لایعنیت کی کگر پر بیٹھے ایک منحوس کرگس کی داستان (ایک فلمی کہانی کا خاکہ)


ایک ناکجا، لازمانی و غیر مادی مادے کے بسیط ماحول میں، کسی لایعنی و غیر توانا ذرہ موہوم کے، بن باپ کے ہونے والے قرار حمل کے نتیجے میں، عدم کی وجودی الٹی سے پیدا ہونے والے وجودی بحران کا اظہار یہ دنیا۔

اس پیدائش فرار نما کے بعد، اس نو وجودیے کی سرخوشی و جوش و خروش کا وہ عالم تھا کہ پھولا نہ سماتا تھا، سو پھٹا اور چار سو ہو گیا۔

یہ ناشدنی وجود لذت ارتقاء سے مخمور، کسی بد مست ہاتھی کی طرح بس آگے بڑھنا ہی جانتا تھا، سو بڑھتا رہا، بڑھتا رہا۔ توانائی اور مادے کی گیندیں اچھالتے رہنا اس کا شغل تھا۔ نئے نئے مادوں کے ماسک لگا کر سٹیج پر کبھی ہائیڈروجن کی رادھا، تو کبھی ہیلیم کا موہن بن کر ناٹک کرتا۔ پھر اس نے سوچا کیوں نہ ایک خودکار پتلی تماشا لگایا جائے، سو ایک خلیے پر مشتمل نامیاتی وجود کا اظہار ہوا، پھر کثیر خلیات پر مشتمل وجود بنے، اب تو گویا یہ یہ تجرباتی، ارتقائی کھیل چل نکلا۔

یہاں تک کہ آدم کا ظہور ہوا۔ قصہ کوتاہ، آدم کے ظہور میں آنے اور حیوانی معصومیت کی جنت سے نکل کر منظم معاشرے میں اپنی نیوراتیت کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کے ہزاروں سال بعد، اس ارتقاء کے اسٹیج، پر ایک خاص وقت (دور جدید) میں، ہماری فلم کا ہیرو ”نہیں ہو“ اسکرین پر آیا ( اس کا میٹرکس کے ہیرو ”نیو“ کے نام سے کچھ بھی لینا دینا نہیں)۔

ہر اس ان چاہے بچے کی طرح، کہ جو اپنے والدین کی صنفی کشش اور احتیاطی تدابیر کی ناکامی کا بائے پراڈکٹ ہوتا ہے، ”نہیں ہو“ کو یہ گمان ہوا کہ وہ نہ صرف اپنی والدہ، بلکہ وجودی ماں کا بھی لال ہے، اور کسی عظیم مقصد کے حصول کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ پس یہ عدم زادہ وجود علی خاں، جس کے آبا و اجداد سو سو دیو مالا و متھ گھڑتے، فقط یہ ثابت کرنے کو کہ آدم ہی ساکنان عرش اعظم کی تمناؤں کا رکھوالا ہے، اسی جذبے سے سرشار، نہ صرف ماں، باپ کی امیدوں پر پورا اترنے بلکہ کل ہستی کے ہونے کا جواز بھی اپنی ذات سے فراہم کرنے کا عظم لئے، یہ جہاد زندگانی میں آستینیں چڑھا کر کود پڑا۔

اس کے بعد اس موہوم دین کو، وجود کی بے سمتی، اور عالم ناپائدار کی ثباتی کے ثبات کا وہ تجربہ ہوا کہ اس کا اعتقادی جسم، میٹرکس کے نیو کی طرح، حالات و واقعات کی گولیوں سے بچنے کی حرکت میں، گرنے سے سنبھلتا،

ٹیڑھا میڑھا ہو کر سیال مادہ بن گیا۔

اسے ہیروئن ملی۔ دونوں کا خیال تھا کہ ایک عظیم مشن کے حصول میں، جو مقصد کائنات سے عین مطابق ہو گا، دونوں کی پریم کہانی امر ہو جائے گی۔ پر کمائی کی چکی میں پس کر، او ر ’نہیں ہو‘ کی نوکری سے برخواستگی کے بعد، دونوں کے تعلقات میں تلخی در آئی، اور زن و شو کے رشتے کی حقیقت اور غایت جان کر، ہیروئن کسی کروڑ پتی کی نسل کی بڑھوتری کے مشن میں اس کا ساتھ دینے نکل پڑی۔

اس کے بعد ’نہیں ہو‘ ، عبث کے بادلوں کی لپیٹ میں تھا اور رات، دن شراب میں ڈوبا، اپنے کمرے میں میز پر چڑھ کر، جون ایلیا کی شاعری کسی فرضی مجمعے کو سنا کر داد وصول کرتا تھا۔

اک کار عبث ہے جسے عالم کہیے
ہو کوئی اس کا خدا، ہم تو دعا کرتے ہیں
اب اس کا تکیہ کلام تھا۔

اس کے گلی میں نکلتے ہی بچے اس کے پیچھے آوازے کستے اور اسے گالی والے ناموں سے بلاتے۔ رات گئے اس کے لوئر مڈل کلاس فلیٹ کی بلڈنگ کے اوپری فلیٹ میں جب میاں، بیوی کا جھگڑا ہوتا، اور ساتھ ہی ساتھ گلی کے کتے بھی اس میں سر ملا لیتے، تو ’نہیں ہو‘ جھومتا جھامتا ٹیرس پر آ کر گالم گلوچ کر کے اپنے ہمسایوں اور کتوں کو چپ کراتا۔

ایک دن، جب رات گئے ’نہیں ہو‘ نشے میں دھت گھر لوٹ رہا تھا تو گلی کے کتوں نے اسے آ لیا۔ کتوں سے بچنے کو جو بھاگا تو نالی میں جا پڑا۔ بمشکل تمام نالی سے نکلا اور آسمان کی طرف دیکھ کر چلایا

! تو بھی نیچے آ کر کے دیکھ۔۔۔

:ناگہاں، دل کا دورہ پڑا، اور اسی نالی میں جا گرا۔ نزع کے عالم میں اسے ایک دھندلی سے آواز کہیں گونجتی سنائی دی

یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا

نہیں ہو ’جان، عدمیت کے سپرد کر دیتا ہے

:آخری سین میں ’نہیں ہو‘ عدم میں جاگتا ہے، سفید سپاٹ دیواروں کے بیچ۔ کافی دیر خالی خالی نظروں سے در و دیوار دیکھنے کے بعد چلاتا ہے

! کوئی ہے؟
”دہی سی آواز آتی ہے :“ نہیں۔
”پوچھتا ہے :“ تو یہ جواب کون دے رہا ہے؟
”جواب آتا ہے :“ کوئی بھی
جھلا کر استفسار کرتا ہے : مجھے کیوں نکالا! ؟
جواب: یونہی۔
! لال پیلا ہو کر دریافت کرتا ہے : میرے ہونے کا مقصد؟
”جواب :“ میرے ٹھینگے سے۔
:دماغی توازن کھو کر ہذیانی انداز میں چلاتا ہے
! تو پھر میرے بھی ٹھینگے سے

(اینڈنگ کریڈٹس شروع ہوتے ہیں)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments