پاکستان کے لیے افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب کی کیا اہمیت ہے؟


پاکستان اور افغانستان کے درمیان تقریباً 2500 کلو میٹر طویل سرحد ہے جہاں حکومتِ پاکستان کی جانب سے خاردار باڑ لگانے کا منصوبہ تکمیل کے مراحل میں ہے۔

پاکستانی حکومت کی جانب سے افغانستان کے ساتھ تقریباً 2500 کلو میٹر طویل سرحد پر خاردار باڑ لگانے کا منصوبہ تکمیل کے مراحل میں ہے۔ ماہرین اس باڑ کو مستقل میں سیکیورٹی کے خطرات سے مقابلہ کرنے کی حکمتِ عملی کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔

ڈیورنڈ لائن کے نام سے مشہور پاک افغان سرحد پر باڑ لگائے جانے کے منصوبے کی اہمیت امریکہ اور اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلا کے حالیہ اعلان کے تناظر میں مزید بڑھ گئی ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں برس 11 ستمبر تک تمام امریکی فوجی دستوں کو افغانستان سے واپس بلانے کا اعلان کر رکھا ہے۔

پاکستانی حکومت پرامید ہے کہ افغانستان کی نئی صورتِ حال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیکیورٹی کے ممکنہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے سرحد پر یہ باڑ حکومتی سیکیورٹی اداروں کے لیے بہت مددگار ثابت ہو گی۔

سرحد پر امن و امان کی صورتِ حال اور کرونا وائرس کے باوجود پاکستانی حکومت گزشتہ چار برسوں سے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے عمل میں مصروف ہے جو اب تکمیل کے مراحل میں ہے تاہم افغان حکومت اس باڑ کی تنصیب کی مخالف ہے۔

افغانستان کا مؤقف ہے کہ جب تک دونوں ممالک کے درمیان ڈیورنڈ لائن پر کوئی باقاعدہ فیصلہ نہیں ہوتا تب تک سرحد پر کسی قسم کا کوئی کام نہیں ہو سکتا۔

یاد رہے کہ برطانوی نو آبادیاتی دور میں سر مورٹیمر ڈیورنڈ کی سرکردگی میں قائم کمیشن نے 1893 میں برطانوی ہند اور افغانستان کی سرحد کا تعین کیا تھا۔

مبصرین کہتے ہیں اگرچہ اس سرحد پر کوئی جنگ نہیں ہوئی لیکن پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ یہ معاملہ بھی ہے۔

افغان میڈیا میں افغان حکومت کے حوالے سے سرحد پر باڑ کی مخالفت کی خبریں آتی رہتی ہے۔

چند ماہ قبل افغانستان کی وزارتِ خارجہ کے ‘سرحد پر باڑ کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دینے’ کے بیان پر پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے ایک اعلامیے میں واضح کیا تھا کہ پاک افغان سرحد کے ساتھ باڑ کی تنصیب پاکستان کی سلامتی کے لیے سنگین خدشات کی بنا پر کی جا رہی ہے۔

باڑ کیوں لگائی جا رہی ہے؟

دونوں ممالک کے مابین تقریباً 2500 کلو میٹر طویل سرحد ہے جس کا تقریباً 1229 کلو میٹر پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا جب کہ بقیہ حصہ صوبہ بلوچستان کے ساتھ لگتا ہے۔

کابل میں قائم ‘افغانستان انالسٹس نیٹ ورک’ نامی تھنک ٹینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاک افغان سرحد افغانستان کے ایک تہائی صوبوں سے منسلک ہے جب کہ سرحد پر 235 ایسے مقامات ہیں جہاں سے عوام، اسمگلرز اور شدت پسند غیر قانونی طور پر سرحد پار کرتے رہے ہیں۔

پاکستانی حکومت کی جانب سے 2014 میں شمالی وزیرستان سمیت سابق قبائلی علاقوں میں آپریشن کے بعد تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر شدت پسند تنظیموں نے اپنے ٹھکانے افغانستان کے سرحدی صوبوں کنڑ، خوست اور ننگرہار میں منتقل کر دیے ہیں۔

افغان حکومت سرحد پر باڑ کی تنصیب کی مخالفت کرتی آئی ہے۔
افغان حکومت سرحد پر باڑ کی تنصیب کی مخالفت کرتی آئی ہے۔

افغانستان میں پناہ لینے والی دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی اور دیگر پاکستانی شدت پسند تنظیموں اور کبھی کبھی افغان سیکیورٹی فورسز کی جانب سے سرحد پار مبینہ حملوں میں اضافے کو دیکھتے ہوئے پاکستانی حکومت نے 2017 میں سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔

لیکن اب وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے 11 اپریل کو کہا تھا کہ پاک افغان سرحد پر باڑ 90 فی صد مکمل ہو چکی ہے اور جون میں اس کی تکمیل متوقع ہے۔

پاک افغان سرحد پر باڑ کے اخراجات کا تخمینہ سرکاری سطح پر نہیں بتایا جا رہا۔ البتہ پاکستان فوج کے سابق ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے 2019 میں شمالی وزیرستان میں صحافیوں کی ایک ٹیم کو بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ اس منصوبے پر تقریباً 70 ارب روپے لاگت آئے گی جس میں باڑ کی تنصیب کے ساتھ ساتھ جدید سیکیورٹی آلات اور کیمروں کی تنصیب بھی شامل ہے۔

باڑ لگانے پر کتنے اخراجات آئیں گے؟

پاک افغان سرحد پر باڑلگانے کے اخراجات کا سرکاری سطح پر تخمینہ نہیں بتایا جا رہا ہے۔ البتہ افواجِ پاکستان کے سابق ترجمان لیفٹننٹ جنرل آصف غفور نے 2019 میں شمالی وزیرستان میں صحافیوں کی ایک ٹیم کو بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ اس منصوبے پر تقریباً 70 ارب روپے لاگت آئے گی جس میں باڑ کی تنصیب کے ساتھ ساتھ جدید سیکیورٹی آلات اور کیمروں کی تنصیب بھی شامل ہے۔

باڑ کی تنصیب

سرحد پر لگائی جانے والی خار دار تاروں سے بنائی گئی باڑ پاکستان کی جانب سے 11 فٹ بلند ہے جب کہ افغانستان کی جانب سے اس کی اونچائی 13 فٹ ہے۔ ان دونوں باڑوں کے درمیان 6 فٹ کا فاصلہ ہے جس میں خار دار تاروں کا جال ڈال دیا گیا ہے۔

خیبرپختونخوا کے ساتھ متصل افغان سرحد کی لمبائی 1229 کلو میٹر ہے۔ صوبے میں سب سے لمبی پاک افغان سرحد ضلع چترال کے ساتھ لگتی ہے جہاں اس کی لمبائی 493 کلو میٹر ہے جس میں سے 471 کلو میٹر سرحد انتہائی بلندی پر واقع اور گلیشیائی علاقوں سے گزرتی ہے۔

دیگر اضلاع میں پاک افغان سرحد کی لمبائی دیر پائیں میں 39 کلو میٹر، باجوڑ میں 50 کلو میٹر، مہمند میں 69 کلو میٹر، خیبر میں 111 کلو میٹر، کرم میں 191 کلو میٹر، شمالی وزیرستان میں 183 کلو میٹر اور جنوبی وزیر ستان کے ساتھ 94 کلو میٹر ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں پارہ چنار میں گاوی سرحد پر تعینات ایک اہلکار جمشید خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سرحد پر باڑ لگانے کے ساتھ ساتھ نگرانی کے لیے سیکڑوں چھوٹے چھوٹے قلعے اور چوکیاں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔

اُن کے بقول “ان قلعوں اورچوکیوں میں جدید ترین ٹیکنالوجی جیسے نگرانی کا الیکٹرانک نظام، کلوز سرکٹ اور ڈرونز کیمروں کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔”

بلوچستان کی حدود میں آنے والی سرحد پر فرنٹیئر کور (ایف سی) نے 2013 میں 11 فٹ گہری اور 14 فٹ چوڑی خندقیں یا کھائی) کھودنے کے منصوبے پر کام شروع کیا تھا جو 2016 میں مکمل کر لیا گیا تھا۔

البتہ خندقوں کے بعد اب خیبرپختونخوا کی طرح بلوچستان میں بھی پاک افغان سرحد پر خاردار باڑ لگائی جا رہی ہے جو تکمیل کے مرحلے میں ہے۔

افغانستان سے امریکی انخلا

اسلام آباد میں تعینات عسکری نمائندے اور تجزیہ کار پاک افغانستان سرحد پر باڑ لگانے کے منصوبے کو پاکستانی حکومت کے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا پر کسی بھی قسم کے سلامتی کے خطرات سے مقابلہ کرنے کی حکمت عملی کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔

اسلام آباد میں تعینات ایک سینئر عسکری اہلکار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستانی حکام کئی برسوں سے امریکہ، طالبان مذاکرات اور اس کے نتیجے میں افغانستان سے امریکی و اتحادی افواج کے انخلا کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں۔

افغانستان کے امور سے واقف سینئر عسکری اہلکار کے بقول “40 برس قبل سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا کی طرح امریکی افواج کے انخلا کے خطے اور بالخصوص پاکستان پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔”

ان کا کہنا ہے کہ یوں تو افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاکستان کو متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا مگر سرحد پار حملے اور مہاجرین کی آمد وہ سنگین مسائل ہیں جن کا تدارک سرحد پر باڑ لگانے سے ہی ممکن ہو گا۔”

باضابطہ سرحدی راستے

حالیہ برسوں میں پاکستان نے باڑ لگانے کے ساتھ افغانستان کے ساتھ باضابطہ سرحدی راستے (یا بارڈر کراسنگ پوائنٹس) بھی کھولے ہیں۔

اپریل میں پاکستان کے پارلیمانی سیکریٹری برائے داخلہ شوکت علی نے قومی اسمبلی کو آگاہ کیا تھا کہ افغانستان کے لیے تجارتی مقصد کے لیے چھ باضابطہ سرحدی راستے فعال ہیں جن میں خیبرپختونخوا میں طورخم (خیبر)، انگور اڈہ (جنوبی وزیرستان)، غلام خان (شمالی وزیرستان) اور خرلاچی (کرم)۔ اسی طرح بلوچستان میں چمن (قلعہ عبداللہ ) اور بادینی (قلعہ سیف اللہ ) شامل ہے۔

پاکستان امریکہ کے افغانستان سے انخلا کی صورت میں پیدا ہونے والی صورت حال کے نتیجے میں مہاجرین کی آمد کی نئی ممکنہ لہر سے شدید پریشان ہے۔ (فائل فوٹو)
پاکستان امریکہ کے افغانستان سے انخلا کی صورت میں پیدا ہونے والی صورت حال کے نتیجے میں مہاجرین کی آمد کی نئی ممکنہ لہر سے شدید پریشان ہے۔ (فائل فوٹو)

شوکت علی کے مطابق خیبرپختونخوا کے ضلع باجوڑ میں واقع نواپاس اور ضلع مہمند میں واقع گورسل سرحدی راستے سیکیورٹی کی وجہ سے فی الحال فعال نہیں کیے گئے۔

سرحد پار حملے

پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک اپنے ہاں ہونے والے دہشت گرد حملوں کا الزام سرحد پار چھپے ہوئے شدت پسندوں پر عائد کرتے رہے ہیں۔

پاکستانی حکام اور سیکیورٹی کے ماہرین افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاکستانی شدت پسند تنظیم ‘ٹی ٹی پی’ کی جانب سے سرحد پار حملوں میں اضافے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ حکام کے بقول سرحد پر باڑ حملے روکنے یا کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔

حالیہ مہینوں میں کالعدم ‘ٹی ٹی پی’ اپنے ناراض دھڑوں، لشکرِ جھنگوی اور القاعدہ سے وابستہ چند گروہوں کی شمولیت کے بعد مزید منظم ہوئی ہے۔ دہشت گرد تنظیم نے سابق قبائلی اضلاع میں سیکیورٹی فورسز اور قبائلی عمائدین پر حملوں کی تعداد بھی بڑھا دی ہے۔

اسلام آباد میں قائم پاک انسٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2020 میں افغانستان سے پاکستان کی حدود میں 11 سرحد پار حملے ہوئے ہیں جن میں 12 عام شہری اور سات سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔

البتہ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی سینکشن مانیٹرنگ ٹیم کی فروری میں جاری کردہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی نے 2020 میں جولائی سے اکتوبر کے دوران سرحد پار سے 100 حملے کیے۔

رواں ماہ پانچ مئی کو صوبہ بلوچستان کے سرحدی ضلع ژوب میں سرحد پار سے مبینہ فائرنگ کے نتیجے میں پاکستانی فوج کی فرنٹیئر کور (ایف سی) کے چار اہلکار ہلاک اور چھ زخمی ہوئے تھے۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے مطابق افغانستان کی جانب سے دہشت گردوں نے گھات لگا کر اس وقت حملہ کیا تھا جب ایف سی اہلکار پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے میں مصروف تھے۔

بلوچستان حکومت کے دعوے کے مطابق 26 اپریل کو ضلع قلعہ عبداللہ میں سرحد پر باڑ لگانے کے کام کے دوران افغان فورسز کی جانب سے رکاوٹ ڈالنے پر ہونے والی جھڑپ میں پاکستانی اہلکاروں نے افغان فوج کی ایک امریکی ساختہ ’ہیم وی‘ گاڑی قبضے میں لے لی تھی۔

رواں برس فروری میں باجوڑ میں افغانستان سے داغے گئے راکٹوں کی وجہ سے ایک پانچ سالہ بچی ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔

بلوچستان کے وزیرِ داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگائے جانے کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔

ان کے بقول “سرحد پار سے دہشت گردی کو روکنے کا واحد حل پوری سرحد کو باڑ لگا کر بند کرنا تھا جس کی بعض حلقوں کی جانب سے مخالفت کی جا رہی تھی۔”

مہاجرین کی آمد اور باڑ کا کردار

پاکستان امریکہ کے افغانستان سے انخلا کی صورت میں پیدا ہونے والی صورت حال کے نتیجے میں مہاجرین کی آمد کی نئی ممکنہ لہر سے شدید پریشان ہے۔

پاکستان پہلے ہی ملک میں آباد 27 لاکھ افغان مہاجرین کو اپنی معیشت پر بوجھ اور مکمل امن کے قیام میں ایک رکاوٹ قرار دیتا ہے اور ان کو بار بار جلد واپس جانے کی ہدایت کرتا رہتا ہے۔

پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے حال ہی میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ “ہم نے ابھی تک 27 لاکھ افغان مہاجرین کو پاکستان میں پناہ دی ہوئی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ مہاجرین با عزت طریقے سے اپنے ملک واپس چلے جائیں کیوں کہ ہم ایک اور انفلکس نہیں چاہتے چنانچہ اس لیے بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔”

اقوامِ متحدہ کے ایک ادارے سے وابستہ ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ “پاکستان پر امید ہے کہ سرحد پر باڑ لگنے سے افغان مہاجرین کی نئی متوقع لہروں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

ان کے بقول، “ساتھ ہی ساتھ پاکستانی حکومت احتیاطً سرحد کے قریب ہی مہاجرین کیمپ قائم کرنے کی حکمتِ عملی پر غور کر رہی ہے۔

منقسم قبائل اور کاروبار

پاک افغان سرحد کے دونوں اطراف آباد منقسم پختون قبائل کی جانب سے بھی باڑ لگانے کی مخالفت کی گئی ہے۔

بلوچستان کے سرحدی قصبے چمن کے ایک قبائلی رہنما حافظ جان اللہ کا کہنا ہے کہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے سے سرحد کے دونوں طرف رہنے والے قبائل تقسیم ہو جائیں گے۔

ان کے بقول “سرحد کے دونوں طرف رہنے والے خاندانوں کے ایک دوسرے سے رشتے ہیں جب کہ وہاں لوگوں کی کئی صدیوں سے زمینیں بھی ہیں۔”

ان کا کہنا ہے کہ باڑ لگانے سے رشتہ داروں کا آپس میں ملنا جلنا نا ممکن ہو جائے گا۔

ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار مولانا خان زیب کا کہنا ہے کہ صرف باجوڑ میں افغانستان کے ساتھ چھوٹے بڑے 26 راستے تھے جہاں سے سرحد پار آباد قبائل 2005 تک آزادانہ اور پرامن طریقے سے تجارت اور آمد و رفت کرتے تھے۔

ان کے بقول، “بدامنی اور چند برسوں سے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے سے یہ تمام راستے مکمل طور پر بند ہو گئے ہیں اور تجارت بند ہونے کی وجہ سے مقامی قبائل روزگار کے لیے کراچی اور ملک کے دیگر شہر ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔”

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments