پنجاب کو فردوس عاشق جیسا وزیراعلی چاہیے


فردوس عاشق اعوان نے سیالکوٹ کی حقیقی بیٹی ہونے کا حق ادا کر دیا، سیالکوٹ کے سستا رمضان بازار کے دورے کے دوران اسسٹنٹ کمشنر سونیا صدف کی لاپروائی، غفلت اور نالائقی پر جس طرح اس کی کھچائی کی وہ بہت کم ہے، اس سے بھی زیادہ ہونی چاہیے تھی، وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے پنجاب حکومت کی جانب سے رمضان المبارک میں عوام کو مہنگائی سے ریلیف دینے کے لئے لگائے گئے سستا رمضان بازار کا دورہ کیا۔

سوشل میڈیا پر اسسٹنٹ کمشنر کی کلاس (بعض لوگوں کے نزدیک بدتمیزی) کی مختصر ویڈیو دیکھی ہیں جس میں فردوس عاشق اعوان اسسٹنٹ کمشنر سونیا صدف پر برہم نظر آ رہی ہیں، بعد میں فردوس عاشق اعوان کے فیس بک پیج پر پورے پچیس منٹ کی ویڈیو دیکھی جس کو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہ اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ خود کو کیا سمجھتی ہے، آئینی عہدہ رکھنے والی وزیراعلی پنجاب کی معاون خصوصی وزیراعلی کی ہدایت پر سستا رمضان بازار کا دورہ کر رہی ہیں اور اسسٹنٹ کمشنر گرمی اور رش سے بچنے کے لئے ائر کنڈیشنڈ گاڑی میں بیٹھی رہیں۔

جب ان سے پوچھ گچھ کی گئی تو آگے سے بھرپور جواب دیتی رہیں، الٹا معاون خصوصی کو ہدایت دیتی رہیں کہ یہ بات آرام سے بھی کر سکتی ہیں، حد تو یہ ہے ایک موقع پر معاون خصوصی نے سٹال والے سے پوچھا کہ چینی کتنی دے رہے ہیں تو جواب ملا کہ ایک کلوگرام جس پر معاون خصوصی نے کہا کہ کئی دنوں سے حکومت نے دو کلو گرام کے احکامات جاری کر دیے ہیں آپ ایک کلو کیوں دے رہے ہیں جس پر سٹال والے نے کہا ہمیں ایسے احکامات نہیں ملے جس پر اے سی صاحبہ سے پوچھا تو وہ بھی حکومتی احکامات سے لاعلم تھیں۔

جس اسسٹنٹ کمشنر کی نالائقی کا یہ عالم ہو کہ اس کو حکومتی احکامات کے بارے میں بھی علم نہیں وہ اپنے دفتر کے معاملات کیسے چلاتی ہوگی، کچھ کم عقل لوگ سیاق و سباق سے ہٹ کر فردوس عاشق اعوان پر تنقید کر رہے ہیں کہ محترمہ سونیا صدف پاکستان کا سب سے مشکل امتحان پاس کر کے اس عہدے تک پہنچی ہیں اس لئے ان کے ساتھ ادب سے بات کرنا چاہیے تھی، بندہ ان عقل کے اندھوں سے پوچھے کہ محترمہ نے اگر پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز کا امتحان پاس کر لیا ہے تو قوم پر کس بات کا احسان کیا ہے۔

اپنی زندگی کو ہی بہتر بنایا ہے، پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز میں کامیابی کا مطلب یہ نہیں کہ آپ نے فرعونیت اور ہڈ حرامی کا لائسنس لے لیا ہے، PAS کرنے والے افسران خود کو دنیا کی الگ مخلوق ہی سمجھتے ہیں، اس کی ایک جھلک سب نے دیکھ لی کہ کام بیوروکریٹ نہیں کر رہے اور بدنام عمران و بزدار حکومت ہو رہی ہے، اگر حکومت عوام کو مہنگائی سے ریلیف دینے کے لئے کچھ سبسڈی دے رہی ہے تو اس پر بیوروکریسی کو کیا تکلیف ہے، سرکار کے خزانے سے رعایت دی جا رہی ہے ان افسران کے باپ کے پیسے سے تو نہیں دی جا رہی، یہ افسران تنخواہ اور مراعات کس بات کی لیتے ہیں۔

افسران عوام کی خدمت کریں اور اپنے رزق کو حلال کریں، سونیا صدف ہمارے نظام کے فرعون افسران کی ایک جھلک ہے کہ حکومت کی معاون خصوصی بات کر رہی ہیں اور وہاں سے چلی گئیں، سونیا جی یہ کام ذرا ڈپٹی کمشنر کے سامنے کر کے دکھائیں پھر دیکھیں ان کا کیا حشر ہوتا، فردوس عاشق اور اے سی کے معاملے ایک بات سب سے اہم تھی کہ جب معاون خصوصی نے کہا کہ ”پتہ کرتے ہیں کس بے غیرت نے آپ کو لگوایا ہے“ ، اس کے بعد رات گئے دو ”بے غیرت“ اسسٹنٹ کمشنر کی حمایت میں بول پڑے اور معاون خصوصی کی مذمت کردی، یہ سونیا صدف ہی نہیں، پاکستان اور پنجاب کی بیوروکریسی کا یہی انداز ہے۔

جب سے عمران اور بزدار حکومت آئی ہے مجال ہے کوئی کام کر لیں، مفت کی تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں، چند ماہ قبل لاہور کے ڈپٹی کمشنر مدثر ریاض کی فرعونیت بھی سامنے آئی جب وہ ہائیکورٹ پیشی کے موقع پر عجیب قسم کا لباس پہن کر چلے گئے، معزز جسٹس نے پوچھا کہ یہ کس طرح کا لباس پہن کر آئے ہیں آپ کو علم نہیں کہ آپ ہائیکورٹ پیش ہو رہے ہیں تو مدثر ریاض نے جواب دیا میں ایسا لباس ہی پہنتا ہوں، بس پھر ہائیکورٹ نے لباس بھی ٹھیک کرایا اور لہجہ بھی، پنجاب کی دوسری یا تیسری کہہ لیں بڑی پوسٹ پر کام کرنے والی ایک خاتون افسر نے تو تمام حدیں پھلانگ دی ہیں۔

انہوں نے اپنے دفتر میں ایڈیشنل سیکرٹری سے کم عہدے کے افسر کا داخلہ بند کر رکھا ہے اکثر تو وہ افسر کو بیٹھنے کا بھی نہیں کہتیں اور کھڑا کر کے ہی بات کرتی ہیں، ان کی ”مراعات“ کی فہرست سن کر عمران خان کا فقرہ کانوں میں گونجتا ہے کہ تمھارے باپ کا پیسہ ہے، اسی طرح پنجاب کے سب سے بڑے افسر کے بیٹے کی شادی پر جس طرح سرکار کا خزانہ بیدردی سے لوٹایا گیا اس پر دل دکھی ہوتا ہے کہ ہم نے عمران خان سے کیا کیا امیدیں لگائی تھیں مگر ریت کے ذرے برابر کوئی تبدیلی نہیں آئی، PAS کرنے والے افسران کی شاید تربیت ہی ایسی کی جاتی ہے کہ وہ انسان کو انسان ہی نہیں سمجھتے اور نام رکھا ہوا ہے سول سرونٹ، او بھائی اگر سرونٹ ہو تو سرونٹ بن کر دکھاؤ۔

ایک بات تو تسلیم کرنا پڑے گی کہ عمران خان اور عثمان بزدار آج تک بیوروکریسی کو سلطان راہی والی ”تڑیاں“ ہی لگاتے رہے اور کچھ بھی نہ کرسکے، زیادہ سے زیادہ افسر کا تبادلہ کر دیا یا او ایس ڈی بنا دیا مگر فردوس عاشق اعوان نے حقیقی معنوں نے عوام کا نمائندہ ہونے کا حق ادا کر دیا اور پھٹی ہوئی افسر کی تمام اکڑ نکال کر سستا رمضان بازار میں پٹخ دی، ابھی تو اسسٹنٹ کمشنر شکر کرے کہ فردوس عاشق اعوان الیکشن نہیں جیتیں اگر ان کے پاس عوام کا مینڈیٹ ہوتا تو پھر کیا ہوتا، مجھے دکھ بھی ہے سیالکوٹ والے کیسے احمق لوگ ہیں جنہوں نے فردوس عاشق اعوان کو منتخب نہیں کیا، اسسٹنٹ کمشنر اس بات پر بھی شکر ادا کرے کہ سستے میں جان چھوٹ گئی کیونکہ جو عورت کشمالہ طارق جیسی خاتون کو ٹی وی شو میں لاجواب کر سکتی ہے ممکن ہے وہ اس ”بے غیرت“ کا نام بھرے بازار میں بتا دیتی جس بے غیرت نے سونیا صدف کو اسسٹنٹ کمشنر سیالکوٹ لگوایا ہے۔

لوگ اختلاف کریں مگر میری رائے ہے کہ سرکاری افسران عوام کے خادم ہوتے ہیں ان کو عوام کو سہولیات کی فراہمی کے لئے مقرر کیا جاتا ہے اس لئے فردوس عاشق اعوان نے درست کیا، فردوس عاشق کی جرات دیکھ کر دل میں خواہش پیدا ہو رہی ہے کہ ہمیں پنجاب میں فردوس عاشق اعوان جیسا وزیر اعلی چاہیے، عمران خان کو مفت مشورہ ہے کہ وہ فردوس عاشق اعوان کو کسی سیٹ سے منتخب کرائیں اور پنجاب کا وزیراعلی بنا دیں پھر جو پنجاب میں افسران کو ڈانگ پھرے گی وہ دنیا دیکھے گی اور وہ ڈانگ تاریخ یاد رکھے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments