جبکہ اس عمیق اور پرسرار تاریکی میں کچھ سجائی نہ دیے جانے کے باعث، وہ ہر ساعت الجھتا ہی چلا جا رہا تھا۔

نظر کا مظہر سے ٹکرا کر پلٹنے کا سلسلہ موقوف ہو چکا تھا، لہٰذا ایسے میں کسی حقیقی عکس کا ابھرنا ممکن نہ تھا، سوائے اندیشوں اور وسوسوں کے اس کے ہاتھ کچھ نہیں آ رہا تھا، روشنی درست سمت کے تعین میں مددگار ثابت ہو یا نہ ہو، بہرحال کوئی سراغ دل بستہ دے ہی جاتی ہے۔ لیکن اندھیرا اور وہ بھی اس قدر عمیق اور کثیف کہ جس کی سیاہی میں بینائی خود اپنی تلاش میں گم ہو، کیا سجائی دیتا۔

اندھیرے بسا اوقات اپنی پر اسراریت کے باعث روشنی سے کہیں زیادہ پرکشش دکھائی دیتے ہیں، لیکن ان کی پراسراریت کا راز تاریک سرنگ کے پار دوسری طرف آنکھوں کو خیرا کر دینے والے تابناک منظر میں پوشیدہ ہوتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے کائنات کا راز اس کی انتہائی کثیف اور عمیق تاریکی میں پوشیدہ ہے، باوجود اس نظری توضیح کے، تسخیر کائنات کی راہ میں حائل، طلوع آفتاب سے برانگیختہ مدار میں گردش کرتے اندیشوں، وسوسوں اور تعصبات کے یہ اندوہ سیارے نہ جانے کس جنون میں مبتلا سیاہ تر ہوتے چلے جا رہے ہیں، لیکن جس قدر سیاہی کثیف ہوتی جا رہی ہے اسی قدر مقصد حیات واضح بھی ہوتا جا رہا ہے۔

اسی اثناء میں جبکہ اس کا غیر متوازن وجود بلیک ہول کی اتھاہ گہرایوں میں غوطے کھا رہا تھا، اور کوئی سرا ہاتھ نہ لگ رہا تھا، ایسے میں اچانک اسے پیار بھرے لمس کا احساس ہوا، دور سے جھانکتی نا آشنا قربت کا احساس لیے مانوس سی مدھم روشنی اس کے قدموں سے لپٹی ہوئی تھی، یک لخت اس کا ڈولتا وجود ٹھہر گیا، جسے کوئی طوفان تھم گیا ہو، اسے اچانک محسوس ہوا جیسے وہ کسی مضبوط اور ٹھوس شے پر کھڑا ہے، وہ اپنے قدموں سے لپٹی اس مدھم سی روشنی کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا، منطق، دلیل، یقین اور خواب تمام کشش اثقال اس لمحے اس کے اطراف موجود تھے، اگرچہ توازن بحال ہو چکا تھا لیکن وہ ابھی تاریک سرنگ کے اس پار نہیں پہنچا تھا، چوں کہ نہ تو منظر تابناک تھا اور نہ ہی اس کی آنکھیں خیرہ، لیکن عکس ابھرنا شروع ہو گے تھے۔

آخر یہ روشنی اتنی مانوس سی کیوں لگ رہی ہے، اس نے روشنی کا تعاقب کرنا شروع کر دیا، روشنی کے تعاقب میں اس کی نظر جس قدر روشنی کے ماخذ سے قریب ہوتی جا رہی تھی، روشنی سے مانوسیت کا خیال اتنا ہی پختہ ہوتا چلا جا رہا تھا، کہیں یہ وہی روشنی تو نہیں، جو اس کے ذہن کے بند چوکٹھوں کی دراڑوں سے جھانک رہی تھی۔

اوہ میرے خدا، کیا یہ وسیع و لا محدود خلاء میرا اپنا ذہن ہے، اس قدر تاریک، عمیق اور پراسرار، بے ہنگم و بے سروپا، کہ جس کی کوئی کل نہ سرا سجھائی دے، یہ کیسے ممکن ہے، نہیں نہیں یہ میرا ذہن تو ہر گز نہیں ہو سکتا ۔

میں تو ہمیشہ سے ہی امتیازی نمبروں سے ہر امتحان میں اول آنے والا ایک برائٹ اسٹوڈنٹ رہا ہوں، کارپوریٹ ورلڈ کے ایک بڑے ادارے سے منسلک، انتہائی اہم ذمہ داریاں نبھا رہا ہوں، میرا تعلق اگرچہ کسی دولت مند خاندان سے نہیں رہا، لیکن اپنی صلاحیتوں کے بل پر جو کامیابیاں اور آسائشیں میں نے حاصل کی ہیں، ان کی بنیاد پر میں معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہوں، ایک معتبر فرد کی حیثیت رکھتا ہوں، ماں کی آنکھ کا تارا باپ کا غرور، دوست احباب اور اقربا میں نمایاں حیثیت رکھتا ہوں، نہ کسی لینے میں نہ کسی دینے میں، نہ کسی سے کوئی سوال نہ جواب، میں نے ہمیشہ سیدھی سادھی راہ اور زندگی کے لگے بندھے اصولوں کا انتخاب کیا، ساری زندگی فرماں برداری، اطاعت گزاری اور عبادت پروردگاری میں گزاری ہے، کبھی اپنے ذہن کو بے پر کی الجھنوں کا شکار نہ ہونے دیا، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ میرا ذہن اس قدر تاریک، بے ہنگم و بے سروپا ہو، کہ جہاں کوئی راہ و رسم نہ پائی جائے اور کچھ سجائی نہ دے سکے۔

نہیں نہیں یہ نہیں ہو سکتا، یہ محض میرا وہم ہے اس نے سر کو جھٹک دیا۔

اس نے اسی الجھن اور پریشانی کے عالم میں، اس مدھم سی روشنی کا تعاقب جاری رکھا، وہ جس قدر روشنی کی سمت بڑھ رہا تھا، اسی قدر روشنی پھیلتی اور منظر میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی، وہ نہ جانے کب تک یوں ہی روشنی کے تعاقب میں چلتا رہا، وقت کا احساس تو اس عمیق اور تاریک خلاء میں پہلے ہی زائل ہو چکا تھا، اور فاصلے کا تعین بغیر کسی راہ و رسم کے ممکن نہ تھا، لہٰذا وہ ایک ایسے راستے پر گامزن تھا، جس کو میل کے پتھر سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ اچانک اسے دور سے آنے والی دھیمی دھیمی آوازیں سنائی دینے لگیں، وہ ٹھٹک کر رک گیا، اس نے اپنے چاروں طرف بڑی بے صبری سے نظریں دوڑائیں، لیکن اسے کچھ بھی دکھائی نہ دیا جو ان آوازوں کی نشان دہی کر پاتا، اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا، بصارت کے ساتھ ساتھ اب اس کی سماعت بھی بحال ہو چکی تھی، اگرچہ یہ بات خوش آئند تھی لیکن تفکرات میں اضافہ کا باعث بھی۔

اس نے تیزی سے آوازوں کی سمت بڑھنا شروع کر دیا، وہ جس قدر ان کے قریب ہوتا جاتا یہ آوازیں اسی قدر بلند تر شور میں تبدیل ہوتی جاتیں، یہاں تک کہ وہ ایک ایسے مقام پر جا پہنچا، جہاں کان پڑے کوئی آواز سنائی نہ دیتی تھی، بس ہر طرف دل دہلا دینے والا شور تھا، اس کی آنکھوں نے جو منظر دیکھا، اس نے اس پر ویسی ہی دہشت طاری کر دی، جس کا شکار وہ کچھ دیر پہلے اس وقت ہوا تھا جب ایک شوریدہ سر ہجوم اس کی جان کے در پہ تھا، اس کے سامنے وسیع و عریض چٹیل میدآن تھا، تا حدنگاہ لوگوں کا ایک ہجوم تھا، جن کے سر ایک دوسرے میں پیوست تھے، ان کی آنکھیں سرخ تھیں جیسے خون اتر آیا ہو، ان کے منہ سے کف بہہ رہا تھا اور وہ ہذیانی کیفیت میں چیختے چلاتے جا رہے تھے۔

اوہ میرے خدا، کہیں یہ وہی ہجوم تو نہیں، اس خیال کے آتے ہی اس نے تیزی سے اس منظر کی مخالف سمت دوڑنا شروع کر دیا، اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ پھر سے ان کے نرغے میں نہ آ جائے، وہ اس بھیانک منظر سے جتنا دور ہوتا جا رہا تھا شور اتنا ہی دھیما ہوتا جا رہا تھا، یہاں تک کہ وہ ایک ایسے مقام پر جا پہنچا جہاں اس بھیانک منظر کا دل دہلا دینے والا شور دم توڑ چکا تھا۔

لیکن فضاء میں عجیب سی بسیند پھیلی ہوئی تھی، جیسے کوئی ناسور اندر ہی اندر گل سڑ رہا ہو، وہ جس قدر اس سمت میں آگے بڑھ رہا تھا، ماحول پر چھائی آلودگی میں اسی قدر اضافہ ہوتا جا رہا تھا، یہاں تک کہ اس کا دم گھٹنے لگا، وہ اس آلودہ ماحول سے دور بھاگنے کے لیے پلٹنے کو ہی تھا کہ ایک نحیف آواز نے اس کے قدم وہیں جما دیے، اس نے آواز کی سمت دیکھا تو ایک ضعیف العمر شخص زمین پر لاٹھی ٹیکتا اسے پکارتا چلا آ رہا تھا۔

ارے بھائی ذرا رکو، واپس کہاں جا رہے ہو، تم صحیح راستے پر ہو، اور میں تو کب سے تمہارا منتظر ہوں، یہ ضعیف العمر شخص اب اس کے بہت قریب آ پہنچا تھا، اس پر تو جیسے سکتہ طاری تھا، اس کی نظریں اس شخص کے چہرے پر مرکوز ہو کر رہ گئیں تھیں، اس ضعیف العمر شخص کا چہرہ دبیز جھریوں سے بھرا ہوا تھا، یوں لگتا تھا جیسے نہ جانے کتنے ہی زمانے ان جھریوں میں دفن ہوں، اس کی آنکھیں اس قدر گہری تھیں کی ان میں جھانکنے پر یوں معلوم ہوتا جیسے زمین کے تمام راز انہیں آنکھوں میں پوشیدہ ہوں، اس ضعیف العمر شخص نے اپنا دایاں ہاتھ بڑی نرمی سے اس کے کندھے پر رکھا تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے زمین کا سارا بوجھ اس کے کندھوں پر آن پڑا ہو۔

اس ضعیف العمر شخص نے اسے اپنے ساتھ چلنے کا کہا تو وہ میکانکی انداز میں کچھ کہے سنے بغیر اس کے ساتھ چل دیا، کچھ دور جا کر وہ شخص ٹھہر گیا اور اپنی لاٹھی سے سامنے اشارہ کرتے ہوئے گویا ہوا، ذرا پہچانو تو کیا یہی ہے تمہاری منزل، اس شخص کی آواز میں نہ جانے کیسی گرائی تھی کہ وہ چونک اٹھا جیسے خواب غفلت سے بیدار ہوا ہو، اس نے لاٹھی کی مدد سے نشان دہی کرتی سمت کی طرف دیکھا تو پہلی نظر میں کچھ سمجھ نہ پایا، غور کرنے پر اس کے چہرے پر تأسف بھرا کرب ابھر آیا۔

اس کے سامنے تا حدنگاہ بے شمار انسان ایک دوسرے سے ذرا فاصلے پر علیحدہ علیحدہ اپنے گھٹنوں میں سر دیے بیٹھے تھے، چار سو تعفن پھیلا ہوا تھا، جیسے گوشت سڑ رہا ہو، فضا میں موت کا سا سناٹا چھایا ہوا تھا، یہ جان لیوا خاموشی ماحول پر چھائی آلودگی اور کثافت میں ہر آن اضافہ کر رہی تھی۔

اس منظر کو دیکھ کر اس کا جی متلانے لگا، ٹانگوں میں جیسے جان نہ رہی ہو، وہ بیٹھ گیا اور اس نے منہ بھر کر قے کی، وہ کچھ دیر یوں ہی بیٹھا رہا اور ضعیف العمر شخص اس کی کمر تھپتھپاتا رہا، لیکن جب وہ کھڑا ہوا تو کافی ہشاش بشاش لگ رہا تھا جیسے اس کے اندر کا سارا غبار نکل گیا ہو۔

جب وہ ذرا سنبھل گیا، تو ضعیف العمر شخص دوبارہ گویا ہوا، تمھیں وہاں جانے کے لیے یہ جو سامنے چھوٹا سا دروازہ ہے، اس میں سے جھک کر گزرنا ہو گا اور اس طرح جب تم اس پار پہنچو گے تو پھر کبھی سر نہیں اٹھا پاؤ گے، اور یوں تم اس محفوظ وادیٔ خموشاں میں مستقل سکونت اختیار کر لو گے، بس پھر کسی کونے میں تمام عمر منہ دیے پڑے رہنا۔

اس کے چہرے پر پشیمانی اور خوف کا ملا جلا کرب نمایاں تھا، وہ گھٹنوں کے بل زمین پر ڈھے گیا، وہ زار و قطار رو رہا تھا، اس نے التماسی نظروں سے ضعیف العمر شخص کی طرف دیکھا اور گڑگڑانا شروع کر دیا۔

میں یہاں نہیں رہنا چاہتا، خدا کے لیے مجھے یہاں سے کہیں دور لے چلیے، یہ کیسی جگہ ہے، یہ کیسا مقام ہے، جہاں ایک طرف چیختی چلاتی خون آشام دہشت اور دوسری طرف یہ خاموشی کا جان لیوا تعفن، لیکن میں جاؤں بھی تو آخر کہاں، اس سے پہلے کہ وہ نا امید ہو کر لاچاری کی نذر ہو جاتا، ضعیف العمر شخص نے اس کے بازو تھام کر اسے کھڑا کیا، اپنی چادر کے پلو سے اس کے آنسو پونچھے اور کہنے لگا، گھبراو نہیں یہاں کچھ اور لوگ بھی بستے ہیں جو ان سے بالکل مختلف ہیں، اس نے بڑی بے صبری سے ضعیف العمر شخص کی طرف دیکھا، اس لمحے اس کا پورا وجود ایک سوالیہ نشان تھا۔

اس شخص نے اس کی بے صبری کا جائزہ لیا، جیسے کسی بات کا اطمینان کر لینا چاہتا ہو، ذرا توقف کے بعد اپنی بات جاری رکھتے ہوئے، کہنے لگا۔

وہ لوگ اپنی فکر، آدرش اور خواب دوسروں کو منتقل کر دیتے ہیں، یہ لوگ محض آئینہ نہیں دکھاتے بلکہ اس میں راستے بناتے ہیں، انسان سے محبت کا اس سے بہتر اظہار شاید ہی کوئی دوسرا ہو، اور جانتے ہو ان کی معراج کیا ہے، یہ بلآخر ضمیر کی آواز بن جاتے ہیں۔

اس نے اس ضعیف العمر شخص کے بازو مضبوطی سے تھام لیے، کیا آپ مجھے ان سے ملوا سکتے ہیں، کیا میں ان کے ساتھ رہ سکتا ہوں؟

ضعیف العمر شخص اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر معنی خیز انداز میں مسکرایا، اپنی لاٹھی اس کے ہاتھ میں تھمائی، اور یہ کہتا ہوا چل دیا اب تم سنبھالو میں چلتا ہوں، اس نے جیسے ہی لاٹھی سنبھالی تو یوں لگا جیسے کوئی انقلاب برپا ہوا ہو، وہ اس لمحے ہر دکھ، درد اور خوف سے آزاد تھا، اس نے انتہائی دھیمی آواز میں جیسے خود سے مخاطب ہو کر پوچھا، آپ نے یہ تو بتایا نہیں کہ آپ کون ہیں۔

میں تمھارے ضمیر کی آواز ہوں، یوں لگا جیسے گہرے کنویں سے کوئی پکارا ہو، اس نے آہستگی سے آنکھ کھولی تو چاروں طرف صبح کا اجالا پھیلا ہوا تھا، ہر طرف بس ایک سا شور تھا، شہر حسب معمول نیند میں چلنے والوں سے اٹ چکا تھا۔

اس نے آخری ہچکی لی اور آنکھیں بند کر لیں، اس کے چہرے پر پر سکون مسکراہٹ سجی ہوئی تھی، ضمیر کی آواز اس کے سرہانے بیٹھی یوم آزادی پر نغمہ سرا تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments