کورونا وبا کے دوران سیکس لائف: عالمی وبا نے ہمارے جنسی تعلقات کو کیسے متاثر کیا ہے؟

جیسیکا کلین - بی بی سی ورک لائف


کورونا وائرس

ہیوسٹن ٹیکساس میں مقیم ایک سیکس تھیراپسٹ (جنسی تعلقات کی ماہر) ایما جیمی کہتی ہیں کہ عالمی وبا سے قبل جوڑے کچھ اس طرح اپنی زندگیاں بسر کر رہے تھے جیسے ’رات کے اوقات میں دو بحری جہاز ایک دوسرے کے قریب سے گزرتے ہیں۔‘

پہلے ان کی زندگیوں میں کام اور دیگر مصروفیات زیادہ اور ایک دوسرے کے لیے وقت کم ہوتا تھا۔ ایسے میں لاک ڈاؤن اور عالمی وبا کی پابندیوں کے دوران ان جوڑوں کو فرصت کے لمحات میسر آئے۔

گھر تک محدود رہ جانے کی وجہ سے جوڑوں کو ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے کو وقت ملا اور ابتدا میں ان کے جنسی تعلقات بہتر ہوئے۔

جیمی کے مطابق ’شروع میں عالمی وبا نے لوگوں کو موقع دیا کہ وہ ایسا وقت گزار سکیں جو شاید وہ پہلے صرف چھٹی پر ساتھ گزار پاتے تھے۔‘ لیکن عالمی وبا کے طویل ہونے کے باعث اب یہ معاملات ایسے نہیں رہے۔

وہ کہتی ہیں کہ وبا کی طوالت کے باعث ’جنسی تعلقات بُری طرح متاثر ہوئے۔ ان حالات میں اکثر جوڑوں کے لیے جنسی خواہشات زوال کا شکار ہوئیں۔‘

دنیا بھر سے مختلف تحقیقات میں بھی یہی دیکھنے کو ملا ہے۔ ترکی، اٹلی، انڈیا اور امریکہ میں سنہ 2020 کے دوران کی گئی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کی جانب سے سیکس اور انفرادی عمل میں کمی آئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا کورونا وائرس کی وبا کے دوران سیکس کرنا محفوظ ہے؟

رمضان میں ماہواری: ’اکثر مرد پوچھتے ہیں کہ آپ نے کتنے روزے رکھے؟‘

انڈیا میں وائرل وہ تصویر جو ملک میں کووڈ سے ہونے والی تباہی کی علامت بن گئی

’دی کنزی انسٹیٹیوٹ‘ نامی ادارے میں محقق اور سوشل سائیکالوجسٹ جسٹن لیملر کا کہنا ہے کہ ’اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ بہت زیادہ تھک چکے ہیں۔‘ انھوں نے امریکہ میں اس حوالے سے ایک تحقیق بھی کی ہے۔

اکثر لوگوں کے لیے لاک ڈاؤن نے غیر یقینی اور خوف کا ماحول بنایا۔ ان میں سے کئی لوگوں کو پہلی مرتبہ صحت سے متعلق پریشانی، مالی مشکلات اور زندگی میں دیگر تبدیلیاں دیکھنا پڑیں۔

ان عوامل کی وجہ سے پریشانی کا سامنا ہوا۔ لوگوں کو ضرورت سے زیادہ وقت ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی جگہ گزارنا پڑا جس سے جوڑوں کو ’سیکس لائف‘ پر گہرا اثر پڑا۔

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کووڈ 19 نے جنسی تعلقات میں بگاڑ پیدا کیا۔ مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عالمی وبا کے بعد اس میں بہتری آ سکتی ہے اور آیا طویل مدتی اثرات سے سیکس لائف کی بحالی ناممکن ہے؟

جنسی تعلقات کی خواہش میں کمی

جیمی کی رائے ہے کہ کئی جوڑوں نے عالمی وبا اور لاک ڈاؤن کی ابتدا میں اپنی سیکس لائف میں بہتری کا لطف اٹھایا۔

امریکہ کی ٹیکساس سٹیٹ یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر اور سوشل سائیکالوجسٹ رونڈا بلزرینی کہتی ہیں کہ لاک ڈاؤن کا آغاز ’ہنی مون کے مرحلے‘ جیسا تھا۔ اس دوران جنسی تعلق کی خواہش میں اضافہ ہوا اور یہ اکثر تب دیکھا جاتا ہے کہ جب لوگ کسی مشکل گھڑی میں تعمیری یا مثبت ردعمل دیتے ہیں۔

’اس مرحلے میں لوگ ساتھ کام کرتے ہیں۔ شاید یہ ایسا ہے کہ آپ اپنے ہمسائے کے گھر انھیں ٹوائلٹ پیپر دینے جائیں جب انھیں ضرورت ہو۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’لیکن وقت کے ساتھ جیسے جیسے اشیا کی قلت پیدا ہوتی ہے تو لوگوں میں اضطراب بڑھ جاتا ہے۔ اس دوران ذہنوں میں پریشانی اور خوف بڑھ جاتا ہے۔ یہی وہ وقت ہے کہ جب جوڑوں کے بیچ معاملات خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔‘

بلزرینی کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس حوالے سے 57 ممالک میں 18 سال سے زیادہ عمر کے افراد پر تحقیق کی ہے۔ انھوں نے دیکھا کہ عالمی وبا کے آغاز پر مالی تشویش جیسے عوامل کی وجہ سے جوڑوں کے درمیان جنسی خواہش میں اضافہ ہوا۔

تاہم وقت کے ساتھ عالمی وبا سے اضطراب بڑھتا رہا۔ ایسے میں تنہائی، پریشانی اور کووڈ 19 سے متعلق تشویش نے لوگوں کو متاثر کیا اور اس سے اپنے پارٹنر کے ہمراہ لوگوں میں جنسی خواہش میں کمی آتی رہی۔

اس تحقیق نے پریشانی، ڈپریشن اور جنسی تعلقات کے ایک دوسرے پر اثرات کو نمایاں کیا ہے۔ عالمی وبا کے شروع میں شاید یہ عوامل ڈپریشن کا باعث نہیں بنے تھے۔ تاہم وقت کے ساتھ جب پریشانی مسلسل بڑھتی رہی تو لوگوں میں تناؤ اپنے عروج پر پہنچ گیا۔

وہ کہتی ہیں کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ’ڈپریشن جنسی خواہشات پر منفی اثر ڈالتا ہے۔‘

دنیا بھر میں وبا کے دوران روزمرہ کی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ وائرس کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اموات اور ہسپتال میں نئے داخلے عالمی سطح پر بڑھ رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہر وقت موجود خطرے میں جوڑے ایک دوسرے کے قریب آنے کی خواہش کا اظہار ہی نہیں کر پائے۔

جیمی کہتی ہیں کہ ’آپ نے اکثر سیکس تھیراپسٹ کو یہ کہتے سنا ہو گا کہ ’دو زیبرا کبھی شیر کے سامنے جنسی تعلق قائم نہیں کرتے۔‘ اگر نظروں کے سامنے ایک بڑا خطرہ منڈلا رہا ہو تو ہمارے جسم میں یہ پیغام جاری ہو جاتا ہے کہ شاید یہ سیکس کے لیے مناسب وقت نہیں۔ زیادہ پریشانی میں ایک دوسرے کے قریب آنے کی جنسی خواہش بہت کم ہو جاتی ہے۔‘

ضرورت سے زیادہ قربت

سیکس

کئی جوڑوں نے بلزرینی کو یہ بتایا کہ وبا کے آغاز میں انھوں نے معمول سے ہٹ کر جنسی عمل قائم کیے، جیسے دن کے اوقات میں ساتھ نہانا یا دوپہر میں ایک دوسرے کے ساتھ سوئمنگ پر جانا۔ اس سے جوڑوں میں دوبارہ قریب آنے کی خواہش کم ہوتی گئی۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس طرح روزمرہ کی ضروریات، جیسے گھروں میں صفائی، کا فقدان دیکھا گیا اور زیر التوا کام کاج کی وجہ سے جوڑوں میں لڑائی جھگڑے ہونے لگے۔

لیملر نے بتایا کہ ضرورت سے زیادہ قربت سے جوڑے ایک دوسرے کی ان عادات سے واقف ہونے لگتے ہیں جو انھیں پسند نہیں آتی تھیں۔ (انھوں نے اس واقعے کے بارے میں بھی بتایا کہ جب ایک جوڑے میں ایک فرد نے دیکھا کہ ان کا پارٹنر غیر معمولی طریقے سے کھانا چباتا ہے اور انھوں نے پہلے کبھی اس پر غور نہیں کیا تھا۔)

ضرورت سے زیادہ وقت ایک دوسرے کے ساتھ گزارنے سے سیکس میں دلچسپی بھی کم ہو سکتی ہے۔ لیملر نے بتایا کہ ’طویل مدت میں جنسی خواہش برقرار رکھنے کے لیے اہم ہے کہ ہم اپنے پارٹنر سے تھوڑا فاصلہ رکھیں اور ایک دوسرے کے بیچ کچھ باتیں چھپی رہیں۔‘

عالمی وبا کی وجہ سے جوڑے اپنی انفرادی، سماجی اور پیشہ ورانہ زندگی سے محروم ہو گئے تھے۔ ایسے میں وہ خود کو پہچان نہیں پا رہے تھے اور جنسی عمل میں ان کا اعتماد اور کارکردگی اس سے متاثر ہوتی رہی تھی۔ خاص کر کئی خواتین کو وبا کے دوران اپنی پیشہ ورانہ زندگی کو کم اہمیت دینا پڑی ہے۔ گھر کے کام، بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم کی اکثر ذمہ داریاں انہی کے کندھوں پر آئی ہیں۔

جیمی کہتی ہیں کہ ’یہ کئی خواتین کے لیے بہت مشکل وقت تھا۔ کام ان کی زندگی کا بڑا حصہ ہے اور ہم اپنی پوری پہچان کے ساتھ ہی اپنے بیڈ روم میں داخل ہوتے ہیں۔ اگر اچانک ہم بھول جائیں کہ ہم کون ہیں تو اس کا مطلب ہماری پہچان اب ادھوری ہے۔‘

کیا جوڑوں کے آپسی تعلقات بحال ہو سکتے ہیں؟

یہ کہنا غلط ہو گا کہ اب سیکس لائف بالکل درہم برہم ہو جائے گی۔

کنزی انسٹیٹیوٹ کے محقق کہتے ہیں کہ ایک چیز سے جوڑوں کی سیکس لائف اور دیگر رویے بہتر ہو سکتے ہیں اور وہ ہے بڑی تبدیلیاں لانا۔

تحقیق کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک جوڑے نے جنسی تعلقات میں کسی نئی چیز کو موقع دیا، جس سے ان کی جنسی خواہش بحال ہوئی اور انھیں ایک دوسرے کے قریب آ کر دوبارہ لطف ملا۔

لیملر کا کہنا ہے کہ ’وہ لوگ جنھوں نے کچھ نیا آزمایا ان کی زندگیوں میں بہتری کے زیادہ امکان تھے۔‘ تحقیق کے مطابق ان بڑی تبدیلیوں میں ’نئی سیکس پوزیشن، اپنے تصورات پر عمل، بی ڈی ایس ایم اور ایک دوسرے کی مالش‘ جیسے نئے تجربات شامل تھے۔

مگر کیا عالمی وبا کی وجہ سے جنسی تعلقات پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوئے ہیں؟ ماہرین کے مطابق یہ لازم نہیں۔

لیملر کے مطابق کچھ جوڑے ’شاید کبھی اپنے تعلقات بحال نہ کر پائیں کیونکہ ان میں رابطے کافی دیر تک منقطع رہے ہیں۔‘ ان کی تحقیق میں یہ معلوم ہوا کہ کچھ لوگوں نے وبا کے دوران ایک دوسرے کو دھوکہ دیا۔ اس کے بعد معاملات بحال ہونا کافی مشکل ہو سکتا ہے۔ وبا میں کچھ لوگوں کی نوکری چلی گئی، انھیں مالی مشکلات کا سامنا رہا اور اس سے ان کے تعلقات میں تناؤ دیر تک قائم ہو گیا۔

لیکن لوگوں کو اب بھی پُرامید رہنا چاہیے۔ لوگوں کو عالمی سطح پر ویکسین دی جا رہی ہے، کاروبار بحال ہو رہے ہیں اور کچھ ملازمین تو دوبارہ دفاتر سے کام کرنے لگے ہیں۔

جیمی کے مطابق ’لوگ پُرانی زندگی میں واپس آ رہے ہیں۔‘ انھوں نے اپنے تجربات میں دیکھا ہے کہ اس سے جوڑوں کی زندگی پر مثبت اثرات ہوئے ہیں۔

وبا کے دنوں میں بچھڑنے والے جوڑوں کے لیے زندگی معلوم پر آنا ایک مثبت پیشرفت ہو سکتی ہے۔ لیملر کا کہنا ہے کہ ’وبا قابو میں آنے کے بعد ہوسکتا ہے ان میں سے کچھ جوڑے اپنی پرانی زندگیوں میں واپس آ جائیں۔

’پریشانی دور ہو گی تو ان کی سیکس لائف بھی بہتر ہو جائے گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp