وبا کے دوزخ میں سستی لاشیں


میں پھر خبریں پڑھ رہاہوں۔ یہ خبر وبا کی پہلی لہر سے کافی الگ اور چونکا دینے والی ہیں کہ لوگ مر رہے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اور میں یہ بھی پڑھ رہا ہوں کہ حکومت کے کارکنوں نے کچھ جگہوں کو نظربند کر دیا ہے تاکہ کسی نڈر صحافی کی بے خوف نگاہ وہاں کی زمین پر جلائی گئیں چتاؤں کی راکھ کو نہ ڈھونڈنے لگ جائے۔

مگر جب دھیرے دھیرے زمین تنگ ہوتی چلی جائے۔ سڑکوں اور سیر وتفریح والی جگہوں پر سفید کپڑے میں ملبوس مردار انسانوں کی جلتی بو کو ہوا اڑا لے جائے۔ روشن دان سے گھر میں داخل ہونے والی ہواؤں اور سورج کی کرنوں کی جگہ ان پر سیاہ دھند حاوی ہو جائے۔ تو کیا آپ کو ایسی جگہ سے ڈر نہیں لگے گا؟

لگے گا اور ضرور لگے گا۔ اپنے آپ میں سب سے زیادہ تعجب خیز اور چونکا دینے والی خبر تو یہ بھی ہے کہ چتا پر جلنے والے لوگ تو مسلمان ہو نہیں سکتے مگر کچھ دفنائے جانے والے مردے بھی اب مسلمان نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وبا کی دوسری لہر میں لوگ وبا سے زیادہ وبا کے خوف سے سہمے ہوئے ہیں۔ باپ مر چکا ہے اور بیٹا باپ کی لاش کو کندھا دینے سے انکار کر رہا ہے۔ بیوی مر چکی ہے اور شوہر غائب ہے۔ وبا کے خوف نے ملک کی تصویر کو بہت بھیانک روپ میں تبدیل کر دیا ہے۔

مگر مجھے سب سے زیادہ بھیانک تصویر تلک دھاری سنگھ کی بیوی راج کماری کی لگی جو کورونا پازیٹو ہوئی۔ کچھ روز اسپتال میں زیر علاج کے دوران اس کی وہیں پر موت واقع ہو گئی۔ اوروں کی طرح ایمبولینس نے اس کی ڈیڈ باڈی کو گھر چھوڑ دیا۔ گھر میں صرف تن تنہا عمر رسیدہ شوہر، جس کی کمر نیچے کی طرف جھک چکی ہے۔ ذرا سوچیے کہ اس بوڑھے شوہر کو حوصلے اور ہمت کی ضرورت ہو گی کہ کوئی گھر آئے۔ کاش کوئی رسمی طور پر کچھ دلاسا ہی دے کر چلا جاتا۔

لیکن جب راج کماری کی ڈیڈ باڈی آئی تو بستی سے انسان غائب ہو گئے۔ تلک دھاری سنگھ نے خوب کوشش کی کہ کوئی گاڑی یا کوئی ایسا انسان نظر آ جائے جو اس کی بوڑھی بیوی کو شمشان گھاٹ تک لے جانے میں کام آ سکے۔ مگر ایسا ہوا نہیں۔ جب اسے ڈر ہونے لگا کہ کہیں لاش کی حالت بگڑنے نہ لگ جائے تو اس نے خود ہی اپنی سائیکل اٹھائی اور جس طرح کسی بڑی بوری یا بھاری بھرکم سامان کو سائیکل کے دونوں پہیوں کے بیچ، آہنی خول لگے چین کے اوپر رکھ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جاتا ہے، ٹھیک اسی طرح اس نے اپنی بیوی کے مردار جسم کا درمیانی حصہ اس پر اس طرح رکھا کہ اس کے سر اور پاؤں دونوں زمین پر گھسنے لگے۔

وائرس کے دوزخ سے دور یہ تصویر اسی راج کماری کی ہے جس کی لاش کو سائیکل پر لے جانے کی توہین تو اس کے شوہر نے پہلے ہی کر دی تھی مگر زندہ انسانوں نے اس مردہ عورت کے ساتھ اس سے بھی برا سلوک کیا کہ جب شوہر اپنی بیوی کی لاش کو شمشان گھاٹ تک لے آیا تو لوگوں نے آخری رسومات ادا کرنے سے روک دیا۔ وبائی موسم کی یہ اندوہناک تصویر انسانوں اور خاص کر تلک دھاری سنگھ کے قریب بسنے والے لوگوں کی تہذیبی اقدار کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔

انسانی تہذیب میں اتنی زیادہ گراوٹ آ چکی ہے کہ ہندو مر رہے ہیں اور ان کی آخری رسومات ہندو نہیں مسلمان ادا کر رہے ہیں۔ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ جب ماں، باپ اور بیٹے نے لاش کو کندھا دینے سے انکار کر دیا تو مسلمانوں نے کیوں یہ خطرہ اپنے سر مول لیا؟

اس سوال کا یہ جواب دے کر آسانی سے نکل جانا کہ ’اصل چیز انسانیت ہوتی ہے‘ کافی نہیں۔ کیوں کہ مسلمان بھائیوں نے اپنے ہندو بھائیوں کو یہ ثبوت پیش کرنے میں ایک صدی گزار دی ہے کہ ہم تمہارے دشمن نہیں، دوست ہیں۔ اور جہاں دوستوں کو اپنی دوستی اور انسانیت کا اقرار دلانے کے لیے موت سے گزرنا پڑے کیا آپ وہاں یہ بھی نہیں سوچیں گے کہ یہ دوستی ہے یا دشمنوں کے دل میں اپنی جگہ بنانے کے لیے غلامی؟

حفاظتی دستہ اگر یہ کام کرنے سے انکار کر دے تو بات سمجھ آتی ہے۔ لیکن مرنے والوں کے خاندان سے متعلق ان کے ماں باپ ہی جب لاش لے جانے سے انکار کر دیں اور اس کے لیے مسلمان آگے بڑھ جائے تو میں اسے غلامی ہی سمجھوں گا۔

2020 میں جب وبائی صورت حال قابو سے باہر ہوئی تو اس وقت بھی اقلیتوں کے خلاف ہر حد سے گزر جانے والے وزیر اور شدت پسندانہ نظریات رکھنے والی اس کی جماعت اور خود میڈیا نے اپنی ناکامی کا سارا عتاب ملک کے مسلمانوں پر ڈال دیا تھا۔ یہی نہیں میڈیا اور کچھ انتہا پسندوں نے کورونا کو ”کورونا جہاد“ بنا کر ملک کے لوگوں کے دل میں مسلمانوں  کے لیے نفرت پیدا کرنے کی بھی کوشش کی۔ اور ان کے پروپیگنڈے نے اس وقت بھی اپنا کام کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندو اور مسلمان کے درمیان ایک گہری خلیج پیدا ہوئی۔ معاشرتی زندگی میں ایک زبردست بھونچال آ گیا۔ حالات اتنے بگڑے کہ لوگوں ‌میں دوریاں پیدا ہو گئیں۔

اس وقت بھی یہی لوگ تھے جو ایک خاص طبقے کو اپنا نشانہ بنا رہے تھے۔ سیاہ چہرہ رکھنے والے دانشور اس وقت بھی اخبار، میڈیا اور سارے نیوز چینلوں پر انہی اقلیتوں کے خلاف زہر اگل رہے تھے۔ اور آج جب ملک کے اسی وزیر نے شہروں میں بھیڑ اکٹھی کر کے وائرس کی تباہی پھلائی ہے تو اس کے لیے کوئی سوال نہیں؟ کوئی میڈیا اور کوئی دانشور نہیں؟

مجھے بتائیے کہ آزادی کے بعد سے اب تک ان اقلیتوں کے ساتھ اچھا کیا ہوا؟ کچھ بھی نہیں۔ ادھر ہم پریشان اور ادھر وہ بھی پریشان۔

ہندوستان ہو یا پاکستان، آپ دنیا کی کسی بھی ایسی جگہ میں خود کو اچھی تہذیب و ثقافت اور اچھی سوسائٹی میں زندگی گزارنے کے قابل کیسے کر سکتے ہیں کہ جہاں وبا پھیلتے ہی چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں؟

اگر آپ کو پتا نہیں تو آپ بازار جا کر دواؤں کی خریداری کیجیے۔ تاکہ آپ کو پتا چلے آفت اور بلاؤں کے آتے ہی دوائیں مہنگی ہو جاتی ہیں۔ آکسیجن مہنگی ہو جاتی ہے۔ کھانے اور پینے کی اشیاء تک مہنگی ہو جاتی ہیں۔ سستی اگر کچھ ہوتی ہے وہ خود دوا بنانے اور آکسیجن تیار کرنے والے انسانوں کی لاشیں۔ لاشیں جو پھینک دی جاتی ہیں۔ جلا دی جاتی ہیں۔ دفن کر دی جاتی ہیں۔ وہ لاشیں ہی سب سے سستی ہوتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments