تم عمران خان اور جنرل باجوہ سے کیا چاہتے ہو؟


مشرق وسطٰی یعنی Middle East دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کا مسکن ہے۔ انسان افریقہ سے ہوتا ہوا مشرق وسطٰی آیا جہاں سے وہ یورپ اور ایشیاء تک پھیلتا چلا گیا۔ یہی خطہ وہ علاقہ بھی ہے جہاں یہودیت، عیسائیت اور اسلام نے جنم لیا۔ تاریخ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو فتوحات نصیب ہوئیں جبکہ یہودی تاریخی طور پر 1900 سال تک دیگر اقوام کے غلام رہے۔ یہودی اپنے آبائی وطن سے نکالے گئے تو اردگرد کے علاقوں میں پھیل گئے۔

یورپ میں عیسائیوں کی اکثریت تھی سو وہاں رہنے والے یہودیوں سے مقامی لوگوں نے سلوک ناروا رکھا۔ یہود پر پابندی عائد تھی کہ وہ فلاں فلاں کام نہیں کر سکتے جبکہ فلاں فلاں کام ایسے ہیں جو کہ انہیں ہی کرنے ہیں۔ اسی طرح پڑھنے لکھنے اور علوم سیکھنے سکھانے کے حوالے سے بھی یہود کے لئے عیسائیوں کی نسبت الگ قواعد و ضوابط طے تھے اور یہود تاریخی طور پر اسے محکومی کا دور گردانتے ہیں۔ عیسائیوں کی طرف یہودیوں پر یہ سختیاں اس عقیدے کی وجہ سے تھیں جس کے مطابق خدا نے مسیح کے ماننے والوں کو مسیح کے منکرین پر غلبہ دیا ہے اور یہودی مسیح کو پھانسی دینے کے باعث واجب سزا ہیں۔ مسلمان اور عیسائی آج بھی یہی مانتے ہیں کہ وہ یہودیوں سے ہمیشہ زیادہ طاقتور رہیں گے۔ اس سب کی نسبت مسلمانوں نے تاریخی طور پر ان کے ساتھ ایسا کوئی نا روا سلوک نہیں کیا۔

یورپ میں جب پوپ کی حکومت ختم ہوئی اور Enlightenment اور Renaissance کے ادوار آئے تو باقی سب مذاہب سمیت یہودیت کو بھی سماجی، سیاسی اور معاشی برابری دینے پر زور دیا گیا اور اس کے لیے کوششیں کی جاتی رہیں۔ یہودی اب تک سمجھتے تھے کہ انھیں مناسب وقت دیکھ کر اپنے آبائی وطن فلسطین لوٹ جانا چاہیے لیکن اس فکری انگڑائی نے یہودی قوم کو بھی متاثر کیا اور انھوں نے یورپ کو بطور وطن اپنانے کا فیصلہ کیا۔ قدرت کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ یہودی اور عیسائی چاہ کر بھی ہنسی خوشی رہ نہ سکے کیونکہ ہٹلر اور مسولینی کے فسطائی نظریات کی وجہ سے یورپ میں بڑے پیمانے پر نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کا قتل عام ہوا جس میں یورپ کے دو تہائی یہودی مارے گئے۔

اس زمانے میں بڑی تعداد میں یہودی بھاگ کر فلسطین میں آ کر آباد ہوئے۔ اس سے چند سال پہلے ہی یہودی فلسطین میں آ کر بسنا شروع ہو چکے تھے مگر نازی کارروائی نے اس عمل کو تیز کر دیا۔ فلسطینیوں نے پیسوں کے لالچ میں اپنی زمینیں یہودیوں کو بیچنا شروع کی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے فلسطینی قیادت میں تشویش کی لہر دوڑ رہی تھی اور اسی لیے فلسطینی مسلمان علماء یہودیوں کے خلاف ہٹلر کے کیمپ میں چلے گئے تھے۔

اس عرصے میں سعودی عرب کے بادشاہ عبدالعزیز ابن سعود نے امریکہ سے گارنٹی حاصل کی تھی کہ وہ یہودیوں کی فلسطین میں آبادکاری اور اسرائیل کے قیام کے خلاف ان کی سپورٹ کریں گے تاہم 1948 میں اقوام متحدہ کے اکثریتی ارکان نے دو ریاستی حل کو تسلیم کر لیا جس کے مطابق مقدس سر زمین میں یہودیوں کا ملک اسرائیل، مسلمانوں کا ملک فلسطین اور ایک عالمی شہر یعنی یروشلم قائم رہے گا۔ عربوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور بعد ازاں جنگ چھیڑ دی۔

یہودیوں کا اس وقت سے آج تک ایک ہی نعرہ ہے : Zion یعنی دوبارہ نہیں۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ جس طرح نازیوں نے ہمارا خاتمہ کرنے کی کوشش کی، ہم عربوں کو اپنے خاتمے کی کوشش میں کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ دوسرے الفاظ میں یہود خود سے عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کے لئے اسرائیل قائم رکھیں گے تا کہ جب کبھی یہودیوں پر برا وقت آئے تو وہ اسرائیل میں اکٹھے ہو سکیں یا اسرائیل ان کا تحفظ کر سکے۔ یورپ نے چونکہ یہودیوں کو احساس عدم تحفظ پہنچائے رکھا تھا اور ان کی زمین پر یہود کا قتل عام بھی ہوا تھا، اس لیے یورپ کے دل میں ویسا ہی یہود کے لئے احساس جرم اور ہمدردی ہے جیسے ہمارے دلوں میں واقعۂ کربلا کی وجہ سے سیدوں کے لیے ہے۔

سو جب کبھی عرب ممالک نے اسرائیل پر دھاوا بولا، یورپ نے اسرائیل کی حمایت کی تاکہ وہ اپنی پچھلی غلطیوں کا کچھ مداوا کر سکیں۔ اس کی نسبت امریکہ اس لیے بھی اسرائیل کا حامی رہا ہے کیونکہ ان کے خیال میں یہودی آبادکاری درست عمل ہے اور اس لیے بھی کیونکہ اسرائیل ان کے لیے باقی مشرق وسطٰی کے ممالک کی نسبت زیادہ فائدہ مند ہے۔

اسرائیل 1948 کی جنگ عربوں سے آسانی سے جیتا تھا کیونکہ اسرائیل یورپ کی طرح کا ایک جدید، ترقی یافتہ جمہوری ملک ہے جس کا سماجی، سیاسی، ملٹری اور معاشی ڈھانچہ جدید فلسفے اور فکر کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ عرب ممالک اس کی نسبت انتہائی مذہبی، پدرسری اور بادشاہی نظام اور پسماندہ معاشی اور سماجی اصولوں پر کھڑے ہیں۔ عربوں نے بعد ازاں فوجی اور معاشی ترقی کی اور 1956 میں کچھ علاقے فتح کر لیے جو بعد ازاں 1967 میں اسرائیل نے 6 دن کی تیز لڑائی میں نہ صرف واپس لے لیے بلکہ فلسطینی حصہ بھی بہت سا حاصل کر لیا۔ اس کے بعد 1973 میں ایک اور لڑائی ہوئی تاہم اس میں امید کے عین مطابق امریکہ کود پڑا جس کے بعد عربوں نے امریکہ کا تیل بند کر کے اس کی صنعت کا پہیہ جام کر دیا۔ یہ وہ خطرناک ترین ہتھیار تھا جو عربوں نے کھیل دیا اور تب کا دن ہے اور آج کا دن، مشرق وسطٰی کا تیل جل رہا ہے اور اسے سینک امریکہ رہا ہے۔

1979 میں ایران میں بادشاہ کو اتار دیا گیا جس کے بعد نئے لیڈر امام خمینی نے اسلامی حکومت قائم کر دی۔ ایران تب سے ایک شیعہ ریاست ہے۔ اس کے بعد ایران اور عراق میں 8 سال جنگ ہوئی اور وہ مسلمان جو ایک وقت پر صرف اسرائیل سے لڑ رہے تھے، اب صرف آپس میں لڑنا شروع ہو گئے۔ ایران اس دوران شام، لبنان، فلسطین اور یمن میں اپنے مسلح منظم گروہ اتار چکا تھا۔ سعودی عرب میں انتہا پسند مذہبی سوچ تیار ہو کر القاعدہ جبکہ عراق سے داعش کی صورت میں نکلی۔

عراق نے کویت کی فتح کے بعد سعودیہ پر بھی چڑھائی کی جس کے بعد امریکی آ کر مسلمانوں کے مقام مقدسہ مسلمانوں ہی سے بچانے کے مقدس فرائض سرانجام دیتے رہے۔ افغان جنگ کا خام مال طالبان نکلے جنہوں نے القاعدہ کو امان دی جس کے بعد افغانستان میں امریکہ پاکستان اور سعودی عرب کی مدد سے طالبان اور القاعدہ جبکہ عراق میں صدام حسین اور IS کی سرکوبی کے لئے داخل ہوا۔ IS بعد میں ISIS یعنی داعش بنی۔ ایران فلسطین کا سب سے بڑا ہمدرد اور اسرائیل کا بدترین دشمن بن کر میدان میں کود پڑا۔

اسے بدلے میں سعودی عرب سے سرداری چھیننے کی وجہ سے سعودیہ کی جبکہ اسرائیل کو آنکھیں دکھانے کی وجہ سے امریکہ کی دشمن مول لینی پڑی۔ سارا مشرق وسطٰی اب اسرائیل کا دوست جبکہ ایران کا دشمن بن چکا ہے جبکہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے فلسطینیوں کو ٹرمپ کا پیش کردہ امن معاہدہ قبول کرنے یا بکواس بند کرنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔

ظالمو! کہانی میں پاکستان کا کیا کردار ہے؟ نہ ہماری زمین اسرائیل کے ساتھ لگتی ہے نہ ہمارے لوگ ان کے ظلم کا شکار ہیں۔ طیب اردگان کا ترکی اب بھی اسرائیل سے سفارتی، تجارتی اور مالی تعلقات قائم کیے ہوئے ہے۔ نہ ملائیشیا کے سر میں درد ہے نہ مصر کی چیخیں نکلتی ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ”Beggars Can not be Choosers“
تم عمران خان اور جنرل باجوہ سے کیا چاہتے ہو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments