‘دنیا کی باتیں اور طعنے وہ کچھ سکھا دیتے ہیں جو کتابیں بھی نہیں سکھا سکتیں’


زنیرہ نے عام بچوں کی طرح اسکولنگ کی اور کالج سے پڑھا اور آج وہ ایک کامیاب بزنس وومن اور ٹیچر ہیں۔

”لوگ اکثر کہتے ہیں کہ جو معذور ہوں انہیں خواہش نہیں کرنی چاہیے۔ انہیں عام لڑکیوں یا لڑکوں کی شادیاں دیکھ کر حسد ہو جاتی ہے لیکن میں کہتی تھی کہ حسد نہیں ہوتی۔ خواہشات ہوتی ہیں اور یہ ہر شخص کو ہوتی ہیں چاہے پوری ہوں یا نہ ہوں۔ مجھے لوگ کہتے تھے کہ تم کسی معذور شخص سے شادی کرنا تو میرا جواب ہوتا تھا کہ نہیں میں کسی نارمل شخص سے ہی شادی کروں گی کیوں کہ میں خود بھی نارمل ہی ہوں۔”

یہ کہنا ہے 34 سالہ زنیرہ رضوان طارق کا۔ جن کا قد چار فٹ 10 انچ ہے اور وہ گردن کے مہروں کے مرض کا شکار ہیں۔ چار بہن بھائیوں میں سے بڑی ہونے کے سبب زنیرہ کو اپنے گھر میں سب سے زیادہ پیار ملا اور اہمیت بھی۔ البتہ انہیں 29 برس تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان کا قد ان کے باقی بہن بھائیوں کی نسبت چھوٹا کیوں ہے۔

والدین زنیرہ کو ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے عام بچوں کی طرح اسکولنگ کی اور کالج سے پڑھایا اور آج وہ ایک کامیاب بزنس وومن اور ٹیچر ہیں۔

زنیرہ اس وقت امریکہ میں فیشن بوتیک چلا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ چلڈرن ویئر کے بزنس کے ساتھ ساتھ آن لائن ٹیوٹر بھی ہیں۔

زنیرہ ‘زی ٹیوٹرنگ’ کے نام سے ایک ویب سائٹ بھی چلا رہی ہیں جس کے ذریعے وہ امریکہ سے بیٹھ کر پاکستان میں خواجہ سراؤں کو آن لائن فری انگلش لینگوج کی کلاسز بھی دیتی ہیں۔ اپنی ویب سائٹ کے ذریعے وہ ریاضی، اردو اور سائنس کی تعلیم دے رہی ہیں۔

ان کے بقول “میرے والدین کو اکثر کہا جاتا تھا کہ لڑکی کا قد چھوٹا کیوں ہے؟ یہ مختلف کیوں ہے؟ چوں کہ ہمارا تعلق ایک پڑھے لکھے خاندان سے ہے تو یہ باتیں ذرا اچھے انداز میں کہی جاتی تھیں۔ لیکن ان سب کے باوجود والدین نے کبھی یہ محسوس ہونے نہیں دیا کہ مجھ میں کسی چیز کی کمی ہے۔”

زنیرہ کے والدین کی جانب سے شروع میں انہیں بتایا گیا کہ وہ بیمار ہیں اس لیے ان کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے زنیرہ نے بتایا کہ ہائر سیکنڈری ایجوکیشن کے بعد جب انہوں نے اپنے والد کا کاروبار سنبھالنا چاہا تو والد نے کہا کہ پہلے کوئی ڈگری لو، کچھ بنو پھر میرٹ پر کاروبار سنبھالو۔ جس کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ چلی گئیں۔

زنیرہ کے بقول، “امریکہ میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ سنڈے اسکول میں پہلی نوکری کی تو وہاں میرا سامنا ان بچوں سے ہوا جن کے سوالات کی بوچھاڑ یہی تھی کہ آپ ایسی کیوں ہیں؟ آپ کا قد اتنا چھوٹا کیوں ہے؟ آپ کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے؟ یہ پہلا موقع تھا جب میں نے ان سوالات کا سامنا خود کیا تھا۔ اس سے قبل ان سوالات کا جواب دینے کے لیے میرے والدین میرے ساتھ ہوتے تھے۔”

انہوں نے بتایا کہ امریکہ میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ ملازمت بھی چلتی رہی۔ اس دوران موبائل فون بھی فروخت کیے اور اوبر ٹیکسی بھی چلائی۔

زنیرہ نے امریکہ میں لیبرل اسٹڈیز، میتھس اینڈ سائنسز میں گریجویشن مکمل کی اور وہ آرٹ ایسوسی ایشن میں تین ڈگریاں اور ایسوسی ایٹڈ سائنس میں ایک ڈگری حاصل کر چکی ہیں۔

زنیرہ کو بیماری کا کیسے علم ہوا؟

زنیرہ کے مطابق 2015 میں جب وہ امتحان دینے کے لیے کلاس روم میں موجود تھیں تو اس دوران انہوں نے اپنا ہاتھ جلا ہوا دیکھا جو شاید صبح انڈا ابالتے ہوئے گرم برتن سے لگنے کے بعد جل گیا تھا، لیکن انہیں بالکل بھی درد محسوس نہیں ہوا جس کی وجہ ان کے جسم کے دائیں حصے میں محسوس کرنے کی صلاحیت ختم ہونے کی وجہ سے تھا۔

ان کے بقول “میں اسی روز اسپتال گئی جہاں ایک بھارتی ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد بتایا کہ میری گردن میں گیپ (فاصلہ) ہے جسے ‘سی ون سی ٹو’ میں گیپ کہا جاتا ہے۔ یہ پیدائشی ہوتا ہے۔

زنیرہ کے مطابق 28 برس کی عمر میں یہ جاننے کے بعد میں نے سوچا کہ یہ کسی کی غلطی نہیں تھی بلکہ اچھا ہی ہوا کہ کچھ پتا نہیں چلا۔ اگر ابتدا میں بیماری کا پتا چلتا تو جو کچھ 19 برس میں کر پائی تھی شاید کبھی نہ کر پاتی۔

مرض کی تشخیص کے بعد زنیرہ کی سرجری ہوئی اور انہوں نے اس کے فوراً بعد خود کو آزمانا چاہا کہ آیا وہ ڈرائیونگ کر سکتی ہیں یا نہیں لیکن انہوں نے کار چلا کر یہ کر دکھایا۔ سرجری کے بعد بھی ان کے جسم کا دایاں حصہ آج بھی محسوس کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔

زنیرہ اپنی ناکامیوں کو بھی ہنستے ہوئے بیان کرتی ہیں اور اس میں بھی مثبت پہلو نکالتی ہیں۔

ان کے بقول “میں نے امریکہ میں 32 انٹرویو دیے اور الحمداللہ سب ریجیکٹ ہوئے جس کی وجہ میری (جسمانی کیفیت) تھی۔ مجھے کہا جاتا تھا کہ امریکہ میں رہتے ہوئے ڈس ایبیلٹی بینیفٹ لے لو۔ ایک جگہ انٹرویو کے لیے گئی تو اس شخص نے کہا کہ آپ تو ایک وقت میں چار فائلیں بھی نہیں اٹھا سکتیں جس پر میں نے کہا کہ آپ ایک ایک کر کے بھی فائل اٹھا سکتے ہیں تو وہ شخص مسکرا دیا اور مشورہ دیا کہ آپ ڈس ایبل کوٹہ کے لیے اپلائی کر سکتی ہیں۔

سال 2016 میں زنیرہ امریکہ سے ڈگری لینے کے بعد پاکستان واپس آئیں اور انہوں نے ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ بائیو ٹیکنالوجی میں بطور لیکچرار خدمات انجام دیں اور اسی یونیورسٹی کے اسپیشل ایجوکیشن میں بچوں کو پڑھانے کی ذمہ داری ادا کرنا شروع کی۔

زنیرہ کہتی ہیں کہ میرا ماننا ہے کہ دنیا کی باتیں، طعنے، تجسس آپ کو وہ کچھ سکھا دیتا ہے جو کتابیں بھی نہیں سکھا سکتیں۔

زنیرہ کی 2018 میں شادی ہوئی۔ ان کے چھوٹے بہن بھائیوں کی شادیاں ان سے پہلے ہو چکی تھیں جس پر ان کے بقول بہت سے لوگ والدین کو جتاتے تھے کہ اس کا کیا ہوگا؟ جب میری شادی ہوئی تو سوالات الگ نوعیت کے تھے کہ یہ شادی کیسے ہو رہی ہے؟ کیسے ہو گئی؟ کیا لے دے کر کی گئی ہے؟

زنیرہ کے بقول انہوں نے معذور بچوں کے والدین کے دکھ اور خوف دیکھے ہیں لیکن وہ انہیں سمجھاتی ہیں کہ آپ بچوں سے پیار کریں۔ انہیں احساس دلائیں کہ آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ شاید میرا تعلق ایسے گھرانے سے تھا جہاں میرے والدین نے مجھے بہت ناز سے پالا تھا اور جو بھی معاشرتی دباؤ سہا تھا مجھے اس کے اثر سے دور رکھا تھا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments