معاہدہ عمرانی اور کارکنوں کا جیالا پن


دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر اخبار ”ریاست“ اردو صحافت میں ایک بڑا نام ہے۔ ان کا اخبار ہندوستانی ریاستوں کے معاملات مہاراجوں، مہارانیوں، راجکماریوں اور راجکماریوں کے سکینڈلوں سے بھرا پڑا ہوتا۔ یہ چٹپٹے واقعات بڑی دلچسپی سے پڑھے جاتے تھے۔ اب نہ ہی ریاستیں رہیں، نہ ہی اخبار ’ریاست‘ اور نہ ہی اس کے ایڈیٹر دیوان سنگھ مفتون۔ ان کی معلومات کے ذرائع بڑے وسیع تھے۔ پاکستان میں کسی اخبار نویس کو علم نہ ہو سکا کہ حضرت قائد اعظمؒ زیارت میں خطرناک حد تک علیل ہیں۔

سب سے پہلے یہ خبر ان کے ہندوستانی اخبار ”ریاست“ میں ہی شائع ہوئی تھی۔ پچھلے برس ملکہ پکھراج کی آب بیتی ’بے زبانی زباں نہ ہو جائے‘ شائع ہوئی ہے۔ اس میں لکھا کہ ایڈیٹر ”ریاست“ اپنے اخبار میں کچھ نہ کچھ اس کے متعلق لکھتا رہتا۔ اس نے یہ بھی الزام لگایا کہ مسلمان ملکہ پکھراج ہندو مہاراجہ کشمیر کے لئے زہر لے کر گئی۔ فوراً پتہ چل گیا۔ مگر سرکار نے یہ کہہ کر کہ بچپن سے اسے پالا ہے، معاف کر دیا۔ ملکہ پکھراج جب اگلے دن دربار میں گانے کے لئے حاضر ہوئی تو یہ اخبار بھی ساتھ لے گئی۔

سرکار کو یہ خبر خود پڑھ کر سنائی۔ مہاراجہ بولے۔ ”پہلے بھونکتا تھا اب پاگل بھی ہو گیا ہے“ ۔ بیباک شاعر اور ادیب ساقی فاروقی اسی باعث صحافت کو ادب کے معاملہ میں دوسرے تیسرے درجے کی چیز سمجھتے تھے۔ ایک اچھا فنکار صرف اپنے دل دماغ کی بادشاہت قبول کرتا ہے۔ لیکن ایک اچھے سے اچھا لکھنے والے کو اخبار کی پالیسی، مالک اخبار کی خودسری اور ایڈیٹر کی خوشنودی کا غلام ہونا پڑتا ہے۔ دیوان سنگھ مفتون مالک اخبار بھی تھے اور ایڈیٹر بھی۔

اس لئے انہیں ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہ تھا۔ جو من میں آتا لکھ ڈالتے اور اخبار میں چھاپ بھی لیتے۔ انہوں نے اپنی یادداشتیں ”ناقابل فراموش“ کے نام سے لکھی ہیں۔ پہلے ’ناقابل فراموش‘ سے ایک واقعہ پڑھ لیجیے پھر آگے بڑھتے ہیں۔ ”انگریزوں کے زمانہ میں ایک الیکشن میں سیالکوٹ کے حلقہ سے کانگریسی امیدوار نہ صرف دنیاوی لحاظ سے بلکہ قابلیت کے لحاظ سے بھی معمولی تھا۔ اس کے مقابلہ میں ایک رائے بہادر تھے جو بہت بڑے رئیس اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔

رائے صاحب کے مداحوں کا ایک وفد انتخابی مہم میں ایک ووٹر کے پاس پہنچا۔ اسے بتایا کہ کانگریسی امیدوار کے مقابلہ میں رائے صاحب زیادہ پڑھے لکھے اور موزوں ہیں۔ اس نے جواب دیا۔ ”رائے صاحب جتنے مرضی تعلیم یافتہ اور موزوں ہوں، وہ کانگریس کے امیدوار تو نہیں۔ میں کانگریس کو ووٹ دوں گا، وہ چاہے کسی بازاری کتے کو کھڑا کر دے“ ۔ اب دوسری انتہا وہ یوں لکھتے ہیں۔ ”سیالکوٹ کے ہی رہنے والے ایک شخص کے پاس جو اب پرانا قلعہ نئی دہلی میں آباد ہے، کانگریس امیدوار کے سپورٹر ووٹ مانگنے پہنچے تو وہ بولا۔

میں کانگریس کو ووٹ نہیں دوں گا چاہے مجھے کسی بازاری کتے کو ووٹ کیوں نہ دینا پڑے ”۔ یہ انتہا پسندانہ رویہ بالکل غیر جمہوری ہے۔ پہلا شخص کانگریس سے وفاداری اور دوسرا شخص کانگریس سے دشمنی کی کتنی شدت اور لمبی عمر رکھتا ہوگا۔ یہ سیاسی جماعتیں چاہے“ منشوری بے راہ روی ”کا شکار ہو جائیں، بیچارے وفادار پیروکار جماعت سے چمٹے رہتے ہیں۔ ’بلھیا اوہدی اوہ جانے مینوں اپنی توڑ نبھاون دے ’۔

دیوان سنگھ مفتون کے واقعہ سے مجھے ضیاء کھوکھر یاد آ گئے۔ وہ بڑے فخر سے بتایا کرتے کہ میری پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کی تاریخ 10 ستمبر 1970 ء ہے۔ اس لحاظ سے میری جماعتی وابستگی کی عمر نصف صدی بنتی ہے۔ پیپلز پارٹی بھٹو پارٹی نہ رہی۔ زرداری پارٹی بن گئی۔ جاگیرداری ٹھاہ اور روٹی کپڑا مکان سب کچھ بھول گئی۔ لیکن ان کی وابستگی اور وفاداری میں کوئی فرق نہ آیا۔ مرزا غالب کی زبان میں‘ وفاداری بشرط استواری ’ہی اصل ایمان ہے اور ساری عمر بت خانے میں گزار کر مرنے والا کعبے میں تدفین کا حقدار ہو جاتا ہے۔ لیکن ایک فرد کی ایک سیاسی جماعت سے وابستگی عشق و مستی کے معاملات نہیں کہ بندہ کہتا پھرے

دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب

میں تیرے فقیروں میں، میں تیرے غلاموں میں
پھر یہ معاملہ کچھ ایسا بھی نہیں کہ شعیب بن عزیز کے ہی لفظوں میں بندہ لاحاصلی پر ہی اتراتا پھرے۔
عشق لاحاصلی کا کھیل نہیں

دیکھ ہم اس گلی کی خاک ہوئے
جہلم کے نصیر قوی کس شدت جذبات میں کہتے ہیں۔
ہم بھٹو کے دیوانے ہیں یہ جان امانت بھٹو کی

بی بی پہ کرنے آئے ہیں قربان امانت بھٹو کی

پہلے صرف کراچی سے وطن کے مقابلے میں اپنے سیاسی قائد سے وفاداری کے جذبات کا اظہار سننے میں آیا تھا۔ اب ایسی آوازیں شیخوپورہ سے بھی سنائی دی ہیں۔ یہ لوگ بھی عجب ڈھب کے لوگ ہیں۔ انہیں اپنی بے گھری سے زیادہ اپنے سیاسی رہنماؤں کے ”اچے“ بنگلوں کی فکر رہتی ہے۔ پھر یہ اسی پر نازاں پھرتے ہیں کہ ہمارے پیر جی کا بنگلہ بجلی کے چراغوں سے روشن ہے۔ خیر ہے جو ہماری کٹیا کو مٹی کا دیا بھی میسر نہیں۔ یہ اپنے اپنے سیاسی قائدین کی لغزشوں، کوتاہیوں، نا اہلیوں اور کرپشنوں کے ایسے ایسے جواز ڈھونڈتے ہیں کہ سن کر ہنسی آجاتی ہے۔

ایک جیالے کالم نگار نے لکھا تھا۔ ”بے نظیر بھٹو کی حکومت کے پہلے روز سے ہی اسے گرانے کے لئے نون لیگی دولت کا بے تحاشا استعمال شروع ہو گیا تھا۔ اگر آصف زرداری بے نظیر کا شوہر نہ ہوتا اور اس نے کرپشن سے بے شمار دولت اکٹھی نہ کی ہوتی تو پیپلز پارٹی اپنی حکومت کے بچاؤ کے جوابی حربے استعمال نہیں کر سکتی تھی“ ۔ بادشاہوں کے مامور من اللہ ہونے کے دعویٰ میں معاہدہ عمرانی کا تصور خاصا پرانا ہے۔ معاہدہ عمرانی ایک تصوراتی معاہدہ ہے جو فرد اور ریاست کے درمیان طے پاتا ہے۔ دونوں فریق اسے نبھانے کے پابند ہیں۔ یہ یک طرفہ ہرگز نہیں۔ یہ اس ہاتھ دینے اور اس ہاتھ لینے کا معاملہ ہے۔ جیالے پن کو آپ یک طرفہ محبت ہی کہہ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments