ایبٹ آباد میں مقتول صحافی کی بہن کا قتل: ’میری بہن کا قصور یہ تھا کہ ہم نے بھائی کے قتل کے مقدمے کی پیروی کی‘

محمد زبیر خان - صحافی


سہیل خان

مقتول صحافی سہیل خان جن کی بہن کو بھی بدھ کے روز قتل کر دیا گیا ہے

’میری بہن کا صرف اتنا قصور تھا کہ ہم نے اپنے صحافی بھائی کے قتل کے مقدمے میں ضلعی عدالت کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کر دی تھی جس پر ہمیں دھمکیاں ملتی رہیں تھیں۔ ان دھمکیوں کے بعد ہم نے ہر فورم پر حکام سے تحفظ دینے کی اپیل کی تھی۔‘

فّرخ خان کے مطابق یہی اُن کی شادی شدہ بہن کے قتل کی وجہ بنی جو دو بچوں کی ماں بھی تھیں۔ اُنھیں بدھ کے روز ملزمان نے گھر میں گھس کر قتل کر دیا تھا۔

اس سے پہلے فرّخ خان کے بھائی سہیل خان کو بھی سال 2018 میں خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور میں قتل کیا جا چکا ہے۔

سہیل خان کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان کو منشیات فروشوں کے خلاف خبریں شائع کرنے پر قتل کیا گیا تھا تاہم مقدمے میں نامزد ملزمان کو عدالت نے بے گناہ قرار دے کر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالتی فیصلے کے خلاف مقتول سہیل خان کے خاندان نے پشاور ہائی کورٹ ایبٹ آباد بینچ میں اپیل دائر کررکھی تھی۔ اپیل دائر کرنے کے بعد سہیل خان کے بھائی فرّخ خان نے دعویٰ کیا تھا کہ بھائی کے مقدمے کی اپیل کرنے پر نہ صرف ان کے خاندان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں بلکہ والد محمد شفاقت خان کو ضلع ہری پور کے علاقے حطار میں سر عام تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔

تھانہ حطار میں درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ملزمان باپ بیٹے مسرت اقبال اور ہمایوں اقبال نے گھر میں گھس کر ندا رانی کو قتل کیا ہے۔

مقتولہ کے والد محمد شفاقت خان کی جانب سے درج کروائے گئے مقدمے میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ روز تقریباً دو بجے گھر کے صحن سے ندا رانی کے چیخنے کی آوازیں آئیں جس پر ہم باپ بیٹا پہنچے تو دیکھا کہ ہمایوں اقبال اور اُن کے والد مسرت اقبال پستول کے ہمراہ مسلح کھڑے تھے جنھوں نے میری بیٹی پر پستول تان رکھا تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی مسرت اقبال نے للکار کر ہمایوں اقبال سے کہا کہ جان سے مار دو، جس پر ہمایوں اقبال نے فائرنگ کر کے ندا رانی کو قتل کر دیا۔

فرّخ خان کے مطابق ان کا گھر اُن کی بہن کے گھر سے متصل ہے۔ ’سہیل خان قتل مقدمے میں ہمارے بہنوئی نے گواہی دی تھی اور اس کو بھی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ ہمارا خیال ہے کہ ملزمان بہنوئی کو قتل کرنے کے لیے گھر میں داخل ہوئے تھے مگر اسے موقع پر نہ پا کر اور ہمارے پہنچ جانے کے بعد بہن کو قتل کر کے فرار ہو گئے ہیں۔

ڈی ایس پی خان پور سرکل ہری پور ابرار خان کا کہنا تھا کہ پولیس اس وقت ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوشش کر رہی ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ایک ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ دوسرے کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

’بہن قتل کی ذمہ دار پولیس اور حکومت ہے‘

فرّخ خان کا کہنا تھا کہ سہیل خان کے قتل کے بعد سے اُنھیں قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ ’ہم یہ واقعات پولیس اور اعلیٰ حکام کے نوٹس میں لانے تھے مگر ہمیں کبھی بھی پولیس اور حکومت کی جانب سے تحفظ فراہم نہیں کیا گیا، بلکہ صورتحال یہ ہوتی تھی کہ اگر میں اپنی درخواست لے کر پولیس افسران کے پاس جاتا تو اُن سے ملنے بھی نہیں دیا جاتا تھا۔‘

فرّخ خان کا کہنا تھا کہ چند دن قبل اُن کے والد کو حطار چوک پر سرِ عام تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے کئی گواہ موجود ہیں۔ ’پہلے تو پولیس مقدمہ ہی درج نہیں کر رہی تھی مگر جب عوامی احتجاج پر مقدمہ درج کیا گیا تو اس کی تفتیش انتہائی ناقص انداز میں کی گئی۔‘

اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے تفتیش میں جانبداری برت کر ملزمان کا ساتھ دیا جس وجہ سے ملزمان چند دن کے اندر ہی ضمانت پر رہا ہو گئے اور اُن کی بہن کو قتل کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سہیل خان کے قتل کے مقدمے میں بھی دوران تفتیش کئی سقم چھوڑے گئے تھے جن کی وجہ سے اُن کے مطابق اُنھیں ٹرائل کے دوران مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

تاہم ڈی ایس پی ابرار خان نے فرّخ خان کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے فرخ خان کے والد اور بھائی کے مقدمے کی تفتیش مکمل طور پر میرٹ پر کی تھی جس میں کوئی بھی سقم نہیں چھوڑا گیا تھا۔

اُنھوں نے کہا کہ حالیہ واقعے کی تفتیش بھی میرٹ پر کی جا رہی ہے۔

ابرار خان کا کہنا تھا کہ فرّخ خان کے خاندان کو سکیورٹی فراہم کر دی گئی ہے اور پولیس ان کے جان و مال کے تحفظ کے لیے تمام تر ضروری اقدامات کر رہی ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ سکیورٹی تو قتل کے واقعے کے بعد فراہم کی گئی ہے اور اس سے قبل وہ سکیورٹی کی درخواستیں دیتے رہے تھے تو واقعہ سے پہلے سیکورٹی کیوں فراہم نہیں کی گئی تھی، تو ابرار خان نے اس بات کو رد کیا۔

ہری پور پریس کلب کے صدر ذاکر حسین تنولی کا کہنا تھا کہ مختصر عرصے میں ضلع ہری پور میں دو صحافی سہیل خان اور بخش الٰہی قتل ہوئے اور دونوں کے قتل کے ملزمان عدالتوں سے بری ہوئے ہیں جس کے بعد ضلع بھر کے صحافیوں میں عدم تحفظ کا احساس اور بے چینی پائی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ واقعے میں قتل ہونے والے صحافی کی بہن کو بھی ٹارگٹ کیا گیا ہے جس سے ساری دنیا سمجھ اور دیکھ سکتی ہے کہ ایک گھریلو خاتون کو، جس کا صحافت اور سیاست وغیرہ سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا، کیوں قتل کیا گیا ہوگا۔

ذاکر حسین تنولی کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے قتل کے بعد کچھ دن تک تو میڈیا اور سوشل میڈیا پر واویلا ہوتا رہا مگر اس کے بعد کبھی بھی یہ دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ وسائل کے بغیر موجود صحافی کس طرح تنہا منظم مافیا سے لڑ سکتے ہیں جس پر اُنھیں ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں سے شکوہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp