مقابلہ، مقابلہ


گولڈن گرل رابعہ الربا اپنے کالم ”ایک عورت کی نظرمیں مردانگی کیا ہے؟“ کے ایک پیراگرف میں مرد کی خواہشات کا ذکر کرتے ہوئے ایک خوبصورت جملہ لکھتی ہیں:
”وہ (عورت) خود بخود اس کی خواہش پہ، نہ چاہتے ہوئے بھی خود کو اس کے لئے آمادہ کر لیتی ہے۔“ اس جملے پر ایک افسانہ حاضر خدمت ہے۔

۔۔۔۔۔

تیس سال گزر گئے، وہ دن، وہ راتیں جب ہم پہلی بار لالہ زار گئے تھے، کیسے بھلائی جا سکتی ہیں۔

پہاڑی کی چوٹی پر واقع وسیع مرغزار کے عین بیچ ایک چھوٹا سا چار کمروں پر مشتمل ہوٹل جس میں اس وقت صرف ہم دونوں ہی مہمان تھے۔ دن میں کچھ رونق نظر آتی پھر شام کو سورج چھپنے سے پہلے ہی انسان نما ہر چیز غائب ہو جاتی۔ اس دن صبح آسمان کی لاجوردی فضاء بالکل صاف تھی۔ کہیں کہیں سفید ابر کی ہلکی لہریں اس کے نیلے پن سے الجھ رہی تھیں۔ چرخ نیلوفری کو چھوتے درختوں کے باریک پتے پردہ ہائے ساز بن کر دل کی تاروں سے ہم آہنگ ہو کر جلترنگ بجا رہے تھے۔

دور افق سے ابھرتے ہوئے سورج کی سرخ روشنی دریا کو شراب ارغوانی بنا رہی تھی۔ ہم لان میں بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔ اس دل افروز منظر کے درمیان تمہاری نشیلی آنکھوں سے ٹپکتا نور ہر روشنی سے زیادہ تابندہ تھا۔ رت جگے کی اکلوتی نشانی، تمہاری آنکھوں کی گہری سرخی بتا رہی تھی کہ اس جھیل میں مچلتا پانی ابھی بھی کنہار کی طرح لہریں لے رہا ہے۔ میں سوچ رہی تھی کہ تھوڑی دیر اور گزر گئی تو اس ابھرتے سیلاب میں میرے پاؤں پھر اکھڑ جائیں گے۔

تم میری طرف ہی دیکھتے جا رہے تھے۔ میں بھی ساری دنیا سے بے نیاز صرف تمہاری نیازمند بن کر نظریں ملانے کی ہمت جمع کر رہی تھی۔ سلائس پر جیم لگاتے ہوئے تمہاری طرف دیکھا تو تمہارے بازوؤں کی مچلتی مچھلیاں، پیشانی پر چمکتی شبنمی بوندیں اور تھر تھراتے ہونٹوں کا خلاء دیکھ کر میں مزید الجھ گئی۔ وصل کی خمار اندوزی دیکھ کر میرا سانس پھولنا شروع ہو گیا۔ میں نے سوچا ابھی تو دن شروع ہوا ہے۔

سلائس تمہیں پکڑاتے ہوئے میں نے خود کو سنبھالا اور چائے بنانا شروع کر دی۔ لیکن تم جان گئے تھے۔ میرے لجالو جسم کی لرزش کو پہچان گئے تھے۔ چھپایا بھی کیسے جا سکتا تھا؟ تمہاری نگاہیں مسلسل میرے چہرے پر ہی جمی ہوئی تھیں۔ تم نے شرارت بھرے لہجے میں آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا تھا ”چائے پی لو پھر دن کا آغاز کرتے ہیں۔“ میں نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا۔ لہجے میں کوشش کر کے کھردرا پن لاتے ہوئے پوچھا ”ناشتہ کریں، مجھے کیوں مسلسل دیکھے جا رہے ہیں؟“ تمہارے جواب نے مجھے اور سلگا دیا ”کیا تم جانتی ہو کہ دنیا میں کوئی اور چیز اتنے غور اور قریب سے نہیں دیکھی جاتی جتنا رخ محبوب؟“

میں نے خود کو جلد ہی سنبھال لیا اور تمہاری آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی تھی ”رخ محبوب کی عبادت کا تقاضا ہے کہ اس کے ناز و نخرے بھی اٹھائے جائیں۔“

”حکم میرے آقا!“
مجھے شرارت سوجھی۔ ”سوچ لیں!“

تم کچھ دیر خاموش رہے پھر سر کو زور زور سے اقرار میں ہلانا شروع کر دیا۔ میں پر اعتماد لہجے میں بولی
”جب میں نہ کہوں، جب کبھی بھی میرا دل نہ چاہے آپ صبر کریں گے۔“
”بس، اتنی سی بات! اتنی چھوٹی شرط۔“
ہم ہنسنا شروع ہو گئے

۔
”تم زندگی بھر کبھی مجھے تنگ نہیں کرو گے۔“
”سب قبول۔ لیکن چلو ایک اور کھیل کھیلتے ہیں۔ صبر کا کھیل۔ آج ہی۔ صبر کا مقابلہ۔“
”کون سا؟“
”آج ہی مقابلہ ہو گا۔ دونوں مست ہوں، دونوں عشق کی مستی میں ڈوبے ہوں اور مقابلہ ہو گا صبر کا۔
دیکھیں گے کون ضبط کرتا ہے اور کون بے صبرا ہوتا ہے؟ ”
ہاں، قبول ہے۔ ”

گاڑی آ چکی تھی۔ ہوٹل کے منیجر نے بتایا کہ آج کا ٹور بہت لمبا ہے اس لیے جلدی جائیں۔ ہم فوراً ہی روانہ ہو گئے۔ سارا دن وادیاں، جھرنے، آبشاریں، جھیلیں، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور جیپ کا سفر لیکن تھکاوٹ کا کہیں نام و نشان بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ جل کھڈ سے آگے ابھی سڑک نہیں بنی تھی۔ پتھریلے راستوں پر چلتے ہوئے لالوسر جھیل پہنچے۔ شفاف برفیلے پانی میں قوس قزح کے ساتوں رنگ دیکھ کر تم نے کہا تھا ”ہماری زندگی میں بھی یہی رنگ بکھریں گے۔“

تمہارے ساتھ تیس سال گزر گئے لیکن اس دن جو خوشیوں بھری زندگی ملی وہ آج بھی میرے من کو گلنار کیے ہوئے ہے۔ سارا دن تم شرارت بھرے لہجے میں گنگناتے رہے تھے

”مقابلہ، مقابلہ۔ لیلیٰ ہو لیلیٰ۔“

واپسی پر ہم ناران بازار میں ہی اتر گئے۔ شام ہو رہی تھی۔ کچھ دیر کی مٹر گشت کے بعد تم نے ایک جیپ کو روکا اور اس سے ہوٹل تک جانے کا پوچھا۔ ہم اس کے ساتھ اگلی سیٹ پر ہی بیٹھ گئے۔ جوں جوں شام اپنی رنگت کھو کر سیاہ قبا اوڑھ رہی تھی تمہارے چہرے پر پھول کھل رہے تھے۔ مقابلہ، مقابلہ جاری تھا۔ اب میں بھی اس کھیل میں پھر پور شامل ہو چکی تھی۔ پھر پتا نہیں کیا ہوا کہ ڈرائیور کے چہرے پر شرمندہ سی ہنسی کھل اٹھی۔ ہوٹل پہنچ کر تم نے کرایہ دیا تو اس نے وصول کرنے سے انکار دیا۔ سیڑھیاں چڑھتے میں نے پوچھا کہ اس نے کرایہ کیوں نہیں لیا۔ تمہارے جواب سے میری ریڑھ کی نس میں ایک سرد لہر سی دوڑ گئی۔

”ہم نے اسے مزہ جو کروایا تھا۔“ اس کے بارے میں آج بھی سوچتی ہوں تو شرم سے پانی پانی ہو جاتی ہوں۔

اور پھر وہ کھیل شروع ہو گیا جو تم نے کہا تھا۔ ضبط کی شرط تھی لیکن لمحہ لمحہ دل کی بے کلی بڑھتی جا رہی تھی۔ اک موج طرب تھی جو سر سے گزر رہی تھی۔ اک نشہ تھا جو دل و دماغ پر چھا رہا تھا۔ اک موج کیف تھی جو تن بدن میں رقص کناں تھی۔ ابھی سینے کے زیر و بم میں روانی تھی اور ابھی سانسوں میں کوئی ربط نہیں رہا تھا۔

شیریں سی ہلچل سے بدن سرشار ہوئے جا رہے تھے اور حاصل تسکین نفس ضبط کے بندھن میں بندھا ہوا تھا۔ تم کہتے رہے کہ بوس و کنار عورت کا فن ہے۔ آزماؤ اپنا فن۔ اور پھر خود تم ہی اس میں طاق نظر آئے۔ پھر وہ مخصوص چٹکی تمہاری انگلیوں سے پھسل کر مجھے بے بس کر گئی جس کے سامنے کوئی بھی عورت اپنا کنٹرول کھو دیتی ہے۔ عنان ضبط ہاتھ سے چھوٹ گئی اور جسموں کے گلخن میں کوئلے دھک اٹھے۔

پتا بھی نہ چلا کہ کون ہارا تھا۔
اکھڑے اکھڑے سانسوں میں روانی آئی تو میں کہہ اٹھی ”میں ہار گئی تھی۔“
اور تم بولے ”ہاں! ہاں!
لیکن سچ یہ ہے کہ میں نے فاؤل پلے کیا۔
میں ہار گیا تھا۔”
ہماری ہنسی چھوٹ گئی۔ دونوں نے ہی قبول کر لیا
”نہیں میں“
”نہیں میں۔“
پھر تم کہنے لگے ”کوئی بھی نہیں ہارا
Love is the only game,
Both play and both win. ”

تیس سال بعد وہ شرط جو میں نے لگائی تھی آج بھی ادھوری ہے۔ پوری زندگی میں ایک پل بھی ایسا نہیں آیا کہ اس کو آزمایا جا سکے۔ تم نے اس آزمائش کا موقع ہی فراہم نہیں کیا یا پھر شاید ایسے ہو جاتا ہے کہ تمہاری آنکھوں میں نشہ دیکھ کر میں بہک جاتی ہوں، تمام شرائط ادھوری رہ جاتی ہیں اور دونوں ہی (۔) جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments