وزیرِ اعظم کی بیرونِ ملک سفیروں پر تنقید، وزارتِ خارجہ کے سابق افسران کا شدید ردِ عمل


پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی طرف سے بیرون ملک پاکستانی سفرا سے خطاب کے دوران ان پر تنقید کے بعد وزارتِ خارجہ کے سابق افسران کی طرف سے شدید ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔

سابق سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم کو آگاہ ہی نہیں کیا گیا کہ سفارت خانہ کام کیسے کرتا ہے۔ وزیرِ اعظم کی جانب سے سفارت کاروں کی اس طرح سر عام تذلیل کرنے سے دفترِ خارجہ کا حوصلہ مزید پست ہو جائے گا۔

قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف نے بھی وزیرِ اعظم کے بیان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مختلف چینلجز سے نبرد آزما سفارت کاروں کے بارے میں وزیرِ اعظم کے الفاظ سن کر دھچکا لگا۔

زرِ مبادلہ بھیجنے والوں سے برا سلوک ناقابلِ برداشت ہے: عمران خان

وزیرِ اعظم عمران خان نے پاکستان کے سفرا سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے ان کی کارکردگی پر شدید تنقید کی تھی۔

وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ سفارت خانوں کو مزید مدد کی ضرورت ہے تو ہمیں آگاہ کریں لیکن بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے سفارت کاروں کی لاتعلقی کا رویہ ناقابلِ قبول ہے۔

انہوں نے کہا کہ سفارت خانوں کا نو آبادیاتی دور والا رویہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ سفارت خانوں کے عملے سے بات چیت کے لیے کوئی سسٹم یا ہیلپ لائن موجود نہیں ہے۔ جب کہ عام پاکستانیوں کو سفارت خانے بھی جانے کی اجازت نہیں۔ سفارت خانوں میں ایسا رویہ نہیں ہوتا۔

وزیرِ اعظم نے کہا کہ ہمارے سفارت خانے سرمایہ کاری ملک میں لانے کے لیے کچھ خاص کام نہیں کرتے۔ انہوں نے بھارت کا نام لیتے ہوئے کہا کہ بھارت کے سفارت خانے دنیا بھر میں بھارت میں سرمایہ کاری کے لیے کوشش کرتے ہیں اس کے مقابلے میں ہمارے سفارت خانے ایسا نہیں کرتے۔

وزیرِ اعظم نے سفارت کاروں سے کہا کہ ہمیں پورٹل پر جو شکایات موصول ہوئی ہیں ان میں سفارت خانوں کے عملے کا رویہ اور کارکردگی بہت خراب ملی ہے۔ خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں سب سے زیادہ شکایات سامنے آئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کے ساتھ ایسا سلوک ناقابلِ قبول ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وہ ملک ہیں جہاں سے سب سے زیادہ زرِ مبادلہ پاکستان بھیجا جاتا ہے اور اس ہی زرمبادلہ کی وجہ سے ہم دیوالیہ ہونے سے بچے۔ لیکن ان دو ممالک میں ہی پاکستانیوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک رکھا جاتا ہے۔ یہاں کام کرنے والے بیشتر مزدور اور نچلے طبقے سے ہیں۔ پاکستانی سفارت خانے کے حکام ان کے کام بہت تاخیر سے کرتے ہیں اور معلومات بھی فراہم نہیں کرتے۔

’وزیرِ اعظم کو درست بریفنگ نہیں ملی‘

وزیرِ اعظم کے ریمارکس پر سابق سفارت کاروں نے شدید اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم کو درست بریفنگ نہیں دی گئی۔ سابق سفرا کا کہنا تھا کہ ٹی وی پر براہِ راست سفیروں کی تذلیل کرنا کسی صورت فائدہ مند نہیں ہے۔

سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سفیروں کی اس طرح سے تذلیل سے سفیروں اور بیوروکریٹس پر منفی اثر ہو گا۔ پاکستان کے سفارت خانوں کا جو حال ہے وہ پاکستان کے معاشرے کا ہی عکاس ہے۔

شمشاد احمد خان نے کہا کہ جو خرابیاں ہیں وہ ہمارے نظام میں ہیں جن کو درست کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ ماضی میں بھی صرف علامتی کام کیے گئے۔ اصل مسئلہ نظام درست کرنے کا ہے جسے ٹھیک نہیں کیا جا رہا۔ پاکستان کے سفارت خانوں میں تعینات افراد مختلف اداروں اور حکومتی اداروں سے ہی باہر جاتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے بھی 40 سال تک یہی دیکھا ہے۔ لیکن وزیرِ اعظم نے اپنی پوری تقریر میں یا اپنے تین سالہ دور میں کیا کوئی ایک قدم بھی نظام کی بہتری کے لیے اٹھایا ہے؟ وزیرِ اعظم اپنی بیوروکریسی کے ہاتھوں پھنس چکے ہیں۔ اگر ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے تو دفترِ خارجہ کی کارکردگی اس وقت ملک کی دیگر تمام وزارتوں سے بہتر ہو گی۔

سابق سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ سفارت خانوں میں تعینات 80 فی صد عملہ وزارتِ خارجہ کا نہیں ہوتا۔ بلکہ وزارتِ خزانہ، وزارتِ داخلہ، اطلاعات و نشریات، وزارتِ اوورسیز، نادرا اور وزارتِ دفاع سمیت دیگر وزارتوں سے ہوتا ہے۔

ان کے بقول اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ سفارت کار سب کو ٹھیک کر لے گا۔ تو ایسا ممکن نہیں۔ سفیر نادرا یا پاسپورٹ آفس کے کام میں دخل نہیں دے سکتا۔ میں مانتا ہوں کہ سفیر کو تمام معاملات کنٹرول کرنے چاہیئں لیکن ان لوگوں کو اصل احکامات ان کی اپنی وزارتیں دیتی ہیں۔

شمشاد احمد خان نے اس معاملے پر وزیرِ اعظم کے دوست اور مشیر زلفی بخاری پر الزام عائد کیا کہ ایسا ان کے ایما پر ہوا۔ بقول شمشاد احمد خان کے زلفی بخاری کو سفارت کاری کا کچھ بھی نہیں معلوم۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا آپ کے اندرونِ ملک تمام ادارے بہترین کام کر رہے ہیں؟ اگر نہیں تو یہ توقع سفارت خانوں سے کیسے کر سکتے ہیں کہ وہ ہر کام بالکل درست کریں گے۔

’سفارت کاروں کے بارے میں وزیرِ اعظم کا بیان حیران کن ہے‘

قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے سفارت کاروں کے بارے میں ریمارکس پڑھ کر بہت حیرانی ہوئی۔ کیوں کہ سفارت کار ایک چیلنجنگ وقت میں بہت مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کی عوام کے سامنے تذلیل کے بجائے ان کی ہمت بڑھانی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی پر براہِ راست عوام کے ساتھ سفارت کاروں کی تضحیک سے قومی مفاد کا تحفظ کرنے والے ان سفارت کاروں کے مورال میں کمی آئے گی۔

جلیل عباس جیلانی اور شہباز گل آمنے سامنے

وزیرِ اعظم کے بیان پر سابق سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ سفارت خانے کے کاموں میں بہت سی وزارتیں اور ادارے شامل ہوتے ہیں۔ ان میں ایچ ای سی، داخلہ، صوبائی حکومتیں شامل ہیں۔ ہر بات کا الزام سفارت کار کو دینا جائز نہیں۔

جلیل عباس جیلانی نے وزیرِ اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم کاش آپ کو سفارت خانوں کے انتظام سے متعلق درست طریقے سے آگاہ کیا جاتا۔ سفیروں پر تنقید نامناسب ہے۔

جلیل عباس کے اس بیان پر وزیرِ اعظم کے ترجمان شہباز گل نے سوشل میڈیا پر بیان میں کہا کہ جلیل عباس جیلانی آپ جیسے مقدس گائے جو اپنے آپ کو ناقابلِ گرفت سمجھتے ہیں سارا بیڑا آپ کا غرق کیا ہوا ہے۔

انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ سمندر پار پاکستانی کے طور پر آپ کی سفارت کاری اور بری کارکردگی کا امریکہ میں، میں خود گواہ ہوں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اصل مسئلہ آپ لوگوں کا برا اخلاق، غریب پاکستانیوں کو دھتکارنا، ان کو عزت نہ دینا ہے۔

شہباز گل نے مزید کہا کہ پاکستانی اپنے سفیروں کے انگریزی سوٹ اور شاہی طور طریقے نہیں چاہتے، لوگ عزت چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم چاہتے ہیں سول سرونٹ کے طور پر عام پاکستانی کو سہولت اور عزت دی جائے۔ ان کی بات سنی جائے اور انہیں حقیر نہ سمجھا جائے- انہوں نے جلیل عباس جیلانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سول سرونٹ بنیں۔ وائس رائے نہیں۔ اب ہر صورت عام عوام کی عزت کرنی ہو گی ورنہ واپس رپورٹ کرنا ہو گا۔

اس بارے میں جلیل عباس جیلانی سے رابطہ کیا گیا۔ تاہم انہوں نے اس بارے میں مزید کوئی بھی بات کرنے سے انکار کیا۔

سوشل میڈیا پر اس معاملے پر شدید ردِ عمل دیکھنے میں آ رہا ہے اور زیادہ تر افراد ان سفرا کے خلاف ہی ٹوئٹ کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments