دور حاضر کی اکبری و اصغری


”ہائے! میری نازوں سے پلی معصوم بچی، کیسے لوگوں سے تیرا واسطہ پڑ گیا؟ کبھی نہ رشتہ دیا ہوتا ان بے قدروں کو۔ ارے! اس نے تو کبھی خود سے پانی تک نہیں پیا تھا۔ آج دس دس لوگوں کی روٹیاں پکانے کو کہہ رہے ہیں کم بخت مارے! ”رشیدہ بیگم کی دہائیاں سن کر دروازے سے اندر داخل ہوتے شفیق صاحب لمحے بھر کو ٹھٹھکے اور پھر بیگم کے ہاتھ میں موبائل دیکھ کر سمجھ گئے کہ یقیناً بیٹی کا سسرال سے فون آیا تھا۔ پھر بھی انجان بننے کی کمال اداکاری کرتے آگے بڑھے اور بیگم سے پریشانی کی وجہ دریافت کی۔

بڑی بی نے منہ پر دوپٹہ رکھ کر رندھی ہوئی آواز میں دہائی دی ”اجی دیکھتے ہو پنکی کے ابا کتنا ظالم سماج ہے۔ میری نازوں سے پلی بچی کس عذاب میں پھنس گئی! میں کہاں جاؤں۔“

اب کہہ بھی چکو بھلی لوک! ہوا کیا ہے؟ شفیق صاحب بولے۔

” ابھی پنکی کا فون آیا تھا۔ ساس نے کہا سب گھر والوں کے لیے روٹیاں پکاو۔ ارے وہ اتنے لوگوں کی روٹی کیسے پکا سکتی تھی۔ میں نے تو کبھی اسے باورچی خانے کا رخ نہیں کرنے دیا کہ پڑھائی کر کے تھک جاتی ہے۔ اب وہ دس دس لوگوں کی روٹیاں پکائے، ہائے! اوپر سے روٹیاں اگر موٹی اور ٹیڑھی تھیں تو ساس کو گھر بھر کے سامنے باتیں تو نہیں سنانی چاہئیں تھی ناں۔ ہائے ماں صدقے! میری پنکی کے دل پہ کیا گزری ہو گی۔ فون پر رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی۔“ رشیدہ بیگم نے تفصیل بتائی۔

ہاں پنکی کی ساس کو ڈانٹنا نہیں چاہیے تھا سب کے سامنے۔ علیحدگی میں سمجھایا جا سکتا تھا۔ شفیق صاحب نے بیگم کو تسلی دینے کے لیے کہا۔ لیکن کہاں جی! وہ تو بھڑک اٹھیں ”اجی یہ خوب کہی! بیٹی جو باورچی خانے میں خوار ہو رہی ہے اس کا کچھ نہیں۔ ہائے! مجھ سے بڑی غلطی ہو گئی۔ ایسی جگہ رشتہ ہی کیوں دیا میں نے بیٹی کا۔“

اچھا اب کچھ کھانے کو بھی ملے گا یا نہیں؟ شفیق صاحب نے بات بدلتے ہوئے کہا۔

”بلائیں اپنی چہیتی بہو کو، آ کر کھانا دے۔“ بیگم نے چٹخ کر کہا۔ انہیں شوہر کا موضوع بدلنا ناگوار گزرا۔

نائلہ پہلے ہی سسر کو دروازے سے اندر آتا دیکھ چکی تھی اس لیے کھانا گرم کرنے کے لیے باورچی خانے میں مصروف تھی۔ تبھی ہاتھ دھونے کے لیے جاتے شفیق صاحب کے پکارنے پر باورچی خانے سے ہی بولی ”ابھی کھانا لائی ابا جی۔“

شفیق صاحب واپس آ کر وہیں کرسی پر بیٹھ گئے اور چھوٹی میز اپنی طرف کھسکائی۔ اس دوران بہو نے ٹرے میں قرینے سے رکھا کھانا سسر کے سامنے رکھا۔ ”واہ بھی آلو قیمے کی خوشبو تو بہت مزیدار آ رہی ہے“ شفیق صاحب نے بہو سے کہا۔ بہو مسکراتی ہوئی بولی، ”ابا جی رائتہ اور سلاد بھی آپ کی پسند کا بنایا ہے۔“

زبردست بھئی! بہت مزیدار کھانا بنایا ہے ”شفیق صاحب نے بہو کو داد دیتے ہوئے کہا۔
” بس رہنے بھی دو، اس عمر میں کتنا جھوٹ بولو گے؟“ رشیدہ بیگم نے جھنجھلا کر کہا۔

” اس میں جھوٹ بولنے والی کیا بات ہے۔ کھانا اچھا ہے تو اسے اچھا ہی کہوں گا ناں۔“ بہو، بچے نظر نہیں آ رہے، ابھی اکیڈمی سے نہیں آئے کیا؟ شفیق صاحب کھانے کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے بولے۔

” بس آتے ہی ہوں گے دونوں۔“ بہو نے ساس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے سسر کے سوال کا جواب دیا اور باورچی خانے کی طرف بڑھی۔ وہ جانتی تھی کہ کھانے کے بعد ابا جی کو چائے پینا پسند ہے۔

اسی دوران دونوں بچے سعد اور علی دوڑتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے اور دادا، دادی کو سلام کر کے ان کے پاس ہی بیٹھ گئے۔ سعد نے فوراً دادی کی گود میں سر رکھا تو وہ سب بھول بھال کر اس کو پیار کرنے لگیں۔ علی نے بتایا کہ بابا اور چاچو کی گاڑی بھی باہر پہنچ چکی ہے۔ ساتھ ہی جب اس نے دیکھا کہ دادا جان کھانا کھا چکے ہیں تو برتن اٹھا کر باورچی خانے میں ماں کو دے آیا۔

گھر کی رونق کو مکینوں کے آ جانے سے چار چاند لگ گئے تھے۔ سب خوشگوار ماحول میں مزیدار چائے کا لطف اٹھاتے ہوئے دن بھر کی روداد ایک دوسرے کو سنا رہے تھے کہ جب باہر گاڑی رکنے کی آواز آئی۔ علی بھاگتا ہوا باہر گیا اور آواز لگائی کہ پھوپھو آئی ہیں، اتنا بڑا سوٹ کیس لے کر۔ سب ایک دم حیران ہو گئے، ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو پنکی کی فون پر ماں سے بات ہوئی تھی۔

”اس نے تب آنے کا ذکر نہیں کیا تھا۔ اب اچانک اکیلی کیسے آ گئی؟ خدا کرے سب خیر ہو“ ماں نے پریشان ہوتے ہوئے سوچا۔ اسی دوران پنکی آنسو بھری آنکھوں سے ماں کو دیکھتی ان کے گلے لگ گئی اور بھائی ٹیکسی سے سوٹ کیس لے آیا۔

گھر کا ماحول سوگوار سا ہو گیا۔ پنکی سسرال سے روٹھ کر آئی تھی۔ ماں اسے اپنے کمرے میں لے گئیں تاکہ پوری بات توجہ سے سن سکیں۔ باقی سب پریشانی میں باہر بیٹھے رہے۔ ماں نے بہو سے کہا کہ پنکی کے لیے کھانا لے آؤ۔ پتہ نہیں کچھ کھایا بھی ہو گا یا بھوکے پیٹ ہی گھر سے نکلی ہے۔ کچھ ہی دیر میں وہ گرم کھانے کی ٹرے کمرے میں ہی دے آئی اور اسے دلاسا دیتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی۔

شفیق صاحب پر سوچ انداز میں کمرے سے نکلتی بہو کو دیکھ رہے تھے، جو اب بچوں کے ساتھ مصروف ہو گئی تھی۔ بیٹے خاموشی سے اٹھ کر اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے لیکن ان کے والد بظاہر صحن میں لگے درخت پر بیٹھی چڑیوں کو دیکھتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ ہم محبت میں اپنی اولاد کے لیے خود ہی مشکلیں کھڑی کر دیتے ہیں۔ یہ سوچ کر کچھ مائیں اپنی بیٹیوں کو گھر گرہستی سکھانا نہیں چاہتیں کہ پرائے گھر جا کر جانے کیا سہنا پڑے اس لیے میری بیٹی آرام کرے۔

جبکہ ہر ماں ایسی بہو لانا چاہتی ہے جو آ کر گھر سنبھال لے۔ میکے سے ہی سیکھی سکھائی آئے، کسی قسم کی کوتاہی قابل قبول نہیں ہوتی۔ اگر ماؤں کو یہی طرز اپنانی ہے تو پھر بہووں کے لیے بھی مزاج میں لچک رکھنی ہو گی کیونکہ ممکن ہے اس کی ماں نے بھی اسی سوچ کے ساتھ اپنی بچی کی پرورش کی ہو جس سوچ کے ساتھ آپ نے کی۔

اسی اثنا میں چڑیا نے اپنی چونچ میں دانہ لا کر اپنے بچے کے منہ میں ڈالا تو شفیق صاحب کچھ سوچتے ہوئے مسکرا اٹھے کہ فطرت تو خود پیغام دے رہی ہے کہ اگر جینا ہے تو زندگی گزارنے کے گر تو سیکھنے ہوں گے۔ اس چڑیا کو بھی معلوم ہے کہ اس کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور کیسے انھیں انجام دینا ہے۔

انہوں نے اسی وقت داماد کو فون کیا، اس سے معاملہ دریافت کیا اور معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے۔ پھر داماد کو معاملہ سلجھانے کے حوالے سے سمجھایا تو وہ فوراً مان گیا کیونکہ وہ خود بہت پریشان تھا۔ پھر مسکراتے ہوئے فون بند ہی کیا تھا کہ زوجہ اترے چہرے کے ساتھ سامنے بیٹھ گئیں کہ جانے اب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

شفیق صاحب نے بیگم سے تفصیل پوچھی اور سمجھ گئے کہ وہی صبح والے معاملے کے اثرات ہیں۔ انھوں نے بیوی سے پوچھا کہ اب آپ کے خیال میں یہ معاملہ کیسے سلجھ سکتا ہے؟

پتہ نہیں! میرا تو دماغ ہی کام نہیں کر رہا۔ رشیدہ بیگم اپنا سر پکڑتے ہوئے بولیں۔

آپ کو یاد ہے کہ ایک مرتبہ پنکی کے لیے آئے ہوئے ایک رشتے کے لیے میں نے اس لیے انکار کیا تھا کہ انھیں ایک نوکری کرنے والی بہو چاہیے تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں سمجھتا ہوں کہ ایک مرد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے۔ وہ اس غرض سے بیوی تلاش نہ کرے کہ وہ آ کر اس کے حصے کی ذمہ داریاں بھی اٹھائے۔

لیکن بیگم، شادی کے ساتھ ہی ایک نئے خاندان کی بنیاد ڈل جاتی ہے۔ مرد اور عورت کی اپنی ذمہ داریاں ہیں۔ میاں بیوی کا خوشی سے یا ضرورت کے تحت ایک دوسرے کی مدد کرنا بہت احسن عمل ہے لیکن اپنی ذمہ داری سے جی چرانا ہر گز مناسب نہیں۔ ”

رشیدہ بیگم کچھ سوچتے ہوئے خاموشی سے شوہر کی باتیں سن رہی تھیں۔

شفیق صاحب پھر گویا ہوئے، ”آپ نے ساری زندگی اپنی ذمہ داریاں بہت اچھے طریقے سے نبھائیں۔ مشکل میں ہم دونوں نے کبھی ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ اپنی بہنوں کو ہی دیکھ لیں، اگرچہ وہ بیرون ملک ہیں لیکن وہ دونوں اور ان کے بچے مل کر گھر کے کام کرتے ہیں، بچے پڑھتے بھی ہیں۔ جب وقت ملے تو ان کے شوہر بھی ساتھ شامل ہو جاتے ہیں۔ اپنے گھر کے کام کرنے میں کیسی ندامت؟“

ہمیں بچیوں کو مظلوم ہونے کا حساس دلانے کے بجائے فرض کی ادائیگی میں ان کی ہمت بڑھانی چاہیے تاکہ وہ زندگی کو بوجھ نہ سمجھیں۔ اور مثبت سوچ کے ساتھ احسن طریقے سے زندگی گزار سکیں۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔

پھر شفیق صاحب نے بیٹی کو بھی بلا کر یہ سب سمجھایا۔ وہ کبھی ماں کا چہرہ دیکھتی اور کبھی باپ کا۔

والد نے بیٹی کا سر تھپتھپاتے ہوئے اپنے سینے سے لگایا اور کہا، ”میری پیاری بیٹی، اگر انسان کہیں اکیلا رہتا ہو تو اسے اپنے لیے بھی کام کرنا پڑتا ہے۔ اس میں بالکل گھبرانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر مشکل پیش آ رہی ہو تو کسی سے مدد لے کر حل تلاش کر لیتے ہیں، انا کا مسئلہ بنانے سے معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ ”

بیٹی نم آنکھوں کے ساتھ اثبات میں سر ہلانے لگی۔

پھر انہوں نے بتایا کہ شام کو اس کا شوہر لینے کے لیے آ رہا ہے وہ تیار رہے۔ ساتھ ہی بیگم سے مخاطب ہو کر کہا کہ بہت عرصہ ہوا آپ کے ہاتھ کی بریانی نہیں کھائی اور پنکی تم کتنے لذیذ شاہی ٹکڑے بنایا کرتی تھیں۔ آج تو آپ دونوں کے ہاتھ کا کھانا ہو تو مزہ ہی آ جائے۔ بریانی کی ترکیب پنکی کو بھی بتانا تاکہ جب بھی یہ پکائے تو لوگ انگلیاں چاٹتے رہ جائیں۔

پنکی یہ سب سن کر حیران نظروں سے ماں کو دیکھ رہی تھی اور وہ شوہر کی بات کو سمجھتے ہوئے مسکراتے ہوئے بیٹی سے بولیں چلو بہو سے پوچھتے ہیں کیا کچھ منگوانے والا ہے تاکہ وقت پر کھانا تیار کریں۔ انھیں اندازہ نہیں تھا کہ معاملہ اتنی آسانی سے سنبھل جائے گا اور داماد پنکی کو لینے آ جائے گا۔ اب انھیں بیٹی کو اپنی ذمہ داریاں اٹھانے کی تربیت دینا تھی تاکہ وہ بھی خوش اسلوبی سے اپنے گھر سنبھال سکے۔

حنا ہمدانی
Latest posts by حنا ہمدانی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments