بھارت میں کرونا وبا کے دوران سیاسی قیدی زیادہ پریشانی کا شکار


فروری 2020 میں دہلی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں تہاڑ جیل میں بند جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے سابق طالب علم 32 سالہ عمر خالد کرونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔

عمر خالد کے والد اور ’ویلفیئر پارٹی آف انڈیا‘ کے صدر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس کو جب علم ہوا تو انہوں نے اس معاملے کو عدالت میں اٹھایا جس کے بعد عمر خالد کا کرونا ٹیسٹ ہوا اور ان کا علاج شروع کیا گیا۔

ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عمر خالد نے انہیں بتایا تھا کہ ان میں کرونا کی علامتیں ظاہر ہو رہی ہیں۔ انہوں نے جیل انتظامیہ سے ٹیسٹ کرانے کو کہا لیکن حکام نے کوئی توجہ نہیں دی۔

کئی قیدیوں کے کرونا ٹیسٹ مثبت

قاسم رسول الیاس نے عدالت میں اپیل دائر کی۔ عدالت نے جیل انتظامیہ کو عمر کا ٹیسٹ کرانے کی ہدایت کی۔ جیل انتظامیہ نے 26 اپریل 2021 کو گرو تیغ بہادر اسپتال میں ان کا ٹیسٹ کرایا تو پازیٹیو آیا اور ان کے کرونا سے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی۔

عدالت نے حکم دیا کہ ان کے علاج اور غذا پر توجہ دی جائے اور انہیں آئسولیشن میں رکھا جائے۔

قاسم رسول الیاس کے مطابق عمر خالد کو ان کے ہی کمرے میں آئسولیٹ کر دیا گیا۔ ان کے مطالبے پر ان کا یومیہ ٹیسٹ کیا جاتا اور ٹیسٹ رپورٹ اور ڈاکٹر کی رائے شام کے وقت انہیں بتائی جاتی۔

وہ کہتے ہیں کہ 13 روز کے بعد جب پھر ٹیسٹ کرایا گیا تو رپورٹ منفی آئی۔ اس طرح 15 دنوں تک انہیں آئسولیشن میں رکھا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج میں شامل ہونے والے ایک اور سماجی کارکن خالد سیفی اور دیگر قیدی بھی کرونا سے متاثر ہوئے ہیں البتہ ان لوگوں کی حمایت میں آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہے اس لیے ان پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔

دوسری جانب جیل انتظامیہ کی جانب سے قیدیوں کی صحت کے حوالے سے لاپروائی برتنے کے الزام کی تردید کی جاتی ہے۔ جیل حکام کا کہنا ہے کہ جیل میں طبی عملہ موجود ہوتا ہے جو بیمار افراد کی دیکھ بھال کرتا ہے اور اگر ضروری محسوس ہو تو انہیں اسپتال بھی منتقل کیا جاتا ہے۔

اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ قیدیوں کی صحت کے بارے میں اگر کوئی شکایت موصول ہوتی ہے تو اس پر کارروائی کی جاتی ہے اور اس سلسلے میں اگر عدالت کوئی حکم دیتی ہے تو اس پر بھی عمل کیا جاتا ہے۔

عمر خالد کو فروری 2020 میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہٴ بھارت کے موقع پر مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقریر کرنے اور دہلی میں فسادات بھڑکانے کے الزام میں 14 ستمبر 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق دہلی فسادات میں 53 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 40 مسلمان تھے۔ اس کے علاوہ کم از کم 400 افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس معاملے میں درجنوں مسلمانوں اور انسانی حقوق کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ان رہنماؤں کے خلاف پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی جنہوں نے پولیس کی موجودگی میں اشتعال انگیز تقریریں کی تھیں اور بیانات دیے تھے۔ بی جے پی رہنما خود پر لگے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ عمر خالد نے دہلی میں فساد کرانے کی سازش کی۔ اس سلسلے میں شاہین باغ میں سی اے اے مخالف احتجاج میں حصہ لیا تھا۔

پولیس نے ان کے خلاف 17ہزار صفحات پر مشتمل فردِ جرم عدالت میں داخل کی۔ ان پر دو مقدمات قائم کیے گئے جن میں سے ایک میں انہیں ضمانت مل گئی ہے۔ تاہم وہ اب بھی جیل میں ہیں۔

سی اے اے مخالف قیدیوں کا معاملہ

ڈاکٹر قاسم رسول الیاس کہتے ہیں کہ جیلوں میں بند سیاسی قیدیوں کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ لیکن نہ تو جیل انتظامیہ کوئی توجہ دیتی ہے اور نہ ہی عدالتیں اس حوالے سے احکامات جاری کر رہی ہیں۔

ان کے مطابق سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ ہماری جیلوں میں ضرورت سے زیادہ قیدی ہیں۔ ایسے تمام قیدیوں کو، جن کو پانچ چھ سال تک کی سزا ہو سکتی ہے، ضمانت پر رہا کیا جائے۔ البتہ جو لوگ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق قانون (یو اے پی اے) اور قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت بند ہیں ان پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں کو ضمانت نہیں دی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب متعدد قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے۔ البتہ دہلی فسادات اور سی اے اے مخالف احتجاج میں شامل سماجی کارکنوں یا دوسرے رضاکاروں کو ضمانت نہیں دی جا رہی ہے۔ ان افراد کو جیل سے نکال کر ان کے گھروں میں نظر بند کیا جا سکتا ہے۔

رپورٹس کے مطابق اس وقت انسانی حقوق کے سیکڑوں کارکن، طلبہ، صحافی اور ماہرینِ تعلیم جیلوں میں بند ہیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ حکومت نے ان افراد کو سیاسی وجوہات سے جیل میں قید کیا ہوا ہے۔ البتہ ان کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ہرش مندر نے قطر کے نشریاتی چینل ’الجزیرہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت زیرِ سماعت مقدمات میں ملوث افراد اور سیاسی قیدیوں کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کرتی ہے۔ ان کے بقول ان تمام لوگوں کو تحفظ کے پیشِ نظر رہا کیا جانا چاہیے۔ لیکن اس کے بجائے مزید گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔

نتاشا نروال کو والد کے انتقال کے بعد ضمانت

جے این یو کی ایک سابق طالبہ 32 سالہ نتاشا نروال کا معاملہ اور بھی سنگین ہے۔ انہیں بھی دہلی فسادات کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔

پہلی گرفتاری پر انہیں اگلے روز ہی عدالت نے ضمانت دے دی تھی۔ لیکن پولیس نے اس کے ایک روز بعد ان پر کئی سنگین دفعات لگا کر پھر گرفتار کر لیا تھا۔

نتاشا نروال جے این یو کی طالبات کی ایک تنظیم ’پنجرہ توڑ گروپ‘ سے وابستہ ہیں۔

اس گروپ نے شمال مشرقی دہلی کے جعفر آباد میں چلنے والے سی اے اے مخالف احتجاج کی حمایت کی تھی۔

دہلی کی ایک عدالت نے ان کی ضمانت کی درخواستیں کئی بار مسترد کیں۔ سماعت کے دوران پولیس ضمانت کی مخالفت کی تھی۔

ان کے والد مہاویر سنگھ نروال نے گزشتہ سال نومبر میں کہا تھا کہ اگر میری بیٹی کو زیادہ دنوں تک جیل میں رکھا گیا تو وہ مجھے نہیں دیکھ پائے گی۔ ان کی بات درست ثابت ہوئی۔ نو مئی کو ان کا دہلی میں انتقال ہوا۔

سابق پروفیسر 71 سالہ مہاویر سنگھ نروال کو کرونا ہوا تھا وہ ایک سائنس دان تھے۔

ان کے انتقال کے ایک روز بعد دہلی کی ایک عدالت نے ان کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے نتاشا کو تین ہفتوں کی ضمانت دی ہے۔

جیل حکام کے مطابق عدالت کی جانب سے نتاشا نروال کی ضمانت منظور ہوتے ہی اسے جیل سے رہا کیا گیا۔ اسی طرح جس قیدی کے بارے میں عدالت جو حکم دیتی ہے اس پر فوری عمل کیا جاتا ہے۔

نتاشا کو بھی یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ اس دفعہ کے تحت فرد جرم داخل کیے بغیر 180 دنوں تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔

نتاشا نروال نے پی پی ای کٹ پہن کر اپنے والد کی آخری رسومات انجام دیں۔

چارج شیٹ یا افسانہ

ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس کے مطابق جب عمر خالد کے خلاف پولیس نے چارج شیٹ داخل کی تو عدالت نے اسے افسانہ قرار دیا اور گواہوں کو بھی فرضی بتایا۔ لیکن ان پر یو اے پی اے لگا دیا گیا ہے اس لیے عدالتیں یو اے پی اے اور این ایس اے کی دفعات والے کیسز میں ضمانت دینے سے کتراتی ہے۔

انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن اویس سلطان خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جیلوں میں بند سیاسی قیدیوں کو کرونا وبا کے دوران زبردست خطرات لاحق ہیں۔

انہوں نے بھی اس کی حمایت کی کہ ان حالات میں ان قیدیوں کو رہا کیا جانا چاہیے تاکہ ایک تو ان کو کرونا کے خطرے سے بچایا جا سکے اور دوسرے ان کے انسانی حقوق کا بھی تحفظ ہو سکے۔

ایک رپورٹ کے مطابق جیل میں بند دہلی یونیورسٹی کے ایک 55 سالہ پروفیسر ہینی بابو نے اپنی ایک آنکھ میں شدید انفیکشن کی شکایت کی جس کی وجہ سے ان کی بینائی جا چکی ہے۔

ان کی اہلیہ جینی رووینا نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی‘ (این آئی اے) نے انہیں گزشتہ سال جولائی میں بھیما کورے گاؤں دے تشدد کے معاملے میں گرفتار کیا تھا۔ پروفیسر ہینی بابو ذات پات کے نظام کے سخت خلاف ہیں۔

یکم جنوری 2018 کو بھارت کی مغربی ریاست مہاراشٹرا کے بھیما کورے گاؤں میں دلتوں کے ایک پروگرام میں تشدد برپا ہوا تھا جس میں ایک 28 سالہ شخص ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے تھے۔

یہ پروگرام یکم جنوری 1818 کے اس واقعے کی یاد میں ہر سال منعقد کیا جاتا ہے جس میں دلتوں نے اونچی ذات کے پیشوا باجی راؤ کی فوج کو انگریزی فوج کی مدد سے شکست دی تھی۔

دستور ساز کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے 1928 میں پہلی بار اس واقعے کی یاد میں پروگرام کا انعقاد کیا تھا۔

اس سالانہ پروگرام کا نام ’یلغار پریشد‘ رکھا گیا ہے۔ 2018 کا پروگرام سابق ججز جسٹس بی جی کولسے پاٹل اور جسٹس پی بی ساونت نے منعقد کیا تھا۔

پارکنسن کے مریض کو اسٹرا دینے سے انکار

پولیس نے اس تشدد کے سلسلے میں متعدد سماجی کارکنوں اور جامعات کے اساتذہ کو اربن نکسل (شہری نکسل) قرار دے کر گرفتار کیا ہے جن میں گوتم نولکھا، فادر اسٹن سوامی، سدھا بھاردواج، آنند تیل تمبڈے اور ورورا راؤ قابل ذکر ہیں۔

رپورٹس کے مطابق ان میں سے بیشتر معمر افراد ہیں البتہ ان لوگوں کے خلاف سنگین دفعات لگائی گئی ہیں اس لیے انہیں ضمانت نہیں دی جا رہی۔

ان میں پارکنسن کے ایک مریض 84 سالہ فادر اسٹن سوامی بھی ہیں جو ہاتھوں میں رعشے کی وجہ سے کچھ کھا پی نہیں پاتے۔

انہوں نے عدالت سے پینے کے لیے اسٹرا کا مطالبہ کیا لیکن این آئی اے نے اس کی مخالفت کی اور عدالت نے انہیں اسٹرا دینے سے انکار کر دیا۔

این آئی اے نے عدالت میں ان کی ضمانت کی درخواست کی بھی مخالفت کی۔

قاسم رسول الیاس کہتے ہیں کہ جیل انتظامیہ کا رویہ تو افسوس ناک ہوتا ہی ہے عدالتوں کا رویہ بھی پسندیدہ نہیں ہے۔ ان کے مطابق ایک معمر شخص کو اسٹرا دینے سے انکار کرنا ایک غیر انسانی معاملہ ہے۔

جیل انتظامیہ کے مطابق ان پر قیدیوں کی صحت کے بارے میں لاپروائی برتنے کا الزام بے بنیاد ہے۔

کیا چشمہ بھی خطرناک ہتھیار ہے؟

مقامی میڈیا کے مطابق بھیما کورے گاؤں کیس میں گرفتار 70 سالہ انسانی حقوق کے کارکن گوتم نولکھا کو پڑھنے کے لیے چشمہ فراہم کرنے کی این آئی نے مخالفت کی تھی جس پر آٹھ دسمبر 2020 کو بامبے ہائی کورٹ نے کہا کہ انسانیت کی سب سے زیادہ اہمیت ہے۔ تاہم اس نے چشمہ کے سلسلے میں کوئی فیصلہ دینے سے انکار کر دیا۔

نولکھا کی اہلیہ صہبا حسین کے مطابق 27 نومبر 2020 کو جیل میں نولکھا کا چشمہ چوری ہو گیا تھا جس پر انہوں نے ایک جوڑی چشمہ پارسل کیا لیکن پانچ دسمبر کو جیل انتظامیہ نے پارسل قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

اس بارے میں اویس سلطان سوال کرتے ہیں کہ کیا چشمہ بھی کوئی ہتھیار ہے جس سے کسی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

ہرش مندر یو اے پی اے کے تحت گرفتاریوں کی مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ دفعہ پولیس کے ہاتھ میں ایک بلینک چیک کی مانند ہے۔ اس کے تحت کسی کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

انسانی حقوق کی ایک تنظیم ’یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ‘ نے جیلوں میں بند سیاسی قیدیوں کی رہائی پر زور ڈالنے کے لیے 11 مئی کو ایک آن لائن مہم شروع کی اور مطالبہ کیا کہ کرونا وبا کے پیش نظر ان سماجی کارکنوں کو فوراً رہا کیا جائے۔ عمر خالد بھی اس تنظیم سے وابستہ رہے ہیں۔

ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس کہتے ہیں کہ سی اے اے مخالف احتجاج اور دہلی فسادات کے سلسلے میں پولیس نے جتنے بھی لوگوں کو گرفتار کیا ہے ان تمام کے خلاف دائر چارج شیٹ میں بالکل یکسانیت ہے اور ان تمام پر ایک جیسے الزامات لگائے گئے ہیں جن کو عدالت افسانہ اور کہانی قرار دے چکی ہے۔ اس کے باوجود ان لوگوں کو رہا نہ کیا جانا ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی تو ہے ہی جیل انتظامیہ اورعدالتوں کے رویے کا بھی اس سے علم ہوتا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments