بہرے، گونگے اور اندھے لوگوں کی کتھا


دیکھیں جناب! یہ کہانی ایک بڑے سے ٹولے کی ہے جس کے لوگ انوکھی بیماری میں مبتلا ہیں۔ جب اسی ٹولے کے ہوش رکھنے والے چند لوگوں میں سے کوئی اٹھ کھڑا ہو اور باقیوں کو بتلائے کہ ہم میں کچھ گڑبڑ ہے تو اس ٹولے کے سب سے زیادہ بیمار لوگ اسے بولنے والے کو غدار ہونے کا سرٹیفیکیٹ دے کر سنگین سزا سنا دیتے ہیں۔

اس سے پہلے کہ میں کہانی کو آگے بڑھاؤں، disclaimer  کے طور پر بتانا چاہوں گی کہ کہانی کا کسی موجودہ ملک یا معاشرے سے کوئی تعلق نہیں اور اگر آپ کو اسے پڑھنے کے بعد کوئی تعلق معلوم ہونے لگے تو یہ مماثلت محض اتفاقیہ ہو گی۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ یہ کہانی ایک گروہ کی ہے جس کو کوئی انوکھی بیماری لاحق ہے۔ اس بیماری اور اس سے جڑے چند عناصر کی بدولت اس گروہ کے مسائل پھیلتے ہی جا رہے ہیں۔ اس گروہ کے لوگوں کی دور کی نظر بہت تیز ہے۔ سات سمندر پار ہوتی ناانصافیوں کو بھی فوراً سے نوٹ کر لیتے ہیں اور ایسا حساس دل رکھتے ہیں کہ کسی لاکھوں میلوں دور ملک میں اگر کسی سیاہ فام کے ساتھ ناانصافی ہو جائے تو ان کی راتوں کی نیند حرام ہو جاتی ہے۔ یہ مخلص لوگ فوراً سے فیس بک اور ٹویٹر پر جاتے ہیں اور اپنی ڈی پی پر “Black lives matter” کا فریم لگا لیتے ہیں۔

پھر جلدی جلدی دو دو درجن پوسٹس ہر پلیٹ فارم پر اسی ٹرینڈ کے ساتھ چلا دیتے ہیں اور پوری دنیا کو بتلاتے ہیں کہ کس طرح اوروں کے ہاں انسانی حقوق کو پامال کیا جاتا ہے۔ ان لوگوں کی پاک زبانیں ہر وقت اپنی بڑائی اور پاکیزگی کا ورد کرتی ہیں اور سینئر بیمار حضرات ہر وقت یہ لیکچر دیتے ہیں کہ “ہم اس وجہ سے عظیم قوم ہیں کہ ہمارے ہاں حیا ہے جو سات سمندر پار نہیں”۔ سینئر بیمار صاحب فرماتے ہیں کہ جو خواتین کو مقام اس گروہ میں حاصل ہے وہ کہیں اور نہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس گروہ کا ماننا ہے کہ یہ اخلاقیات کے پاسبان ہیں اور جنت میں تشریف لے جانے والی اقلیت بھی یہی ہیں اور جنت چونکہ وسیع ہے اور اتنی قلیل تعداد میں لوگ جائیں گے تو غالباً وہاں خالی پن دکھے گا سو دوسروں کو اپنے ساتھ جنت میں لے جانے کے لئے یہ سوشل میڈیا کے مجاہدین دوسروں کے کمینٹ سیکشن اور ان باکس میں گھس گھس کر دوسروں کو اپنا سبق پڑھاتے ہیں۔

چلیں یہ سب تو ہو گئیں اس گروہ کی عظمت کی باتیں! لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اچانک سے اس گروہ کو اجتماعی دورے پڑنے لگتے ہیں۔ جب ان سے سوال کیا جائے کہ بھائی آپ کے ہاں تو اخلاقیات آسمانوں کو چھو رہی ہیں ناں تو یہ ایک دن میں دس دس بچوں کے ریپ کیسے؟ آپ کا گروہ پورن دیکھنے میں سرِ فہرست کیوں ہے بھائی؟ آپ کے گروہ میں تو خواتین کو بلند ترین مقام حاصل ہے ناں۔۔۔تو پھر ہر بات میں ماں اور بہن کی غلیظ گالی کیسی؟ جی میرے بھائی۔۔۔۔Black lives matter  لیکن کیا آپ کے گروہ کے آس پاس کی اقلیتوں کی زندگیاں matter نہیں کرتیں؟ کیا سات سمندر کا سیاہ فام اور آپ کے ہاں کے غرباء ایک جیسے مسائل کے شکار نہیں؟

جب اس گروہ سے ایسے سوالات کیے جائیں تو انھیں کوئی دورہ پڑنے لگتا ہے اور رنگ لال پڑ جاتا ہے۔ دماغ کام کرنا چھوڑ جاتا ہے۔ انھیں سنائی دینا بند ہو جاتا ہے اور دور کی نظر جہاں بہت تیز ہے وہیں قریب کی نظر اتنی کمزور کہ آس پاس کوئی ناانصافی نہیں دکھائی نہیں دیتی۔ صرف دور دور کی زیادتیاں ہی دکھتی ہیں۔ انھیں اردگرد کی آہیں بھی سنائی نہیں دیتیں، بس دور سے آتی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور ان کی زبانوں کے ساتھ بھی سنگین مسئلہ ہے کہ وہ اپنے قریبی لوگوں کے لئے کبھی نہیں بولتیں یا تو ہمیشہ دور دراز رہنے والوں کے حقوق کے لئے چلتی ہیں یا پھر ہر وقت اپنی بلند اخلاقیات کے ورد میں مگن رہتی ہیں۔

یہ گونگے، بہرے، اندھے لوگوں کی کہانی ہے جن کی زبان، سماعت اور بصارت دور دراز والوں کے لئے بہترین اور اپنوں کے لئے بنجر!

کوئی ہمدرد علاج کے لئے ان کے پاس آئے یا انھی میں سے کوئی اٹھ کھڑا ہو اور یہ کہے کہ یہ بیماری ہمیں منافق کر رہی ہے کہ ہمیں اپنے آس پاس والوں کی کبھی خبر ہی نہیں رہی اور ہم آئے ہیں مجاہد اور اوروں کے حقوق کے علمبردار تو پھر یہ پورا گروہ اس آواز اٹھانے والے کو دبا دینے پر تل جاتا ہے اور یوں یہ بہرے، گونگے، اندھے لوگ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments