فی الحال مثبت رپورٹنگ کے لئے کچھ نہیں


کبھی ایک حکم آیا تھا کہ مثبت رپورٹنگ کریں اور پھر مثبت رپورٹنگ کی تلاش میں ہم نے اپنی جان ہلکان کر دی لیکن ایک تباہ کن منظر نامے پر نظر ڈالتے ہوئے ریاستی جبر معاشی بربادی جمہوری ڈھانچے کا انہدام اور خوفناک ناکامیوں کے کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آیا ورنہ کس بدبخت لکھاری کی یہ خواہش نہیں ہوگی کہ اپنی دھرتی ماں کے ثمر بار موسموں کے گیت لکھے اور اس کی ممتا سے پھوٹتے بے ریا محبتوں کو ایک فخر کے ساتھ موضوع سخن بنائے لیکن ہم ازل کے بد نصیبوں کو سامنے فی الحال ایسا دلربا منظر نامہ کہاں۔ ؟

سو ہم صحافیوں اور لکھاریوں کے سامنے صرف دو ہی راستے ہیں۔

ایک یہ کہ ہم بھی صحافت کا لبادہ اوڑھے ان مسخروں کے راستے پر چل نکلیں جو دروغ گوئی اور کذب بیانی کی وہ نالیاں ہیں جس میں صبح و شام ایک غلاظت بہتی رہتی ہے جس سے وہ شعور سے عاری اور عقل سے بیگانہ ذہنوں کو ایک ڈھٹائی کے ساتھ ”سیراب“ کرتے ہوئے اپنی پر آسائش گھروں وسیع و عریض فارم ہاؤسز اور لگژری لائف سٹائل کا انتظام کرتے اور احمقوں کو مزید احمق بناتے رہتے ہیں۔

رہا پیغمبرانہ پیشے صحافتی ذمہ داریوں کا احساس تو سوال یہ ہے کہ یہ لوگ صحافی ہیں کب؟ جن سے اس عظیم پیشے کی عظمت و رفعت کی توقع اور تقاضا کیا جائے۔

سو اس کراہت بھرے لوگوں پر وقت ضائع کیے بغیر آگے بڑھتے ہیں۔

دوسرا اور جینوئن راستہ وہ ہے جسے پیغمبرانہ میراث سمجھا جاتا ہے اور وہ دشت پرخار میں آبلہ پائی کا وہ سفر ہے جہاں قدم قدم پر مشکلات مزاحمت تکلیفوں اور خطروں سے کھیلنا پڑتا ہے لیکن صحافت بحر حال یہی ہے

اور یہاں صورتحال کو جوں کا توں بیان کرتے ہوئے رپورٹ کرنا اور لکھنا پڑتا ہے گویا کسی آئینے کی مانند۔

سو ایک ایسے منظر نامے میں ہم مثبت رپورٹنگ کیسے کریں جب مملکت خداداد میں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں بائیس کروڑ عوام کا منتخب وزیراعظم نہ صرف وزارت عظمی سے ہاتھ دھو تا ہے بلکہ وہ اپنے خاندان اور پارٹی رہنماؤں سمیت بد ترین ریاستی جبر کا سامنا بھی کرتا ہے بلکہ اس عمل کے ذریعے پورے ملک کی اینٹ سے اینٹ بھی بجا دی جاتی ہے۔

لیکن آئین سے بغاوت اور ملک پر دس سال تک آمریت مسلط کرنے والے پرویز مشرف سے اس کا جرم پوچھنے کا اختیار کسی اعلی عدالت کو بھی نہیں اور اگر باالفرض وہ (عدالت) ایسا کرے بھی تو حکم ماننے کی بجائے پوری عدالت کو اڑا دیا جاتا ہے۔

بتایا جائے کہ ہم مثبت رپورٹنگ کیسے کریں جب چھ فیصد شرح ترقی کو چھوتا ہوا ملک محلاتی سازشوں کے سبب دھڑام سے نیچے گرے اور شرح نمو منفی میں جا کر عوام کے منہ سے روٹی کا آخری نوالہ بھی چھین لے۔

ان حالات میں ہم مثبت رپورٹنگ کہاں سے کریں جب کارکردگی دکھانے والوں کو پابند سلاسل کیا جائے اور وارداتیں کرنے والوں کو مناصب پر بٹھا کر انہیں کھلی چھٹی دی جائے جس کے سبب سونامی ٹری مالم جبہ بی آر ٹی آٹا چینی اور راولپنڈی رنگ روڈ جیسے میگا کرپشن سکینڈلز روز روز سامنے آتے اور ملک کا بیڑہ غرق کرتے رہیں۔

کیسے کریں مثبت رپورٹنگ جب جمہوریت کی آڑ میں بد ترین آمریت مسلط ہو اور سزا و جزا کا عمل جرم اور کارکردگی کی بجائے سیاسی وابستگیوں سے مشروط کر دیا گیا ہو۔ اور پھر اسی بیانیے کا قانونی سہولت کار ثاقب نثار جیسا آدمی بے تحاشا مراعات کے ساتھ دندناتا پھر رہا ہو اور جسٹس فائز عیسی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی جیسے قابل احترام منصف عدالتی راہداریوں میں سارا سارا دن اپنی بے گناہی کے ثبوت لئے پھر رہے ہوں۔

ہم آخر مثبت رپورٹنگ کے لئے مواد کہاں سے تلاش کریں جب میڈیا کو زنجیروں سے جکڑا گیا ہو اور ایک مخصوص طبقے کو گالیوں اور ایک مخصوص طبقے کی تعریفوں کے علاوہ آپ کھینچے گئے لکیر سے باہر نکل کر کچھ بولیں گے تو پھر یا تو اٹھا دیے جاؤ گے یا کسی گولی کا نشانہ بنو گے۔

مثبت رپورٹنگ کیسے کی جائے جب پاکستان کی تاریخ کے سب سے بہترین منتظم کو عدالتی حکم کے بعد بھی ائرپورٹ پر روک کر ملزم بنا دیا جائے جبکہ اسی تاریخ کے سب سے کمزور کارکردگی والے کی فارن فنڈنگ کیس کی سماعت نہ ہونے دیا جائے بلکہ وہ ایک کرپٹ غول کے بیچوں بیچ کھڑا اس صادق و امین کا پھریرا بھی لہرا رہا ہو جس پر ثاقب نثار کی کراہت بھری مہر لگی ہے۔

کیا ان حالات میں مثبت رپورٹنگ ہو سکتی ہے جب پیپلز پارٹی جیسی مضبوط جماعت کے سربراہ اور صدر مملکت جیسے اہم منصب پر رہنے والے آصف علی زرداری پی ڈی ایم کے بھرے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایک خوف اور بے بسی کے ساتھ کہے کہ میرا ایک ہی بیٹا ہے اور میں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ نہیں لڑ سکتا۔

چلیں مثبت رپورٹنگ کا حکم دینے والے ہمیں آر ٹی ایس سسٹم کی بطن سے معرض وجود میں آنے والی موجودہ حکومت کی کوئی ایک بھی ایسی کارکردگی تو دکھا آئیں جس سے مثبت رپورٹنگ کا کوئی پہلو تو نکل آئے جبکہ تباہی و بربادی کی ایک طویل اور خونچکاں داستان سامنے ہے جس سے نا کامی نا اہلی کرپشن بد انتظامی اور حواس باختگی کسی ناسور سے رستے ہوئے پیپ کی مانند دکھائی دے رہے ہیں۔

عالمی سطح پر تضحیک آمیز تنہائی اور کشمیر کے مسئلے پر شرمناک پسپائی سعودی عرب کا اپنے پیسے واپس مانگنا اور پھر خیرات اور زکوٰۃ کے چند ہزار چاول کے بوریوں کے لئے ستر افراد کے لاو لشکر کا وزیراعظم پاکستان کے سر براہی میں توہین آمیز اور سفارتی آداب سے عاری دورہ

پچاس ارب ڈالر سے زائد سی پیک کے عظیم منصوبے کی گمشدگی
ہندوستان کے ساتھ دبئی میں پر اسرار خفیہ مذاکرات کا غلغلہ
چین کی ناراضگی اور معنی خیز خاموشی

اور افغانستان کے گمبھیر ہوتے مسئلے سے خوف اور اندیشے تو تسلسل کے ساتھ برآمد ہو رہے ہیں لیکن مثبت رپورٹنگ کے لئے کوئی خبر تو کجا کوئی امید تک نہیں!

سو بتانا یہی ہے کہ ابھی آپ کے پاس مثبت دکھائے کے لئے کوئی کارکردگی نہیں اور ہمارے پاس مثبت رپورٹنگ کے لئے کوئی خبر نہیں آس لئے ایک طویل انتظار بلکہ موقع دینے کے بعد اپنی اپنی راہ لیتے ہیں تاہم اگر مثبت کارکردگی پر کہیں نظر پڑی تو ہم بکاؤ مسخروں کی بجائے رضاکارانہ طور پر آپ کے دست و بازو بنیں گے اور پھر ہمارے قلم کی جولانیاں آپ سے بھی خراج لیتی جائیں گی۔ فی الحال خدا حافظ۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments