سی ایس ایس کا معرکہ 23 ویں پوزیشن لے کر حامد امتیاز نے کیسے سر کیا؟


گزشتہ دنوں پاکستان فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے انچاس ویں سی ایس ایس 2020 کا امتحان پاس کرنے والے تین سو چونسٹھ کامیاب امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے۔ تاہم ان میں سے کمیشن نے 221 امیدواروں کی تقرری کی سفارش کی ہے۔ ان نتائج کے اعداد و شمار کے حوالے سے بعض دلچسپ پہلو بھی سامنے آئے ہیں۔

فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سی ایس ایس 2020 کے تحریری امتحان میں کل 18553 امیدواروں نے حصہ لیا۔ جس میں سے محض 376 امیدوار کامیاب قرار پائے۔ ان کامیاب امیدواروں میں سے 364 انٹرویو کے لیے بلائے گئے۔ جن میں سے مرد امیدوار 226 اور خواتین امیدواروں کی تعداد 138 تھی۔ تاہم حتمی مرحلے کے بعد 221 کامیاب امیدواروں کی تقرری کی سفارش کی گئی ہے۔ جس میں مردوں کی تعداد 142 اور خواتین کی 79 ہے۔ مجموعی طور پر 2020 ء کے اس امتحان میں کامیابی حاصل کرنے والوں کا تناسب 1.962 فیصد رہا۔ جو کہ انتہائی کم ہے۔ 12 امیدوار ایسے بھی تھے جو انٹرویو کے لیے کوالیفائی کرنے کے باوجود انٹرویو میں غیر حاضر پائے گئے۔

کامیاب امیدواروں کو ان کی پسندیدہ گروپ ایلوکیشن یا محکمہ جات منتخب کرنے کے حوالے سے ایک اور دلچسپ پہلو یہ سامنے کہ ٹاپ 25 امیدواروں میں سے پہلے نمبر پر ایک خاتون امیدوار ماہین حسن رہیں۔ تاہم مجموعی طور پر ٹاپ پچیس لسٹ میں کامیاب امیدواروں میں سے بیس مرد جبکہ پانچ خواتین امیدوار شامل ہیں۔ ان پانچ خواتین امیدواروں کی چوائس پاکستان ایڈمنیسٹریٹو سروس گروپ ہی رہا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ٹاپ 25 میں سے 20 امیدواروں نے پاکستان ایڈمنیسٹریٹو سروس (پی اے ایس) ، تین نے پاکستان پولیس سروس (پی ایس پی) جبکہ صرف دو نے فارن سروس آف پاکستان (ایف ایس پی) گروپ کو ترجیح دی۔

عید کے روز ہمیں ٹاپ 25 میں سے تئیس ویں نمبر پر آنے والے امیدوار حامد امتیاز، جنھوں نے اپنے لیے پولیس سروس (پی ایس پی) گروپ منتخب کیا ہے، سے ٹیلیفونک گفتگو کرنے کا موقع میسر آیا۔

26 سالہ ہونہار نوجوان حامد امتیاز کا تعلق پاکستان کے شہر گجرات سے ہے۔ وہ پنجاب ہائی وے ڈپارٹمنٹ گجرات میں ایس ڈی او تعینات چوہدری اشفاق احمد وڑائچ کے صاحبزادے ہیں۔ حامد پیشے کے اعتبار سے سول انجنئیر ہیں۔ انہوں میٹرک کا امتحان پاکستان انٹرنیشنل پبلک سکول گجرات، ایف۔ ایس سی ملٹری کالج جہلم اور 2018 ء میں بی۔ ایس سی سول انجنئیر نگ، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) اسلام آباد سے پاس کی۔

حامد امتیاز اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ ان کی دو چھوٹی بہنیں ہیں۔ ایک نے حال ہی میں سائیکالوجی کے ساتھ بی۔ ایس کیا ہے، جبکہ دوسری بہن ایک میڈیکل کالج میں ایم۔ بی۔ بی۔ ایس کی سٹوڈنٹ ہے۔ حامد امتیاز کے ایک چچا پاک آرمی سے بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) ہیں۔

* ڈگری ایک اچھے بھلے پروفیشنل فیلڈ سول انجنئیرنگ میں لینے کے بعد سی ایس ایس کرنے کا خیال کیسے آیا؟

کے جواب میں حامد کا کہنا تھا کہ دراصل انہوں نے اپنی انجنئیرنگ کی تعلیم کے آخری ایک ڈیڑھ سال کے دوران ہی سنجیدگی کے ساتھ اپنے آئندہ کیرئیر کے بارے میں منصوبہ بندی کرنی شروع کر دی تھی۔ کئی ایک دیگر آپشنز کے متعلق سوچنے کے بعد انہیں بہتر آپشن سی ایس ایس کرنے کا لگا۔ بھرپور تیاری کے ساتھ امتحان دیا اور اللہ کے فضل سے پہلی بار ہی نہ صرف کوالیفائی کر گیا بلکہ پاکستان لیول پر میری 23 ویں پوزیشن بھی آ گئی۔ مجھے اس کامیابی تک پہنچنے اور تیاری میں تقریباً دو سال لگے۔

* تیاری کیسے کی؟ کیا کسی اکیڈمی سے بھی استفادہ کیا؟

حامد امتیاز نے جواب میں بتایا کہ تیاری انہوں سنجیدگی کے ساتھ کی۔ ایک وقت میں دو کشتیوں میں پاؤں نہیں رکھے۔ مطلب! سی ایس ایس کی تیاری بھی کرتا رہوں اور ساتھ ساتھ سول انجنئیر کی جاب کے لیے بھی اپلائی کرتا رہوں۔ میں نے یہ نہیں کیا۔ میں نے اپنا فوکس صرف اور صرف سی ایس ایس کے امتحان پر ہی مرکوز رکھا۔

لاہور میں چار ماہ کے لیے ایسے امتحان کی تیاری کروانے والی ایک اچھی شہرت کی اکیڈمی کو جوائن کیا۔ جن کے چار ماہ کے کورس کی فیس پچھتر ہزار روپے تھی۔ تحریری امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسی اکیڈمی سے دو ماہ کا انٹرویو کی تیاری کا پیکج لیا جو ایڈیشنل پچیس ہزار پر مشتمل تھا۔ اکیڈمی میں تیاری سے کافی باقاعدگی آئی اور گروپ تیاری کی صورت میں کافی فائدہ ملا۔

*سی ایس ایس کی تیاری میں سب سے مشکل کون سا مضمون لگا؟

کے جواب میں حامد نے بتایا کہ مشکل تو کوئی بھی نہیں لگا تاہم انگلش پورشن میں پریسی اور مضمون نویسی میں اچھی مہارت پیدا کیے بغیر آپ یہ امتحان اچھے نمبروں میں پاس نہیں کر سکتے۔ کافی لوگ کرنٹ افیئرز اور دیگر مضامین کو تیاری میں اولین ترجیح میں رکھتے ہیں جبکہ مضمون نویسی اور پریسز کو آخر میں ٹائم دیتے ہیں۔ میرا تجربہ یہ رہا کہ میں نے مضمون نویسی وغیرہ کو ابتداء میں ہی تیار کر لیا تھا۔

مضمون نویسی میں ضروری نہیں کہ آپ کا اظہار بہت ثقیل الفاظ پر مشتمل اور بہت زیادہ لٹریری انگلش پر مبنی ہو۔ اصل چیز یہ ہونی چاہیے کہ آپ جس موضوع پر بھی لکھیں خیالات اور آئیڈیاز آپ کے جنوئین اپنے ہونے چاہئیں، روایتی یا کاپی پیسٹ ٹائپ تحریر پڑھنے والے پر اپنا اثر نہیں چھوڑتی۔

زیادہ تر انجینیئرز اور ڈاکٹر حضرات اس طرف کیوں آ رہے ہیں اور سی ایس ایس کے امتحانات میں دھڑا دھڑ کامیاب بھی ہو رہے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں حامد کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں پاکستان کے موجودہ حالات میں اکثر شعبوں میں کام کرنے والوں میں ایک غیر یقینی کی سی صورتحال نظر آتی ہے۔ خصوصاً نوجوان کچھ زیادہ ہی مایوسی کا شکار ہیں۔ ایسے میں ہر شخص اپنے لیے بہتر سے بہتر کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ ڈاکٹرز اور انجینیئرز سمیت سبھی ایسے حالات سے گزر رہے ہیں۔

ڈاکٹرز کے علاوہ انجینیئرز کی اپنے سبجیکٹ کی ساری سٹڈی کافی حد تک انیلیسسز بیسڈ ہوتی ہے۔ اس تعلیم کا فائدہ انہیں سی ایس ایس کے امتحان میں کمک پہنچاتا ہے۔ کیونکہ یہاں بعض مضامین کے بر عکس رٹا تو چلتا نہیں ہے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ انگریزی ادب میں ماسٹر ڈگری رکھنے والوں کے علاوہ گزشتہ چند سالوں سے انجینیئرز اور ڈاکٹرز بھی ایسے امتحانات میں بڑی تعداد کامیاب ہو رہے ہیں۔

*سی ایس ایس کرنے کے بعد پولیس سروس میں بعض لوگ محض ”ٹوور ٹپے“ کے لیے بھی آ جاتے ہیں۔ آپ کے ساتھ بھی کیا ایسا کچھ ہے؟

حامد امتیاز کا اس سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ دیہی پس منظر سے تعلق رکھنے والے بعض لوگ یقیناً اس جانب آ جاتے ہوں گے۔ لیکن ان کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان پاس سارے گروپوں کے آپشنز تھے۔ فارن سروس میں وہ جانا نہیں چاہتے تھے۔ باقی ایڈمنسٹریٹو سروس اور پولیس سروس، دونوں میں سے انہیں ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ میں نے اپنی مرضی سے پولیس گروپ کو چنا۔ اسی حیثیت میں ملک و قوم کی خدمت کروں گا۔ میرے گھر والوں نے بھی مجھے یہ آزادی دی کہ جو مجھے اچھا لگتا ہے، میں اسی طرف جاؤں۔

پولیس کا سروس سٹرکچر مجھے زیادہ اچھا لگا۔ ان کے خیال میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے مقابلے میں پولیس سروس کا انسٹی ٹیوشن زیادہ بہتر ہے۔

*کیا سی ایس ایس میں سفارش چلتی ہے؟ اور اس امتحان میں کامیابی کا کیا فارمولا ہے؟

کے جواب میں حامد نے کہا کہ وہ بہت حد تک یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے گنتی کے چند ایک اداروں میں سے یہ ادارہ بھی ایک ایسا ہے جہاں ملک بھر سے نوجوانوں کی اکثریت اپنے بل بوتے پر کامیاب ہوتی ہے۔ اور یہاں پر میرٹ چلتا ہے۔ اس قسم کا پراپیگنڈا عام طور پر اور زیادہ تر ناکام ہو جانے والے لوگ کرتے ہیں۔

فیڈرل پبلک کمیشن کی ایک کریڈیبلٹی تو بہرحال ہے جس کی ایک واضح مثال وہ خود ہیں جو بغیر کسی سفارش کے کامیاب ہوئے ہیں۔ جو نوجوان اس جانب آنا چاہتے ہیں اور امتحان میں کامیابی حاصل کرنی چاہتے ہیں۔ وہ شارٹ کٹ نہیں لگائیں۔ سنجیدگی اور خوب محنت سے تیاری کریں تو یقیناً کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔

سی ایس ایس کے امتحان کو ”سپرنٹ“ یا سو میٹر ریس کی بجائے ”میراتھان ریس“ کی طرح لیں۔ اس طرح کا سٹیمینا اگر آپ میں ہو گا تو آپ یہ مقابلہ جیت پائیں گے۔ ورنہ راستے میں ہی رہ جائیں گے۔ کم از کم ڈیڑھ سے دو سال اس کی تیاری میں صرف کریں۔ ایک ایک نمبر کے لیے مقابلہ بہت سخت ہوتا ہے۔ ہزاروں افراد میں سے چند سو ہی اپنی منزل مقصود تک پہنچ پاتے ہیں۔ ایک ضروری بات یہ کہ کسی قسم کے پریشر میں نہ آئیں اور اپنا فوکس لوز نہ کریں۔ تیاری کرتے وقت سارے مضامین ساتھ لے کر چلیں۔

*ایک عام تاثر یہ ہے کہ مقابلے کے امتحانات میں تھوک کے حساب سے امیدواروں کی ناکامی کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ انٹرنیٹ، سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کی فراوانی بھی ہے۔ کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟

اس ضمن میں ہر ایک کا تجربہ الگ الگ ہوگا، جزوی طور پراس نقطے سے اتفاق کرتے ہوئے میرا یہ خیال ہے کہ سمارٹ فونز، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے کئی معاملات میں بڑی آسانیاں پیدا کی ہیں۔ کئی ایک منفی پہلو بھی ہیں۔ میں نے تیاری کے دوران بعض مضامین خصوصاً کرنٹ افیئرز میں فون سے بڑی مدد لی۔ انٹرنیٹ آج کے دور میں ایک بڑی نعمت ہے۔

ذرا سوچیں! ایک چیز آپ کسی کتاب سے ڈھونڈنے کی کوشش میں کتنا وقت صرف کریں گے۔ وہی چیز آپ انٹرنیٹ پر سیکنڈز میں تلاش کر سکتے ہیں۔ یہ آپ کے اپنے اوپر منحصر ہے کہ آپ ان کا استعمال کیسے کرتے ہیں۔ تیاری کا ایک سخت ٹائم ٹیبل ہونا چاہیے۔ پڑھائی، ایکسرسائز اور صحت مندانہ تفریح ساتھ ساتھ چلنی چاہیے۔

*سی ایس ایس کے امتحان کے بعد کیا آپ کو یقین تھا کہ آپ کامیاب ہو جائیں گے؟

حامد نے کہا کہ انہیں تحریری امتحان، نفسیاتی ٹسٹ اور انٹرویو کے مراحل کے بعد یقین کامل تھا کہ وہ ضرور کامیابی حاصل کریں گے۔ بلکہ انہوں نے اپنے تخمینے سے پہلی بیس پوزیشنوں میں اپنے آپ کو رکھا ہوا تھا۔ تاہم پھر بھی اللہ کا شکر ہے کہ میری پاکستان لیول پر 23 ویں پوزیشن آئی ہے۔ جو کہ مجھ سمیت، ضلع گجرات اور میرے خاندان کے لیے ایک بڑا اعزاز ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments