نجات دہندہ کی تلاش



ہم جب انسانی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک خواہش ہر انسانی عہد میں قلوب میں موجود نظر آتی ہے۔ ہر دور کا انسان اپنے خوابوں کی جنت حاصل کرنے کے لیے کسی مسیحا کا منتظر نظر آتا ہے۔ ہر ادارے کے ڈائریکٹرز بھی کسی ایسے سربراہ کے انتظار میں ہیں جو جادو کی چھڑی گھمائے اور ادارے میں کام کرنے والے تمام لوگ بندے کے پتر بن جائیں اور سر جھکا کر وہ کام کرتے چلے جائیں جو ادارے کے شیئر ہولڈرز کے نزدیک اہم ہیں۔ ہر قوم بھی اپنے نجات دہندہ کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہے۔ ملت اسلامیہ بھی اپنے ابراہیم کی جستجو میں ہے۔

ہر انسان چاہتا ہے کہ کوئی معجزہ ہو جائے اور اس کی رات دن میں تبدیل ہو جائے۔ وہ زندگی سے راضی ہو جائے اور اس کو تخلیق کرنے والا اس سے راضی ہو جائے۔ دوسرے لفظوں میں اس کی قدرت اس کی زندگی پر بڑھتی چلی جائے اور وہ خود اپنی زندگی کی کشتی کا ملاح بن جائے لیکن جو فرد، ادارہ یا پھر قوم کسی نجات عطا کرنے والے لیڈر کی تلاش میں ہے اسے پرستش کرنے کے لیے کاذب اور فربہ اناؤں والے نرگسیت کے مریض لیڈر تو ضرور ملیں گے لیکن ان کی رات بھاری ہوتی جائے گی اور اس میں تاروں کی نمود دیوانے کا خواب بن کر رہ جائے گی۔

ہم نجانے کیوں لیڈر کو ایک فرد کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ ہم اگر دیدہ بینا کے حامل ہوتے تو ہمیں لیڈر شپ ایک فرد کے اندر نظر آنے کی بجائے ایسی کارروائیوں کا تسلسل معلوم ہوتی جو کسی مطلوبہ مقصد کے حصول کے لیے عمل میں لائی جاتی ہیں۔ وہ ادارے و اقوام جو لیڈر شپ کو ایک تعامیلہ یعنی پروسس تصور نہیں کرتی ہیں وہ اپنے ہاتھوں سے ہیرو نما لیڈروں کے بت تراشتی ہیں اور پھر وہ زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ کر نہیں پاتے ہیں توان سے بدظن ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

لیڈر شپ کسی ایک فرد کا نام نہیں ہے۔ لیڈرشپ ”میں“ سے ”تو“ تک کا سفر ہے۔ ہمارے عام پائے جانے والے لیڈر اور رہنما چونکہ اپنی ذات کو انجمن سمجھتے ہیں اس لئے ان کا سفر ”میں“ سے ”میں“ تک ہی ہوتا ہے۔ وہ کل کائنات ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کی کائنات میں ان کے سوا کوئی دوسرا موجود ہی نہیں ہوتا ہے۔ وہ ہر دم اپنے آپ کو ایک ایسی آرٹ گیلری میں موجود پاتے ہیں جہاں ہر طرف ان کی اپنی تصاویر ہی جلوہ افروز ہوتی ہیں۔ ان کے لیے جو بھی کچھ ہے محبت کا نہیں بلکہ اپنی انا کے غبارے کا پھیلاؤ ہوتا ہے۔

لیڈر وہ ہوتا ہے جس کے دل میں کوئی دوسرا مقیم ہوتا ہے۔ جو اپنا نہیں بلکہ اپنے مقصد کا عاشق ہوتا ہے۔ جو اپنے استقبال کے لیے آئے ہوئے فوج کے سربراہ کو تلقین کرتا ہے کہ اسے سرحدوں کی حفاظت پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور پروٹوکول کے تکلف پر اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا لیڈر عوام میں سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے اختیار نہیں کرتا ہے۔ وہ صحت کارڈوں پر اپنی تصویر دیکھ کر دل ہی دل میں مسکراتا نہیں ہے بلکہ وہ تو قوم کا باپ ہونے کے باوجود ایک ایسی ایمبولینس میں اپنی آخری سانسیں لے لیتا ہے جس کا پٹرول ختم ہو گیا ہوتا ہے۔

یہ لیڈر باغبان کی صفات کا حامل ہوتا ہے۔ یہ جنگل کو اپنی حکمت اور توجہ سے باغ میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یہ بیج کو پھل دار اور پھولوں والا درخت بنانے کا ہنر جانتا ہے۔ یہ ذیابیطس کے مریضوں میں میٹھی گولیاں تقسیم کر کے اپنی مقبولیت کے علم بلند نہیں کرتا ہے۔ یہ جانتا ہے کہ جس انسانی سماج میں نظام ربوبیت قائم نہ ہو وہاں پر ساری ریوڑیاں اپنے یاروں میں تقسیم کر دی جاتی ہیں اور مفلوک الحالوں کو کبھی یہ نہیں سمجھایا جاتا کہ ہنر مند بن کر اور اپنی چادر کے اندر ہی پاؤں پھیلا کر با عزت زندگی بسر کرنا ہی شرف انسانیت ہے۔

لیڈر وہ ہوتا ہے جو پھیلے ہوئے ہاتھوں کو دست ہنر میں تبدیل کر دیتا ہے۔ قوم کو اگر یرقان ہو تو اس کا رنگ پیلا ہو جاتا ہے۔ اس کی زندگی دوسروں کے لیے زندگی بخش ہوتی ہے۔ اس کے ہاتھ میں مولا بخش نہیں بلکہ وہ ید بیضا ہوتا ہے جو تقسیم نہیں کرتا ہے بلکہ پل تعمیر کرتا ہے جس پر سب بغیر رنگ و نسل اور کسی مذہبی تفریق کے زندگی کے ہر دریا سے اطمینان سے گزر جاتے ہیں۔

ہم جب دوسروں سے توجہ کی بھیک نہیں مانگتے ہیں بلکہ اپنی توجہ دے کر ان میں زندگی کر حرارت پیدا کرتے ہیں تو ہم لیڈر بن جاتے ہیں۔ جو نہی ہم آئینے کو دیکھنا چھوڑتے ہیں اور کھڑکی کے باہر دیکھنا شروع کرتے ہیں تو ہمارے حقیقی لیڈر بننے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ جب تک ہماری پیٹھ جھکی رہے گی ہماری کمر پر اپنے آپ کو چاند سمجھنے والے نجات دہندہ لیڈر سوار رہیں گے اور ہماری آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر ہمیں اپنی مرضی کے راستوں پر رواں دواں رکھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments