!لبیک! لبیک! لبیک


گزشتہ ہفتے دوعشروں میں پہلی مرتبہ مارشل لا کے ہیولے اسلام آباد کی فضاؤں میں منڈلاتے دکھائی دیے۔ ریاست اور معاشرے کوکسی مقبول مرکزی دھارے کی جماعت یا قوم پرست، نسلی یا علیحدگی پسند جماعت یا غیر ملکی شہ پر دھشت گردی کرنے والے گروہ، جیسا کہ تحریک طالبان پاکستان یا القاعدہ کی طرف خطرہ لاحق نہیں تھا۔ یہ خطرہ تحریک لبیک پاکستان، ایک نئی تیار کردہ مذہبی جماعت کی طرف سے تھا۔ اس کے ہزاروں جوشیلے، جذباتی اور مشتعل حامیوں نے لاہور میں پنجاب پولیس کے خلاف ایک طے شدہ منصوبے کے تحت جم کر لڑائی کی۔ اس کے نتیجے میں ایک درجن سے زیادہ افراد جاں بحق، بیسیوں زخمی اورسینکڑوں گرفتار ہوئے۔ اس پر تحریک انصاف کی حکومت نے انسداد دھشت گردی ایکٹ کے تحت تحریک لبیک پر فوراً پابندی عائد کردی اور اسے اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے سے روک دیا۔ لیکن پھر ہوا یہ کہ تحریک لبیک پاکستان کے قائدین اور ریاست اور حکومت کے نمائندگان کے درمیان ہونے والے ”مذاکرات“ نے صورت حال کا تناؤ کم کیا اورمعاملے کو قرار داد کے لیے قومی اسمبلی میں لے جانے فیصلہ ہوگیا۔ تو کیا یہ اس معاملے کا اختتام ہے یا شروعات؟

تحریک لبیک پاکستان پیغمبر اسلام ﷺ کے ناموس کی سربلندی اور تحفظ کے مذہبی جذبات سے وجود میں آئی۔ یہ جماعت مسلمانوں اور غیر مسلموں، دونوں کی طرف سے ملک میں یا بیرون ملک کی گئی توہینِ رسالت کے خلاف میدان میں آئی تھی۔ اس کے اشتعال کا ابتدائی نشانہ گورنر پنجاب، سلمان تاثیر بنے جنہیں 2011 ء میں اُن کے سکیورٹی گارڈ نے گولی مار کر قتل کردیا جو تحریک لبیک کا پیروکار تھا۔اس وقت گورنر تاثیر اس مسیحی عورت کا تحفظ چاہتے تھے جو توہین کے الزام میں جیل میں سزائے موت کی ملزمہ تھی۔ گورنر پنجاب کا خیال تھا کہ اس پر توہین کا غلط الزام ہے۔ سلمان تاثیر کے قاتل، ممتاز قادری نے خود کو ”عاشق رسولﷺ“ قرار دیا۔ وہ پانچ سال تک جیل میں رہا یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے ہمت کرکے اُس کی سزائے کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی لرزتی، ڈرتی حکومت نے فیصلے پر عمل درآمد کرادیا۔ قاتل ممتاز قادری کا جنازہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ اس سے ایک نئی جماعت کے قیام کی بنیاد پڑی جس کایک نکاتی ایجنڈا اتنا موثر ہے کہ یہ جماعت ریاست کو عملی طور پر گھٹنوں کے بل جھکا سکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک اعلیٰ سکیورٹی عہدیدار نے مذاکرات کرتے ہوئے عملی طور پر تحریک لیبک کے راہ نماؤں کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا (جو کہ عاجزی اور انکساری کا اظہار ہے)اور اسلام آباد مارچ منسوخ کرنے کی التجا کی۔ جب دوسال پہلے تحریک لبیک نے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا تھا تو صورت حال اس کے بالکل برعکس تھی۔ اس کا احتجاج وفاقی وزیر قانون، زاہد حامد کا استعفیٰ لینے میں کامیاب ہوا۔ وزیر موصوف پر ایک حلف نامے میں تبدیلی کا الزام تھا۔ اس کے بعد احتجاجی مظاہرین ریاست کے ایک باوردی افسر سے نقد رقم لے کر منتشر ہوگئے۔ ہمیں حالات کی ستم ظریفی یا د رکھنی چاہیے: جس جج، قاضی فائز عیسیٰ، نے اس وقت تحریک لبیک کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے والے سکیورٹی اداروں کے رویے کے خلاف تیزو تند فیصلہ دیاتھا، وہ آج کٹہرے میں کھڑے اپنے کیئریر کو بچانے کی جنگ لڑرہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے اُن کی دلیری کو معاف نہیں کیا ہے۔

مذہبی انتہا پسندی کے سامنے پاکستانی ریاست کا تاریخی طور پر ردعمل افسوس ناک بھی ہے اور موقعہ پرستانہ بھی۔ جنرل ضیاکے دور سے اسٹبلشمنٹ نے مذہبی انتہا پسندی اور نسل پرستانہ تنظیموں کو پروان چڑھاکر، ان کی ترویج کرکے اور ان کے سر پر ہاتھ رکھ کر انہیں ریاست اور معاشرے کے سیاسی دھارے میں شامل کرایا ہے۔ یہ جماعتیں ملک میں اس کے سیاسی اور ہمسایہ ممالک میں عسکری مقاصد کے لیے استعمال ہوتی رہی ہیں۔ اس کی بڑی مثالیں کراچی میں ایم کیو ایم اور کشمیر میں جہاد کرنے والے گروہ ہیں۔ ایم کیوایم نے ایک عشرے تک کراچی کو اپنے سخت کنٹرول میں رکھا۔ جہادی تنظیموں نے اتنے پرپرزے نکال لیے کہ جب جنرل پرویز مشرف نے 2000ء کی دہائی میں بھارت کے خلاف جہاد کا بٹن بند کرنے کی کوشش کی تو ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ تحریک طالبان پاکستان کو کئی مواقع پر بھاری ”مالیاتی معاہدوں“ کے ذریعے رام کیا جاتا رہا۔ جب وہ قتل عام کرتے، سکولوں کو بموں سے تباہ کرتے، بازاروں میں دھماکے کرتے تو بھی اُنہیں ”بھٹکے ہوئے لیکن مخلص مسلمان بھائی“ کہا جاتا رہا، یہاں تک کہ اُنہوں نے دسمبر 2014 ء میں ایک آرمی سکول پر حملہ کرکے ایک سوپچاس طلبا کو قتل کردیا۔ تب کہیں جا کر فوج ان پر ہاتھ ڈالنے پر مجبور ہوئی۔ اب یہ عناصر افغانستان میں ٹھکانے بنانے کے بعد پاکستان مخالف کارروائیاں کرتے ہیں۔ انہوں نے فاٹا اور بلوچستان میں مسلکی بنیاوں پر حملے کیے ہیں۔ غلط انداز معاملات سنبھالنے کی تازہ ترین مثال تحریک لبیک پاکستان ہے۔

گزشتہ فروری کو تحریک لبیک نے دھمکی دی تھی کی اگر تحریک انصاف کی حکومت نے توہین آمیز خاکوں کے خلاف احتجاج کے طور پر فرانس کے سفارت کار کو نہ نکالااور فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات نہ توڑے تو وہ ملک میں بھونچا ل لے آئے گی۔ حکومت نے اسمبلی سے قرار داد کی منظوری کے نام پر دو ماہ کا وقت حاصل کرلیا۔لیکن جب طے شدہ تاریخ، بیس اپریل آئی اور اس کا مطالبہ پورا نہ ہوا تو تحریک لبیک سڑکوں پر آگئی۔ اب کئی جانوں کے نقصان، املاک کی تباہی اور ملک کے مفلوج ہونے کے بعد حکومت نے ایک اور کھوکھلا سا پارلیمانی وعدہ کرکے خود کو وقتی طور پر بچا لیا ہے۔ لیکن اگلی مرتبہ جب تحریک لبیک گلیوں میں آئے گی تو نہ صرف اس کے احتجاج کی شدت میں اضافہ ہوچکا ہوگا بلکہ حکومت کی وعدہ خلافی پر اس کا مطالبہ بھی بڑھ جائے گا۔ اس دوران ہم توقع کرسکتے ہیں کہ ریاست اور معاشرے کو چیلنج کرتے ہوئے تحریک لبیک اپنی قوت کا مظاہرہ کرتی رہے گی تاکہ یہ اگلے انتخابات کے لیے خود کو ایک طاقت کے طور پر میدان میں رکھ سکے۔ تحریک لبیک ایم کیو ایم کے نمونے پر بنی ہے۔ ایم کیو ایم بھی نسلی بنیادوں پر تشدد اور دھشت گردی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مالی اور انتخابی فائدہ حاصل کرتی تھی۔ اسے بھی اسٹبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی۔ تاہم ایک فرق ہے۔ ایم کیو ایم ایک خاص علاقے تک محدود تھی، تحریک لبیک کے سامنے پورا پاکستان ہے کیوں کہ یہ مذہبی جذبات کو ایندھن کے طور پر استعمال کرتی ہے۔

تحریک لبیک پاکستان کی اٹھان پر اسٹبلشمنٹ کا ردعمل مبہم ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کی بھارت، امریکا، سعودی عرب اور اسرائیل سے فنڈنگ کی جارہی ہے تاکہ پاکستان کے چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے رابطہ کو زک پہنچاکروسطی ایشیا، ایران، ترکی اور روس پر مشتمل مغرب مخالف بلاک کا راستہ روکا جاسکے۔ لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ تحریک لبیک پاکستان اسٹبلشمنٹ کے غلط تزویراتی کھیل کا نتیجہ ہے۔ اب یہ خود اس جمع ہوتے ہوئے طوفان کے نشانے پر ہے، اور اس کی پاکستان کو اپنے خون سے بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔

بشکریہ: فرائیڈے ٹائمز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments