(جو میں نے محسوس کیا ) ڈاکٹر شیر شاہ کی سچی کہانیاں


ڈاکٹر شیر شاہ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں۔ محبت کی صرف ایک ہی شرط ہوتی ہے کہ وہ بے لوث، بے غرض اور غیر مشروط ہو۔

ان کی زندگی اور کہانیاں اس بات کی گواہ ہیں۔

ہم افسانہ نگار اپنے افسانوں میں جتنا چاہیں بڑھا گھٹا سکتے ہیں لیکن کیا وہ تاثر پیدا کر سکتے ہیں جو ڈاکٹر شیر شاہ کی سچی کہانیوں نے کیا ہے۔ آپ انھیں افسانے کہہ لیں میں انھیں کہانیاں ہی کہوں گی اور سچ تو ایک ایک لفظ سے ٹپک رہا ہے۔ میں ان افسانوں کو کہانیاں کہنے پر بضد ہوں کہ میرے نزدیک یہ سب سچی اور کھری کہانیاں ہیں اور ان کو افسانے کہنے سے ان سیدھی اور سچی کہانیوں کو گہن لگنے کا اندیشہ ہے۔ میں افسانہ اس کو کہتی ہوں جس میں تھوڑی سی بناوٹ ہو، ماحول بنانے کی، اور ملاوٹ ہو مکالموں کی، مگر شیر شاہ کی کہانیاں سو فی صد سچ ہیں، جس میں کڑوا سچ خاصی مقدار میں ہے۔ یہ اور بات کہ انھوں نے ہر کہانی کو شروع افسانے کے طرز پر کیا ہے کہ قاری آگے پڑھے اور آخر میں کہانی کا انجام اس طرح کیا ہے کہ قاری سوچے اور سوچتا رہے۔

یہ شیر شاہ کون ہے، ڈاکٹر، کہانی کار، یا بے لوث محبت کرنے والا۔ فرماں بردار بیٹا، والدین کی بات کو گرہ میں باندھ لینے والا اور گرہ نہ کھولنے کا عزم کرنے والا۔ انتساب بھی سب عزیزوں کے نام ہیں اور بے حد بے لوث محبت کے ساتھ۔ بڑے بڑے کام بڑے دل والے کرتے ہیں اور ان کا حق ہے کہ اپنی کتابوں کے عنوان ”دل“ پر رکھیں۔

ہر کہانی میں یا وہ خود ہوتے ہیں، خود کو اپنے کردار pratogonist کی جگہ رکھ لیا ہے اور پھر پوری کہانی سنا دی ہے۔ علاقوں اور گلیوں کے نام ان کو اور سچا بنا دیتے ہیں۔ اور دل پر اثر اس وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ واقعی اثر کرنے والی ہیں۔ یا وہ کردار جو قصہ سناتا ہے اور خود اس کا حصہ ہوتا ہے، اس لیے کہانی طویل بھی ہوجاتی ہے، مگر واقعات دل پر اثر کرتے ہیں جو ان کا اصل مقصد ہے۔ وہ ہم جیسے افسانہ نگاروں سے کہتے ہیں، افسانے لکھو تو وہ لکھو جو دنیا میں ہو رہا ہے اور جس کو لکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

مرے ہوئے زندہ لوگ پڑھ کر انسان کانپ جاتا ہے۔ نو لاشوں کو پہچاننے والا اٹلی پہنچ کر کیا دیکھتا ہے اور کیا سوچتا ہے، آپ بھی سوچئے ”۔ قرض نہیں اترا مگر سب کی جان چلی گئی۔ ہمارا علاقہ ویران ہو گیا۔ اتنے لوگ ایک ساتھ مرے ہیں وہ بھی سمندر میں ڈوب کر۔ ماموں لاہور گئے کہ اس ایجنٹ کا پتہ کریں مگر نہ وہاں کوئی آفس تھا، نہ ایجنٹ اور نہ ہی کوئی نشان۔“

قتل کر کے مقتول کا سر اس کے باپ کے سرد خانے میں رکھنے کے بعد قاتل کیا کہتا ہے۔ ”ابھی مجھے مرنا نہیں ہے۔ مجھے تو بس اس کی پڑی ہے کہ کس دن جاوید کے گھر والے ڈیپ فریزر سے وہ تھیلی نکالیں گے اور کھولیں گے تو جاوید کا سر ملے گا۔ سفاکی کی حد! مگر شیر شاہ نے سچ ہی لکھا ہوگا۔

اور منافقت کی حد دیکھئے کلین ٹوائلٹ اور کلین لڑکی کا آخری جملے میں پوری کہانی سمٹ آئی ہے۔ میں تو آپ کو عربی سمجھا تھا ان کو ذبیحہ گوشت، بغیر لارڈ کا گوشت، طہارت کموڈ کے ساتھ کلین لڑکی بھی چاہیے ہوتی ہے۔

”خودکش بمبار“ کا ایک جملہ ہر مسلمان کا سر جھکانے کے لئے کافی ہے۔ ”یہ تو فیشن ہے آج کل“ میں نے ہنستے ہوئے کہا، ”یہ تو

فیشن ہے آج کل، ہر ایک۔ مسلمانوں سے نفرت کرتا ہے۔ ”

ڈھیلا پاجامہ ایٹ ہاٹ میل میں جہاں لڑکی کے انتظار میں خود لڑکے کی بہن آتی ہے۔ اس قسم کا واقعہ میری کہانی لینڈ سلائیڈ میں بھی ہے جس میں بھائی منھ پر تکیہ رکھ کر بہن کو مار دیتا ہے۔

کس کس کہانی پر لکھوں، سب ہی درد انگیز ہیں اور لوگ جن حالات سے گزر رہے ہیں وہ اور بھی دلسوز ہیں۔ ان کہانیوں کے

کردار کئی جگہ کہتے ہیں، ”میں کیا کر سکتا تھا۔“ ہاں وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ ہم بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ کیا کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ مجھے تعجب ہے کروڑوں لوگوں کے اس ملک میں کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ جو لوگ کچھ نہیں کرسکے تھے وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ کچھ لوگ کچھ نہ کرنے کے لئے رہ گئے ہیں۔ دکھ، دکھ اور دکھ۔

شیرشاہ ملک چھوڑ کر دوسرے ملک جانے والوں کو الزام نہیں دیتے، ان کی حالت زار کا نقشہ کھینچتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ کیوں کوئی اس ملک میں رہنا نہیں چاہتا جہاں جان، عزت، شہرت، اولاد کچھ بھی محفوظ نہ ہو سوائے دولت کے، جہاں ایسے لوگ ہوں جو فخر سے کہیں کہ ہر برے سے برے کام کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں بس معاوضہ ملنا چاہیے۔

میں بھی یہی سوچتی ہوں کیوں کوئی اپنے ملک میں رہنا نہیں چاہتا جہاں اس کے بڑے ترک وطن کر کے چاہ سے آئے تھے۔ میں چھوٹی تھی جب کسی نے ہمارے تایا سے پوچھا تھا کہ آپ تینوں بھائیوں نے آبائی گھر کا کلیم کیوں داخل نہیں کیا۔ تو انھوں نے فرمایا تھا

” پاکستان بن گیا اس کے بعد ہمیں اور کیا چاہیے تھا۔“

شکر ہے کہ شیر شاہ کے ہاں چند ایسے کردار بھی ہیں جن کو دیکھ کر اور پڑھ کر خوشی ہوتی ہے۔ وہ بلوچی لڑکی جو کہتی ہے میں اس کا نام عطیہ رکھوں گی اور یہ ڈاکٹر بنے گی۔ ہم نے نہیں دیکھے مگر شیرشاہ نے یقیناً انھیں دیکھا ہے، ان کی مدد کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح پیش کیا ہے کہ دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ پٹھان معمہ کا وہ پٹھان جو بچوں کو بھیک منگانے کا ٹھیکہ لے کر کہتا تھا کہ ان کو ملازمت دلوائی ہے اپنا وعدے کو نبھانے میں چٹان تھا مگر اس وقت پگھل گیا جب اس نے بچے کو نڈھال اور روتے ہوئے دیکھا۔ اس کے کردار کا یہ رخ دیکھئے بچہ یہ کہہ کر دیا ”بچہ بھی تمہارا اور پیسے بھی تمہارے“ حالانکہ پیسے وہ رکھ سکتا تھا۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ اب جنگ کے خلاف جہاد شروع کر دینا چاہیے۔ ڈنگ ڈونگ، فونگ کے الفاظ ہر اس فوجی کے الفاظ ہیں جس نے کسی بھی جنگ میں شرکت کی ہے۔ میں روز مر رہا ہوں، روز میرا ہاتھ کٹتا ہے، پیر کٹتا ہے اور انگلیاں کاٹ کاٹ کر پھینکی جاتی ہیں یہ۔ ڈنگ، ڈیانگ، فونگ ہم سب کو مار دے گا، ختم کردے گا ہمیشہ کے لئے۔

شیرشاہ نے اپنی ماں عطیہ ظفر کا ذکر بے پناہ محبت اور عقیدت کے ساتھ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے جانے کے غم سے زیادہ ان کی زندگی کا جشن منایا جائے۔ ایک بلوچی عورت نے ان کی والدہ سے متاثر ہو کر نوزائیدہ بچی کے لئے کہا کہ اس کا نام عطیہ ہوگا اور وہ ڈاکٹر بنے گی۔ شیر شاہ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں۔ محبت کی صرف ایک ہی شرط ہوتی ہے کہ وہ بے لوث، بے غرض اور غیر مشروط ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments