کیا والدین نے اولاد کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟



پچھلے دنوں پے در پے ایسے واقعات بلکہ سانحات دیکھے کہ دل لرز کر رہ گیا، نام لکھنا مناسب نہیں ہے۔ ملک کے ایک معروف شاعر کی اولاد کا سلوک ان سے سن کر سوچا کہ ان کے والد نے ان کے لیے کیا کیا نہیں کیا تھا؟ لیکن جوان اولاد بوڑھے، مشہور اور بیمار باپ کے پاس بیٹھے اس کے دوستوں کو سلام تک کرنے کو تیار نہ تھی بلکہ یوں پاس سے گزر جیسے کچھ دیکھا ہی نہ ہو اور ایک دوسری تصویر یہ ہے کہ چوٹی کے ایک افسانہ نگار باپ کو اولاد متعدد بار اس لیے گھر سے نکال چکی کہ وہ گھر بیچنے کو تیار نہ ہو رہا ہے اور باپ کو علم ہے کہ جو اس کا واحد آسرا یہ گھر بیچنے پر تلے ہوئے ہیں وہ بعد میں اسے کھلے آسمان تلے چھوڑ کر اپنی راہ لیں گے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا والدین اس لیے بچے پال پوس کر جوان کرتے ہیں کہ وہ بڑھاپے میں ان کا سہارا بننے کی بجائے انہیں دھکے دے کر دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں؟ کیا والدین نے انہیں بچپن، لڑکپن اور جوانی میں کبھی کہا کہ ”جاؤ اب اپنا کماؤ کھاؤ اور گھر بناؤ“۔

تو پھر اولاد کیسے اتنی بے حس ہو سکتی ہے؟ ایک بچہ 9 ماہ ماں کے پیٹ میں رہتا ہے، ماں تکلیفیں برداشت کرتی اور اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر اس کی نگہداشت کرتی ہے اور اس دوران باپ بھی تقریباً سولی پر لٹکا ہوا ہوتا ہے، وہ اپنی ماں بننے والی بیوی کا دن رات خیال رکھتا ہے، اس کے لیے وہ کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دیتا ہے اور پھر وہ بچہ دنیا میں آتا ہے تو انگلی پکڑ کر اسے چلنا سکھایا جاتا ہے، دن رات اس کے دکھ سکھ میں ماں باپ جاگتے ہیں، ذرا سی تکلیف پر ان کے دل دہل جاتے ہیں اور وہ ڈاکٹروں حکیموں اور پیروں فقیروں کے آستانوں تک کو نہ چھوڑتے ہیں اور تب سکون سے بیٹھتے ہیں جب ان کا بچہ تندرست ہوتا ہے۔

یہ پرورش کس قدر مشکل ہے اس کا اندازہ ماں باپ ہی کر سکتے ہیں۔ خود خاکسار ابھی حال ہی میں پہلی بار باپ بنا ہے اور عبداللہ صرف 5 ماہ کا ہوا ہے لیکن عبداللہ آدھی آدھی رات تک جاگتا ہے اور ہمیں ساتھ جاگنا پڑتا ہے، وہ سو گا تو ہم سوئیں گے اور یہ ہم پر فرض بھی ہے کہ اس وقت وہ اپنی دیکھ بھال خود نہ کر سکتا ہے اور بطور ماں باپ یہ ہمیں ہی کرنا ہے لیکن ہم اگر یہ کہہ دیں کہ ”ہم نے اس کی پرورش کا ٹھیکہ تو نہیں لے رکھا ہے“ تو کیا ہوگا؟

سوچیے اگر سارے والدین یہ سوچ یہ بیانیہ اپنا لیں تو معاشرے کا کیا حشر ہوگا؟ اور سب سے بڑا سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا والدین کی یہ روش اخلاقیات کے کسی دائرے میں آئے گی بھی؟ اول تو ہمارا دین بھی اس سوچ کو پسند نہ کرتا ہے اور نہ ہی کسی اور مذہب میں اس کی اجازت ہے اور پھر یہ فعل دنیا کے کسی بھی معاشرے کی تیزی سے شکست و ریخت کا باعث بننے کی صلاحیت رکھتا ہے، بجا کہ اولڈ ہومز موجود ہیں لیکن کیا بے بی کیئر سنٹرز بھی موجود نہ ہیں؟

اگر ایک بچہ پیدا ہوتے ہی ماں باپ اسے کسی یتیم خانے، کسی بے بی کیئر سنٹر کے حوالے کردیں تو کیا اس کی وہ تربیت اور نگہداشت ہو سکے گی جو کہ اس کے اپنے ماں باپ کر سکتے ہیں؟ کیا اس بچے کی تکلیف میں اس کا اس طرح سے خیال رکھا جاسکے گا جس طرح کہ اس کے سگے ماں باپ رکھ سکیں گے؟ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بچے کی تکلیف کو صرف ماں ہی بہتر طور پر سمجھ سکتی ہے اور بچہ کسی بھی پریشانی میں سب سے پہلے ماں کی گود ہی میں سکون محسوس کرتا ہے، لاکھ اسے قیمتی سے قیمتی کھلونے دیں۔ لبھانے کی کوشش کریں لیکن ماں کی آغوش ہی اس کے دکھ کا مداوا کرتی ہے اور ایسے میں اگر کوئی ماں یہ کہ دے یا باپ ہاتھ جھاڑ کر کھڑا ہو جائے کہ ”ہمارا کام بس جنم دینے تک محدود تھا تو؟

یاد رکھنے کی بات ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات اسی لیے کہا گیا ہے کہ اس کے اندر جذبات و احساسات ڈالے گئے ہیں اور جانوروں میں نہیں تو پھر اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ سے انسان پر کچھ ذمے داریاں بھی ڈالی گئی ہیں اور ان ذمے داریوں کی وجہ سے وہ خدا کی بنائی اس دنیا کی ترتیب، حسن اور نظم و ضبط کو قائم و برقرار رکھتا ہے اور ذرا سی غیر ذمے داری، بے احتیاطی اور بے ڈھنگا پن اس کائنات کے سارے نظام کو تہس نہس کر سکتا ہے خصوصاً انسانی رشتوں اور معاملات میں اونچ نیچ اور بگاڑ تو جہاں کائنات کی اچھی بھلی چلتی کشتی میں سوراخ کر کے اسے ڈبو سکتا ہے وہیں اس کائنات کے بنانے والے کی ناراضی کا سبب بھی بن سکتا ہے تو پھر کیا ضرورت ہے کہ ہم خوامخواہ ہی نئے، انوکھے اور ناروا فیصلے کر کے اس کی ناراضی کو دعوت دیں؟

اور کیا یہ فعل ان ہستیوں سے ہی کرنا ضروری ہے جو کہ ہمیں اس خوبصورت دنیا میں لانے کا باعث بنے ہیں؟ ہمارا دین تو ویسے بھی کسی بھی حالت میں والدین کو اف تک کہنے کی اجازت نہیں دیتا ہے بلکہ ان کی تکریم و عزت کو ایسا پر فضیلت قرار دیتا ہے کہ جنم دینے والی ماں کے قدموں تلے اللہ کی سب سے اعلی، شاندار اور انعامی مقام جنت کا ہونا بتاتا ہے، اور رہی بات ٹھیکے داری کی تو خلوص، احترام، محبت اور خون کے رشتوں میں ٹھیکے داری کا لفظ استعمال کرنا ہی نامناسب ہے، بس اتنی گزارش ہے کہ کچھ رشتوں کا بھرم باقی رہنے دیں، انہیں پنی گھڑی گئی ”حقیقت پسندی“ کی بھینٹ نہ ہی چڑھائیں تو بہتر ہوگا ورنہ کل کلاں والدین بھی کسی بچے کی پیدائش پر یہی سفاکانہ فلسفہ کہ

”ہم نے پیدا کر دیا ہے بس اب ساری زندگی اس کی پرورش، تعلیم و تربیت، شادی بیاہ وغیرہ کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا ہم نے“
ذرا سوچیے کہ کیا اس بے حسی، سفاکی اور خودغرضی پر مبنی سوچ اختیار نے سے معاشرے کی کیا حالت ہو جائے گی؟

اور کل اگر یہی سوچ میاں بیوی کے رشتوں کے درمیاں پیدا ہو گئی؟ کیا کسی کی ذاتی سوچ کو اجتماعی رنگ دے کر خاندانی نظام کو تلپٹ کیا جاسکتا ہے؟ آپ نئی بات ضرور کریں لیکن اخلاقیات کو مد نظر رکھ کر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments