بابا فرید گنج شکر ؒ۔ پنجابی شاعری کے بانی


حضرت بابا فرید گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ ایسے ولی اللہ تھے، جنہوں نے اپنوں کے علاوہ بیگانوں کے قلوب کو بھی نوراسلام سے بھر دیا۔ ولی ہوتا ہی وہی ہے جو کسی کا ہاتھ تھام لے تو پھر اسے بھٹکنے نہ دے۔ اولیاء کا کردار ہی ان کی ولایت کی علامت اور پہچان ہوتا ہے اور وہ اپنے ارادت مندوں کو صرف اور صرف درس شریعت دیتے ہیں۔ وہ بہترین انسان اور عمدہ اخلاق و آداب کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ دانشمند اور عالم ہوتے ہیں اور لوگوں کو علم کی دولت عطا کرتے ہیں، مگر اس کا کسی سے معاوضہ نہیں مانگتے۔ ان کی خدمات فی سبیل اللہ ہوتی ہیں، وہ صرف اللہ تعالی سے ڈرتے ہیں۔ وہ اللہ تعالی کو پہچانتے ہیں اور اس سے پیار کرتے ہیں۔ وہ پاکیزہ ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالی بھی ان سے پیارکرتا ہے۔ اولیائے اللہ نے ہمیشہ اطاعت الہی اور خدمت خلق کو اپنا شعار بنایا۔

بابا فرید ؒ ایسے خاندان میں پیدا ہوئے جس کا سلسلہ خلفائے راشدین کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر خطابؓ سے جا کر ملتا ہے۔ ان کے والد کا نام جمال الدین سلیمان تھا۔ کہا جاتا ہے کہ آ پ کا خاندان پہلے لاہور آیا اور بعد میں ملتان کے قریب موضح کوٹھوال یا کہتوال میں آباد ہوا۔ آپ 1173 ء میں پیدا ہوئے، یہ وہ زمانہ تھا، جس وقت ہندوستان میں اسلامی حکومت کی داغ بیل ڈالی جا رہی تھی۔ پیدائش کے وقت آپ کا نام فریدالدین مسعود رکھا گیا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گھر میں ہی پائی۔ ان کی والدہ ماجدہ قرسم خاتون ایک پاک دامن اور پرہیز گار خاتون تھیں۔ والد کی وفات کے بعد ان ہی کے زیر سایہ آپ نے تعلیم حاصل کی، جس کی بدولت وہ خود ایک پاکباز اور نیک طنیت بنے۔

روایت ہے کہ بابا فرید گنج شکر ؒ ابھی کم سن تھے تو ان کی والدہ نے انھیں نماز پڑھنے کی تلقین کی تو آپ نے ان سے دریافت کیا کہ جو بچے نماز پڑھتے ہیں تو انہیں کیا ملتا ہے۔ والدہ نے جواب دیا جو بچے نماز پڑھتے ہیں، انھیں شکر ملتی ہے۔ یہ بات آپ نے پلے باندھ لی اورباقاعدگی سے نماز ادا کرتے۔ ان کی والدہ ان کے مصلے کے نیچے ایک کونے میں شکر رکھ دیتیں۔ بچے میٹھے کے شوقین ہوتے ہیں، آپ نماز ادا کر کے شکر مصلے کے نیچے سے اٹھا کر کھا لیتے۔ ایک دن والدہ شکر رکھنا بھول گئیں جب یاد آیا تو بیٹے سے پوچھا کہ آج شکر نہیں ملی۔ بیٹے نے جواب دیا کہ مجھ تو شکر مل گئی تھی۔ والدہ سمجھ گئیں کہ شکر ان کو اللہ تعالی کی طرف سے مل گئی ہے۔ اس پر ان کا نام گنج شکر پڑ گیا۔

دوسری روایت ہے کہ جب بابا فرید ؒ نے اپنے مرشد حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے حکم کے مطابق طے روزہ رکھا اور افطاری کے لئے کچھ نہ پا کر انہوں نے کنکر منہ میں بھر لئے تو وہ کنکر ان کے منہ میں شکر بن گئے اس پر خواجہ کی طرف سے انھیں ً گنج شکرً کا لقب عطا ہوا۔

گھر میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ مزید تعلیم کے لئے ملتان چلے گئے۔ ملتان ان دنوں اسلامی علوم و فنون کا ایک بڑا مرکز تھا، جہاں بغداد و ایران سے علما ء و فضلاء آ کر تعلیم و تدریس میں مصروف ہوتے تھے۔ یہیں آپ کو اپنے روحانی و دنیوی مرشد حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ سے ملاقات کا اعزاز حاصل ہوا جو آپ کے اشتیاق حصول تصوف و ذہانت سے بہت متاثر ہوئے اور انھیں اپنے سایہ عاطفت میں لے لیا۔ بابا فرید ؒ کی اپنے مرشد کے لئے خدمات اور مرشدکی ان کے لئے نظر عنایت کا اتنا اثر ہوا کہ آپ خواجہ قطب الدین کے ہمراہ دہلی روانہ ہو گئے۔ بابا فرید، خواجہ قطب الدین کی صحبت و خدمت اور حصول علم کے لئے بہت عرصہ تک دہلی میں قیام فرما رہے۔

دہلی میں قیام کے آخری دنوں کی ایک روایت جواہر فریدی میں درج ہے۔ ان کے مرشد شیخ نے انھیں وضو کرانے کی خدمات پر معمور کیا۔ ایک مرتبہ رات کو آگ ختم ہو گئی۔ سردیوں کے دن تھے۔ وضو کے لئے پانی گرم کرنا لازمی تھا، اس لئے آپ کا منہ اندھیرے آگ کی تلاش میں قریبی بستی جانا ہوا۔ ایک گھر میں کچھ آہٹ پا کر آپ نے دروازے پر جا کر آگ کا سوال کیا۔ گھر کی مالکن نے دروازے پر آ کر جھانکا تو ایک وجہیہ اور نورانی صورت والے شکیل وجمیل نوجوان کو دیکھ کر وہ آپ پر فریفتہ ہو گئی۔

وہ خود بھی کافی حسین تھی، لگاوٹ کے انداز میں پوچھنے لگی ً کہیں آگ لگانا مقصود ہے ً۔ بابا فرید نے اس کی بات کونظراندازکر دیا اورکہا کہ انہوں نے اپنے مرشد کو وضو کروانا ہے اس لئے پانی گرم کرنے کے لئے انھیں آگ کی فوری ضرورت ہے۔ آخرکار اس فتنہ خیزگر نے شرارتی انداز میں کہا کہ آگ کا معاوضہ آنکھ ہے۔ تم مجھے اپنی آنکھ دے دو، میں تمہیں آگ دے دوں گی۔ مرشد کی محبت اور خدمت نے آپ کو اس سودے پر آمادہ کر لیا۔ انہوں نے فرمایا۔

ً میں اینی آنکھ نکال تو نہیں سکتا، البتہ پھوڑ سکتا ہوں۔ اس پر آپ نے اپنی آنکھ پھوڑنے کی کوشش کی۔ وہ عورت یہ دیکھ کرحیرت سے گنگ ہو گئی اور اس نے فوراً آگ دے دی۔ آپ نے پانی گرم کیا جب وضو کرانے لگے تو حضرت شیخ نے دریافت کیا کہ آنکھ پر پٹی کیوں بندھی ہے۔ آپ نے کہا کہ آنکھ آئی ہے۔ ارشاد ہوا کہ کھول لو اگر آئی ہے تو سوائی ہے۔ پٹی کھولی تو آنکھ بالکل ٹھیک تھی۔

دہلی میں قیام کے بعد خواجہ قطب الدین ؒ اور خواجہ معین الدین چشتی ؒ سے نعمت ہائے باطنی وعلم و ادب کے خزانے حاصل کر کے اپنے مرشد کامل سے خلافت حاصل کر کے پنجاب لوٹ جانے کی اجازت چاہی۔ ان کی اجازت سے واپسی کے سفر کا قصد کیا اور وہاں سے مغرب کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں ہانسی ضلع حصار میں ٹھہرے وہاں آپ نے بارہ سال قیام کیا اور تصوف کا مرکز قائم کر کے ملتان آ گئے اور یہاں سے پھر اجودھن کا رخ کیا۔ اگرچہ یہاں اس وقت مسلمانوں کی واضح تعداد تھی۔ لیکن غیر مسلموں کی بھی ایک

اکثریت یہاں آباد تھی۔ اجودھن پہنچ کر آپ نے شہر سے باہر درختوں کے ایک جھنڈ میں قیام فرمایا جہاں ایک چھوٹی سی مسجد بھی تھی۔ یہاں پر آپ کے قیام کے بعد کی درجنوں روایات اور کرامات آپ کے ساتھ منسوب ہیں۔ آپ نے ایران، بغداد اور حجاز مقدس کا سفر کیا وہاں بہت عرصہ گزارا۔ حج کی سعادت حاصل کی اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلی وصلعم پر حاضری دی۔ بغداد میں غوث الاعظم شیخ عبداقادر جیلانی ؒ کے مزار پر بغیر معاوضہ کے مزدوری کرتے رہے۔ آپ نے ہندوستان کے دوردراز علاقوں کا سفر کیا۔ اجمیر شریف اور لاہور حضرت داتا گنج بخش ؒکے مزارات پر بھی کافی دفعہ حاضری دی۔ آپ نوے سال تک اس فانی دنیا میں زندہ رہے اور 1265 ء میں نہایت راحت و سکون سے اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔

حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ نے ہمیشہ امراء و سلاطین سے دوری اختیار فرمائی۔ وہ دوسروں کو بھی ان کی صحبت سے الگ رہنے کا مشورہ دیتے تھے۔ آپ نے اپنی نوے سال سے زیادہ کی زندگی میں شہاب الدین غوری، قطب الدین ایبک، شمس الدین شمس، رضیہ سلطانہ، بہرام شاہ، ناصرالدین محمود کا عہد دیکھا۔ ان سب بادشاہوں نے اپنی سلطنت کے لئے لڑایاں توکیں لیکن اپنی رعایا میں اسلام کی تبلیغ کے لئے کچھ نہیں کیا۔ برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی تبلیغ کا کام صوفیائے کرام اور بزرگان دین نے کیا جن کے کردار اور عین اسلامی اصولوں پرطرز زندگی کو دیکھ کر لوگ جوق در جوق حلقہ اسلا م میں داخل ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق ایک دفعہ بادشاہ سلطان ناصر الدین محمود اچ شریف جاتے ہوئے آپ سے ملنے کے لئے اجودہن آیا اور اس کا وزیر بلبن آپ کے لئے کئی گاؤں کا پٹہ ساتھ لایا تاکہ آپ اپنا خاطر خواہ اچھا گزارہ کر سکیں۔ آپ نے صبر وقناعت کی زندگی بسر کرنے کی وجہ سے وہ ہدیہ واپس کر دیا اور کہا

شاہ مارا دہ دود منت نہد
رازق ما رزق بے منت نہد
بادشاہ ہمیں گاؤں دے کر احسان کرنا چاہتا ہے۔ ہمارا خدا ہمیں بغیر احسان کے رزق پہنچاتا ہے۔

آپ نے اپنی ساری زندگی سادگی سے گزاری۔ آپ کی کٹیا دین کی تبلیغ کا گڑھ تھی جہاں علاقے کے لوگ حاضری دیتے۔ آپ نے ان کے لئے لنگر کا انتظام کر رکھا تھا۔ لیکن آپ نے خود کبھی اس لنگر سے نہیں کھایا۔ آپ کی خوراک پیلاں اور کریر کے درخت کا پھل جسے ڈیلے کہتے تھے۔ کبھی پیلوں دودھ میں ابال کر کھا لیتے اور کبھی ڈیلے باٹے پانی میں ابال کر نمک چھڑک کر کھا لیتے۔ زندگی میں بہت کم روٹی آپ نے کھائی۔ حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کی حیاتی کے بارے میں پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ وہ پنجاب میں رہتے تھے، لیکن انہوں نے کافی جگہوں کی سیر کی۔

وہ کئی دفعہ دہلی اور بہت سی دوسری جگہوں پر گئے، لیکن ان کی شاعری میں صرف پنجاب ہی بستا تھا۔ آپ اپنے مریدوں اور ماننے والوں کو شرعی احکام کی وضاحت کر کے اس پر کاربند ہونے کا درس دیتے اور ایک دوسرے کا ادب و احترام کرنے کا درس دیتے۔ آپ علمی تکبر کو بہت برا سمجھتے اور اپنے مریدوں کو ہدایت کرتے کہ اگر آپ کے علم حاصل کرنے کا مقصد لوگوں سے بحث یا علمی جنگ کرنا ہے تو اس علم کے حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ فرماتے تھے کہ کسی سے انتقام لینے سے اسے معاف کر دینا بڑا کام ہے جس کا وہ عملی مظاہرہ بھی کرتے تھے۔ آپ کی شخصیت کا دوسرا پہلوآپ کی صوفیانہ شاعری ہے جس میں آپ نے اپنے وقت کی سماجی، اقتصادی اور معاشرتی حالت بیان کی۔

مولابخش کشتہ اپنی کتاب ً پنجابی شاعراڈ دا تذکرہ ً میں آپ کے متعلق لکھتے ہیں کہ بابا فرید ایک نیک، پاک اور روشن درویش تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد ربی اصولوں کا پرچار سمجھا اور یہ حقیقت ہے کہ دنیا کو نیکی اور ہدایت کا رستہ دکھانے کا کام بادشاہوں نے نہیں کیا بلکہ انھیں جیسے فقیروں اور درویشوں نے یہ کام کیا۔ ان کی باتوں میں ایک الہامی کشش اور طاقت ہوتی تھی۔ لوگ آپ کی باتوں کو دل وجان سے سچا مانتے تھے کیونکہ ان کی ہر بات ذاتی نفع اور لالچ سے پاک ہوتی تھی۔

ایک غلط معاشرے سے علیحدگی اختیار کر لینا اور اس کو اللہ تعالی کی بلا شرکت غیرے محبت کے ساتھ منسلک کر لینا اولین طبقہ صوفیاء کی بنیادی کیفیت قرار دی جا سکتی ہے۔ اس قسم کی کیفیت ہندوستان میں مسلمان معاشرے کے اولین زمانہ قیام کے وقت بھی مسلمانوں کے حساس عناصر میں پائی جاتی ہے۔ ان حساس عناصر میں جنہوں نے اس کیفیت کو اپنے عمل اور شعور میں اظہار کیا، ان اولین بزرگوں میں حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کا پایہ بہت بلند ہے۔ بابا فرید ایک اچھے انسان دوست شاعر تھے آپ نے زندگی کے ہر شعبے اور سب طبقوں کے متعلق واضح لکھا۔ ان کے شلوکوں میں جو پنجابی شاعری کا سر آغاز سمجھے جاتے ہیں یہ کیفیت بار بار جھلکتی ہے

فریدہ رت پھری دن کہنیا، پت جھڑیں جھڑ پائیں
چارے کنڈاں ڈھونڈیاں رہن کتھاؤں نائیں

اے فرید موسم بدلا ہے تو جنگل اس کے اثرات سے کانپ اٹھاہے، اتنے لاتعداد پتے جھڑے ہیں کہ جھڑ ہو گیا ہے جیسے بادل کا اندھیراچھا گیا ہو۔ ان ننگی ڈالیوں اور بے برگ

درختوں میں چاروں طرف تلاش کر کے دیکھ لیں، کہیں بھی رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ ایک ایسے ظالمانہ معاشرے کی اس سے بہتر جذباتی تصویر پیش نہیں کی جا سکتی جس میں کسی راست

باز اور ایک دین دار نیک شخص کے لئے کوئی جائے فرار باقی نہیں رہتی۔

پنجاب یونیورسٹی پٹیالہ کے گوربچن سنگھ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ بابا فرید گنج شکر ؒ نے عالمگیر مذہبی اخوت کے تخیل اور تصوف کی اعلی روایات کو یکجا کیا۔ انہوں نے متحدہ ہندوستان میں اسلامی دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑا۔ دہلی کے حضرت نظام الدین اولیاء مشہور و معروف صوفی شیخ آپ کے مرید اعلی اور خلیفہ تھے۔ آپ ایک صوفی منش اور روحانی پیشوا تھے۔ ان کا کلام ربانی ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ جو کہ روح کو متاثر کرتا اور دل میں گھر کرتا ہے۔

ایسا پاک و بابرکت کلام انسان کے لئے کشف اور الہام ثابت ہوتا ہے۔ اور خدمت انسان کی ترغیب دیتا ہے۔ دل میں جذبہ و جوش موجزن کرتا ہے دل کو پاکیزہ بناتا ہے۔ ان کے کلا م میں بے حد شیرینی ہے۔ تمام شلوک گہرے جذبات سے بھرپور ہیں۔ وہ ہنر اور فن اور شعر و سخن کا اعلی نمونہ ہیں۔ یہ کلام پنجابی زبان کا بیش بہا خزانہ اور قیمتی اثاثہ ہے۔ کلا م میں روانی اور موسیقی ہے۔ تشبہیات اور استعارات پنجاب کی زندگی سے لئے گئے ہیں۔

ا اللہ تعالی سب جہانوں پر قادر ہے عرش بھی اسی کا ہے اور فرش بھی اسی کا ہے۔ انسان کے لئے فرش یعنی زمین ہی سب سے پہلی سچائی اور یقین ہے۔ آپ فرماتے ہیں

فریدہ خاک نہ نندیے خاکو جیڈ نہ کو ء
جیوندیاں پیراں تلے مویاں اپر ہؤ

(اے فرید مٹی کو کبھی برا نہ کہو کیوں کہ اس مٹی جیسا کوئی نہیں ہے۔ جیتے جی یہ خاک پاؤں کے نیچے ہوتی ہے لیکن مرنے کے بعد یہی خاک ہمارے اوپر ہوتی ہے ) اے فرید مٹی کو برا نہیں کہنا چاہیے۔ اس دنیا میں مٹی جیسی اور کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ اس مٹی کا وصف ہے کہ انسان کے جیتے جی وہ اس کے پیروں تلے ہوتی ہے مگر مسلسل پامالی ہوتے رہنے کے باوجود کوئی شکایت نہیں کرتی اور جب انسان مر جاتا ہے تو یہی مٹی اس کے اوپر آ کر اس کی اور قبر میں اس کے حالی کی پردہ پوشی کر لیتی ہے۔ اسی پر میاں محمد بخش ؒ نے فرمایا ہے

اپنے ہر مضمون میں بابا فریدؒ نے استعارے اپنی دھرتی پنجاب سے استعمال کیے ہیں۔ آپ نے شاعری کو اپنے صوفیائی خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ آپ نے پنجابی بولی میں انمول شلوک لکھ کر پنجابی زبان کا مان بڑھایا۔ وہ پنجابی میں شعر کہنے والے سب سے پہلے شاعر کہلائے۔ شلوک ہندی کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں شاہ لوک، یعنی شاہ دی دنیا، فقیر کا جہان۔ شلوک فارسی کے شعر کی طرح دو ہم قافیہ مصرعوں کا ہوتا ہے۔ آپ نے شلوکوں میں عربی، فارسی، ملتانی اور ہندی کے لفظ اتنے اچھے طریقے سے استعمال کیے ہیں کہ وہ پڑھنے والوں کو بہت بھلے لگتے ہیں۔ ان کے کلام میں سچائی، سادگی، رس اور طاقت ہے

کندھی اتے رکھڑا کچرک بنھے دھیر
کچے بانڈے رکھئیے کچر تائیں نیر

اے فرید دریا کنارے پر کوئی درخت کب تک مضبوطی سے قدم جمائے کھڑا رہ سکتا ہے دریا کا بہاؤ کناروں کو مسلسل ڈھاتا جاتا ہے۔ اور کنارے پرکا درخت نیچے سے زمین نکل جانے سے لازماً گر پڑتا ہے۔ اس طرح مٹی کے کچے برتن میں پانی کب تک جمع رہ سکتا ہے۔ اس میں پانی قطرہ قطرہ ٹپک کر آخر ختم ہو جائے گا۔ اسی طرح زندگی کا وقت بھی لمحہ بہ لمحہ گزرتا جاتا ہے اور آخرکار موت پر منتج ہوتا ہے۔

آگے چل کر درویشوں کے صبر اور صدق کے لئے آپ فرماتے ہیں۔
صاحب دی کر چاکری دل دی لاہ بھراند
درویشاں نوں لوڑئیے رکھاں دی جیراند

اے فرید! اپنے مالک حقیقی کی خدمت گزاری پوری یکسوئی سے کرتے رہو اور اس بارے میں ہر شہبے اور وسوسے کو اپنے دل سے نکال دو۔ اگر اس کام میں لوگوں کی مخالفت بھی سہنی پڑے تو سہہ لینا کیونکہ درویش کہلانے والوں کو درختوں جیسے حوصلے اور صبر کا مالک ہونا چاہیے۔ لوگ درخت کا پھل کھاتے ہیں اور پتھر مارتے ہیں اور اس کی ٹہنیاں کاٹ لے جاتے ہیں مگر اس کے باوجود درخت اپنا فیض جاری رکھتا ہے۔

کہتے ہیں کہ ہر پھل اپنی دھرتی کے پانی اور مٹی سے میٹھا ہوتا ہے اسی طرح انسان اور اس کی تہذیب اپنی دھرتی سے جڑ کر ہی پھلدار ہوتا ہے۔ آپ کہتے ہیں

لوڑے داکھ بجوڑیاں، ککر بیجے جٹ
ہنڈے ان کتائے دا پیدھا لوڑے پٹ

( جٹ کیکر بیج کر اس پر انگور تلاش کرتا ہے۔ وہ اون کاتتا پھرتا ہے اور ریشم پہننا چاہتا ہے۔ پنجاب کا بھولا بھالا جٹ کیکر سے انگور مانگتا تھا ) اے فرید نادان جاٹ طلبگار تو باجوڑی

انگوروں کی فصل کا ہے لیکن بوتا کیکر ہوتا ہے بھلا کیکربونے سے انگور کیسے حاصل ہوسکتے ہیں اور پھر یہی نادان جاٹ کتاتا تو اون پھرتا ہے لیکن پہننا ریشم چاہتا ہے۔ بھلا کھردری اون کتانے سے ریشم کہا ں ہاتھ آ سکتا ہے۔ پتہ نہیں اس کو اب عقل آ گئی ہے کہ نہیں لیکن یہ بات ضرور ہے بابا جی نے باجوڑ کے انگور ضرور چھکے ہیں۔ انہیں پتہ تھا کہ باجوڑ کے کے انگور بہت میٹھے ہوتے ہیں۔ بابا فرید کے بعد آنے والے شاعروں نے بھی دنیا کے ول فریب کے بارے میں کئی تشبہیاں دی ہیں۔ دنیا کو کبھی قمار خانہ کہا کبھی شیشہ گری کا کارخانہ کہا جس کی تیکھی کرچیاں کسی بندے کو لہو لہان کر سکتی ہیں۔

کجھ نہ بجھے کجھ نہ سجھے دنیا گجھی بھاہ
سائیں میرے چنگا کیتا نئیں تاں منبھی دجھاں ہا

( نہ کچھ بوجھے اور نا ہی کچھ سوجھے، دنیا ایک بہت ہی گہری آگ ہے۔ میرے خدا نے اچھا کیا، نہیں تو میں بھی اس آگ میں جل جاتا) یہ دنیا بڑی ظالم ہوتی ہے یہ تن من کو توڑ کے رکھ دیتی ہے اور بندے کو بعد میں پتہ چلتا ہے۔ اپنے اپنے تجربے کی اپنی اپنی آگ ہوتی ہے لیکن آدمی ایسے ہی بھول میں مارا جاتا ہے۔

جے توں عقل لطیف کالے لکھ نہ لیکھ
آپنے گریواں میں سر نیواں کر ویکھ

( اگر تم باریک بین و عقلمند ہو تو اپنی قسمت کو کھوٹا نہ کرو۔ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو ) اے فریداگر تو عقل لطیف یعنی باریک بین عقل کا مالک ہے تو اپنا نامہ اعمال سیاہ نہ کر بلکہ اپنے دفتر برے کاموں سے سیاہ کرتے رہنے کی بجائے تجھے اپنے گریبان میں سر ڈال کر دیکھنا اور سوچنا چاہیے کہ تو اس دنیا میں کس کام سے آیا تھا اوریہاں آ کر توکر کیا کر رہا ہے اور تجھے کیا کرنا چاہیے تھا۔

جو تیں مارن مکیاں تنھاں نہ ماریں گھم
آپنے گھر جائیے پیر تنھاں دے چم؟

(جو تجھے مارے پلٹ کر تم اسے نہ مارنا بلکہ اس کے گھر جا کراس کے پاؤں چومو) اے فرید تجھے برائی کا بدلہ برائی اور زیادتی کا بدلہ زیادتی سے نہیں دینا چاہیے بلکہ صبر اور تحمل سے کام لینا چاہیے۔ جو لوگ تجھے مکے ماریں، جواب میں تجھے ان کے مکے نہیں مارنے چاہیے۔ اس کی بجائے تو ان کے پاؤں چوم اور خاموشی سے اپنے گھر چلا جا۔ اس لئے کہ عظمت بدلہ لینے میں نہیں بلکہ بدلہ نہ لینے میں ہے۔

دیکھ فریدہ جو تھیا، داڑھی ہوئی بھور
اگا نیڑے آئیا پچھا رہیا دور؟

( دیکھ فرید جو ہوا ہے تمہاری داڑھی سفید ہو گئی ہے اور گزری ہوئی جوانی بہت دور رہ گئی ہے اب تھوڑا وقت رہ گیا ہے ) اے فرید دیکھ یہ کیا ہوا ہے۔ تیری داڑھی سفید ہو گئی ہے۔ اس کی واضح مطلب ہے کہ اگلا وقت یعنی موت کا وقت نزدیک آ گیا ہے۔ پچھلا وقت یعنی جوانی کی زندگی کا وقت پیچھے بہت دور رہ گیا ہے

دیکھ فریدا جو تھیا، سکر ہوئی وس
سیائیں باجھوں آپنے، ویدن کہیے کس

( فریدہ دیکھ جو کچھ ہو گیا ہے شکر بھی اب زہر ہو گئی ہے۔ اللہ تعالی ہمارا رب اور سائیں ہے۔ اپنے اس سائیں کے بغیرکس کو اپنے دکھ درد بتائیں۔ ) اے فرید دیکھ یہ کیا ہوا ہے۔ تیری زندگی کی شکر زہر کی طرح تلخ ہو گئی ہے۔ درد نے تیری زندگی کی تمام شیرینیوں کو تلخیوں میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ اپنے اس دکھ درد کا حال ہم اپنے مالک اور پروردگار کے سوا کس سے کہہ سکتے ہیں۔

کو کیندیاں، چا کیندیاں، متیں دیندیاں نت
جوشیطان ونجایا سے کت پھیرے چت

( میں شور کرتا ہوا کوکتا ہوں، چلاتے ہوئے کہتا ہوں، نصیحت کرتا ہوں کہ اچھے ہو جاؤ لیکن جس کو شیطان نے گمراہ کیا، ورغلایا ہے وہ کب سنتا ہے اس کو کیسے سیدھی راہ پر اللہ کے بتائے ہوئے رستہ پر لایا جائے۔ ) اے فرید ہم گمراہ ہو جانے والے کو چیخ چیخ کر اور بہ آواز بلند پکار پکار کر سمجھاتے بجھاتے اور عقل کی بات بتا کر خبردار کرتے رہے لیکن جسے شیطان

یعنی اس کے نفس امارہ نے ہی گمراہ کر رکھا ہو اس کے دل کو نفسانی خواہشات سے پھیر کر راہ راست پر کیسے لایا جائے انہیں تو ان کے نفس کا شیطان سیدھے راستے پر آنے ہی نہیں

دیتا۔
فریدا راتیں وڈیاں دھکھ دھکھ اٹھن پاس
دھرگ تنھاں دا جیویا، جنھاں وڈانی آس

(اے فرید راتیں بہت لمبی ہیں، اپنا آپ سلگناشروع ہو جاتا ہے لیکن افسوس تمہاری گزری ہوئی زندگی پر جس کو پرائی آس ہے۔ ) اے فرید راتیں بڑی لمبی ہیں جن میں نیند نہ آنے کے باعث بے چینی سے کروٹیں لیتے ہوئے پہلو جل جل اٹھتے ہیں افسوس ہے ایسے لوگوں کے جینے پر جو خود ہمت کر کے اپنے مسائل حل کرنے کی بجائے دوسروں کی مدد اورسہارے پر آس لگائے رکھتے ہیں۔

رکھی سکی کھاء کے ٹھنڈا پانی پی
دیکھ پرائی چوپڑی نہ ترسائیں جی

( اے فرید روکھی سوکھی کھا اور ٹھنڈا پانی پی کر خوش رہو۔ دوسروں کی چپڑی ہوئی روٹی دیکھ کر لالچ نہ کر سادہ زندگی بسر کرو ) اے فرید۔ تجھے جو روکھی سوکھی روٹی میسر آئی ہے۔ اسے کھا اور اوپر سے ٹھنڈا پانی پی کر گزارا کر۔ تجھے دوسروں کی چپڑی روٹی دیکھ کر اپنے جی کو نہیں ترسانا چاہیے۔ تو اس سوکھی سوکھی پر قناعت کرے گا تو ساری عمر سکھی رہے گا۔ اوردوسروں کی طرف دیکھ کر چپڑی روٹیوں کا لالچ کرے گا تو یہ لالچ تجھے ساری زندگی دکھی رکھے گا۔

چار گوائیاں ہنڈھ کے، چار گواہیاں سم
لیکھا رب منگیسیا تو آیوں کیڑے کم

( اے فرید زندگی کے دن تم نے ایسے ہی کاموں میں گزار دیے اور چار پہر یعنی راتیں سو کر گزار دیے۔ رب تم سے حساب مانگے گا کہ دنیا میں تمہیں کس کام سے بھیجا تھا اور تم نے یہاں پر کیا کیا ہے ) اے فرید۔ تو نے دن کے چار پہر دنیا کے کاموں میں چل پھر کر گنوائے اور رات کے چار پہر خواب غفلت میں سو کر گزار دیے۔ گویا تیری آدھی زندگی دنیا کے لئے بھاگ دوڑ میں اور آدھی خواب غفلت میں گزر گئی۔ پھر جب خدا تجھ سے حساب مانگے گا کہ تجھے دنیا میں کس کام کے لئے بھیجا گیا تھا اور تو کرتا کیا رہا ہے تو کیا جواب دے گا۔

بڈھا ہویا شیخ فریدو، کنبن لگی دیہہ
جے سو ورہیاں جیونا بھی تن ہوسی کھیہہ؟

اے فرید! تم بوڑھے ہو گئے ہو تیرے جسم میں رعشہ آ گیا ہے۔ اگر سو سال بھی جی لو تو پھر بھی ایک دن مرنا ہے اور یہ جسم مٹی ہو جائے گا۔ ) شیخ فرید بوڑھا ہو گیا ہیاور بڑھاپے کی وجہ سے اس کا وجود رعشہ کے باعث ہر لحظہ کانپنے لگا ہے۔ وہ اگر سو سال بھی جی لے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ آخرکار ایک دن موت اسے آ لے گی۔ اور مرنے کے بعد اس کا جسم مٹی ہو جائے گا۔ موت تو اٹل ہے۔ اور ہر نفس کو ایک نہ ایک دن موت کی تلخی چکھنی پڑے گی اور مرنے کے بعد مٹی میں مل کر مٹی ہونا پڑے گا۔

اکنا آٹا اگلا، اکناں ناہیں لون ٭ اگے گئے سنجاپسن چوٹا کھاسی کون

( کچھ لوگوں کے پاس آٹا وافر مقدار میں موجود ہے اور کسی کے پاس نمک بھی نہیں ہے۔ جو آگے چلے گئے ہیں وہ جان جائیں گے کہ مار کون کھائیے گا۔ ) اے فرید ایک وہ ہیں جن کے پاس بہت زیادہ آٹا ہے اور ایک وہ ہیں کہ ان کے پاس نمک تک نہیں ہے۔ ان میں سے کون اچھا ہے اور براکون، اس کا فیصلہ دنیا میں نہیں ہو سکتا۔ یہ تو آگے جا کر پتہ چلے گا کہ عذاب کا مستحق کون ہے۔

(نوٹ۔ بابا فرید گنج بخش ؒ پر اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ زیل کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔ )
1۔ بابافرید گنج شکر۔ مصنف انجم سلطان شہباز۔ مطبوعہ بک کارنر جہلم
2۔ بابا فرید۔ مصنف بلونت سنگھ آنند ترجمہ مہر افشاں فاروقی۔ مطبوعہ ساہیتہ اکادمی
3۔ کلام بابا فرید گنج شکر۔ ترتیب وترجمہ پروفیسر محمد یونس حسرت۔ مطبوعہ بک کارپوریشن دہلی

4۔ شیخ بابا فریدالدین گنج شکر۔ حالات زندگی اور تعلیمات۔ مصنف گور بچن سنگھ طالب۔ مطبوعہ بابا فرید میموریل سوسائٹی۔ پنجاب یونیورسٹی پٹیالہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments