لگ چکا ہے اب ہمیں اپنے لہو کا ذائقہ


ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ہمیں ہر چیز رمضان میں پکوڑوں کی طرح بنی بنائی ملتی ہے اور آسانی سے مل جانے کی وجہ سے ہم اس کے اجزائے ترکیبی پر غور کرنے کی زحمت اس لیے نہیں کرتے کہ ہمیں صرف وقتی لذت کا عادی بنا دیا گیا ہے، ہمیں اپنے فائدے اور نقصان کے ادراک بارے بتایا ہی نہیں جاتا بلکہ میں تو یہ کہوں گی کہ ہمیں نہ سوچنے کے لئے باقاعدہ تیار کیا جاتا ہے کہ ہمیں تو کلاس میں اپنی مرضی کے جملے بنانے کی اجازت بھی نہیں ہوتی، بورڈ سے دیکھ کر استانی کے جملوں کو اپنے سامنے موجود قرطاس پر اتارنا ہوتا ہے، امتحان میں بھی نصابی کتب ہی کا نقطۂ نظر لکھنا ہوتا ہے، چاہے آپ جانتے بھی ہوں کہ ساری جنگیں ہم نے صرف مطالعہ پاکستان میں جیتی ہیں اور حقیقت اس کے برعکس ہے۔

یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ کبھی کبھار بڑے بھی غلط ہو سکتے ہیں، تو ظاہر ہے کہ وہ کچھ بھی غلط کر دیں، آپ کو غلط نہیں لگتا۔ یہی چیز جب معاشرتی سطح پر ہوتی ہے تو آپ پہلے سے عادی ہوتے ہیں، غلط اور صحیح کی تمیز کرنے کی صلاحیت سے عاری معاشرے تو پھر ایسے ہی چلتے ہیں جیسے ہم چل رہے ہیں، ظلم تو یہ ہے کہ نظریات تک بنے بنائے ملتے ہیں جن کی پرکھ کی ہرگز اجازت نہیں ہوتی، چناؤ کا عمل ہمارے ہاں ہر سطح پر مفقود ہے، یہاں تک کہ سبزی لینے کے لئے بھیجے جانے والے بچے کو اس کی مرضی سے سبزی چننے کی بھی اجازت نہیں ہوتی، وہ بھی سخت ہدایات کے ساتھ بھیجا جاتا ہے کہ جو کہا جائے جتنا کہا جائے، وہ کرو۔

یہ سب ہماری گھٹی میں اس لیے ڈالا گیا تاکہ ایک ایسی قوم پیدا کی جا سکے جسے اپنے حقوق کا قطعاً ادراک نہ ہو اور مفلوج معاشرے پر مٹھی بھر اشرافیہ طویل عرصہ تک راج کر سکے اور ایک نہ ختم ہونے والی غلامی ان کا نصیب رہے اور ایسا ہی ہوا۔ ہمارے ہاں کسی کو راہ چلتے اٹھا لینا، غائب کروا دینا، گھر میں گھس کر توڑ پھوڑ کر کے ہراساں کرنا کتنا عام ہے اور ہم اس پر کوئی خاص احتجاج بھی نہیں کرتے۔

فیس بک دیکھتے دیکھتے پوری سکرین ابصار عالم پر قاتلانہ حملے سے بھر گئی، میں ان کو ٹاک شوز کے حوالے سے جانتی ہوں، زیادہ معلومات نہیں تھیں، ہاں اگر کوئی عام شہری بھی ہوتا تو دکھ ہوتا کہ پارک میں واک کرتے ان کے ساتھ اتنا بڑا ظلم کیوں ہوا؟ کیوں ہم اپنے ہی ملک میں اس قدر غیر محفوظ ہیں؟ جب امن میں کمزوری اور بگاڑ پیدا ہو جائے تو شیطانی خباثت اور اس کے انسانی اور جن لشکروں کے خونی کھیل تماشے ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں، انسان ان کو ہلکا سمجھ کر ان کی باتوں میں آ جاتا ہے۔

خلاف اصول حرکت، امن شکنی اور امن عامہ کے لیے خطرناک کام کسی بھی صورت قبول نہیں، کوئی سماجی روایت اسے روا رکھتی ہے اور نہ شریعت اس کی اجازت دیتی ہے۔ بلکہ امن و امان خراب کرنے والے ہر عنصر کا تانا بانا ہمارے دشمن بنتے ہیں، جو ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتے ہیں، چاہے بظاہر وہ امن قائم کرنے کے نام پر ہمارے ہی بھائیوں اور شکست خوردہ افراد کا ہی استعمال کریں۔

امام کعبہ ڈاکٹر سعود الشریم بتاتے ہیں:

امن و امان کے سائے تلے ہی عبادت لذید محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ اسی کی بدولت نیند سکون اور، کھانا مزیدار اور پینا راحت جان لگتا ہے۔ امن اور امان یہ دونوں ہر ترقیاتی جدوجہد کے ستون ہیں اور ہر معاشرے کی منزل مقصود۔ بلکہ یہ بلا امتیاز ہر قوم کی آرزو اور تمنا ہے جبکہ اسلامی معاشروں میں اس پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ یہ معاشرے ایمان لا کر امن کا گہوارہ بن گئے اور امن کے سائے میں پرورش پانے لگے۔ پھر ان معاشروں سے امن اور ایمان اور نشو و نما کے شگوفے پھوٹنے لگے، کیونکہ ایمان کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔

خبر آنے کے کچھ ہی دیر بعد ابصار عالم کی وڈیو سوشل میڈیا کے ذریعے دیکھی جا رہی تھی، وہ نڈھال تھے اور پیٹ میں لگنے والی گولی کی شدت اور تکلیف کو ضبط کیے ہمت سے کہہ رہے تھے : ”میں ڈر نہیں رہا، مجھے ان لوگوں کا کوئی خوف نہیں، بس آپ سب جو مجھے دیکھ اور سن رہے ہیں میرے لیے دعا کیجیے گا“ ۔

ابصار عالم ایک صحافی ہیں لیکن انہی کی برادری نے اگلے دن لکھا کہ ابصار عالم کو خواہ مخواہ ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جبکہ وہ تو مریم نواز کے سپاہی ہیں۔ میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ مریم نواز تو خود عوام ہی کی سپاہی ہیں جو آئین پاکستان کو ہاتھ میں اٹھا کر عوام کو ان کے حقوق بتاتی ہیں تو پھر انہیں محض سیاست دان ہونے کی وجہ سے اتنے منفی انداز میں کیوں پیش کیا جاتا ہے۔ مجھے رہنمائی درکار تھی کہ ابصار عالم کون ہیں اور ان پر قاتلانہ حملہ کیوں ہوا۔

سوشل میڈیا پر مختلف تبصروں اور کچھ مزید کالم پڑھنے کے بعد میں باآسانی ابصار عالم سے واقف ہو گئی۔ ابصار عالم نوزائیدہ پاکستان کے مشکل دنوں کی نازک سی جمہوریت ہیں، ابصار عالم ذوالفقار علی بھٹو ہیں جنہیں ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا تھا، ابصار عالم محترمہ بے نظیر بھٹو ہیں جنہیں پاکستان واپس آنے پر کھلے عام شہید کیا گیا اور موقع واردات کو فوراً دھلوا دیا گیا، ابصار عالم اکبر بگٹی ہیں جن کو دوستی کی آڑ میں پہاڑوں میں ابدی نیند سلا دیا گیا۔

ابصار عالم نواز شریف ہیں جو تین بار اس مملکت پاکستان کے منتخب وزیراعظم رہے مگر ان پر آج بھی پاکستان کی زمین تنگ ہے، ابصار عالم وزیراعظم عمران خان ہیں جن کو پاکستان کے تمام سابق وزرائے اعظموں کی طرح وزارت عظمیٰ بغیر کسی اختیار کے ملی ہے، ابصار عالم قاضی فائز عیسیٰ ہیں جو اعلیٰ عدالت کے قاضی ہو کر بھی ناکردہ جرائم کی سزا اپنی فیملی سمیت بھگت رہے ہیں اور ابصار عالم ہر وہ دماغ ہے جو مطیع اللہ جان کی طرح اس وقت اٹھا لیا جاتا ہے جب وہ اپنی ملازمت پیشہ بیوی کو سکول سے واپس لینے کے لئے گاڑی میں بیٹھا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔

ابصار عالم سرمد سلطان ہیں جو فقط ٹویٹر پر نوجوانوں کو سچ بتانے کی جرم میں گھر سے اٹھا لیے جاتے ہیں اور میں بھی ابصار عالم ہوں کہ میں اس بدامنی اور جبر پر نوحہ گر ہوں اور میں تو کیا ہر ذی شعور پاکستانی پوچھنا چاہتا ہے کہ آخر ہمارا قصور کیا ہے، میں اپنی تحریر کا اختتام ایک خلیجی ملک میں مقیم پاکستانی لکھاری محمد منیب خان کے خیالات پر کروں گی جو ان حالات کی ترجمانی کرتے مجھے ابصار عالم ہی لگے:

’’میں ایک چھوٹا لکھاری ہوں، رب کے کرم اور مکالمہ کی وساطت سے دو چار بندوں تک میری تحریر پہنچ جاتی ہے ان میں سے کوئی ایک آدھ بندہ تحریر کو پسند بھی کر دیتا ہے۔ پھر بھی گاہے بگاہے گھر کال کروں تو مجھے والد صاحب ایک نصیحت ضرور کرتے ہیں کہ“زیادہ سخت زبان نہ لکھا کرو۔ ہمارا کیا سٹیک ہیں سیاست میں”۔ میں ایسی نصیحت ملنے کے بعد یقیناً اپنے الفاظ میں محتاط ہو جاتا ہوں۔

لیکن اس سارے معاملے میں وہ لوگ کیا کریں جن کے پاس کہنے کو تجزیہ نہیں بلکہ حقائق ہیں وہ حقائق جن کی وجہ سے ہم اندھیرے کمرے میں ایسی دیواروں سے سر پیٹ رہے ہیں جن میں کیلیں لگی ہوئی ہیں۔ ہمارا سر لہولہان ہے اور خون بہتے ہوئے آنکھوں میں اتر آیا ہے۔ اب بینائی باقی نہیں رہی اور زبان بھی لکنت زدہ ہو چکی ہے ”۔

جی ہاں کسی عام شہری کا سیاست میں کوئی سٹیک نہیں مگر کیا ہمارا اپنے ملک میں بھی کوئی سٹیک نہیں؟ ہاں شاید جب قوم کی ہڈیوں میں بدامنی کی بیماری سرایت کرنا شروع کر دے تو پھر اس کے افراد اس کی وجہ سے اپنی ہی دھرتی کے امن کے ورثے کو مٹی تلے دبانا شروع کر دیتے ہیں اور موجود نسلوں اور مطلوبہ امیدوں سے زندگی کی شریانیں کاٹ دی جاتی ہیں اور ہر طرف خوف، بے یقینی اور موت کا راج ہوتا ہے۔

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور معاشرے میں امن برقرار رکھنے کے لیے شریعت مطہرہ نے شدید ترین سزائیں مقرر کی ہیں اور شہریوں کے ان تمام وسائل میں حقوق کے متعلقہ ہر چیز کی حفاظت کی ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ یہاں تو گنگا اس قدر الٹی بہائی گئی ہے کہ اب صحیح سمت کا تعین بھی ممکن نظر نہیں آتا۔ عفاف اظہر ان حالات کی ترجمانی کچھ یوں کرتے ہیں :

لگ چکا ہے اب ہمیں اپنے لہو کا ذائقہ
شہر مردم خور میں زندہ غلط مردہ غلط


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments