جرمن جریدے اسپیگل کے ساتھ افغان صدر اشرف غنی کا انٹرویو


(یہ انٹرویو 6 مئی کو جرمن جریدے اسپیگل میں شائع ہوا تھا) ۔

https://www.spiegel.de/international/world/interview-with-afghanistan-president-ashraf-ghani-i-know-i-am-only-one-bullet-away-from-death-a-82dc3dd6-3c27-4f93-97c9-d6cddf0cd117

اسپیگل : جناب صدر، ریاستہائے متحدہ امریکہ نے آپ کی شمولیت کے بغیر طالبان کے ساتھ صلح کرلی ہے اور اب وہ افغانستان سے چلے جا رہے ہیں، کیا آپ کو دھوکہ نہیں لگتا؟

صدر غنی : اس میں دھوکہ کیا ہے؟ مسٹر بائیڈن کی انتظامیہ نے ایک تزویراتی فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنے فوائد کی جانچ کی ہے اور ان کی وضاحت کی ہے۔ میں اس فیصلے کا احترام کرتا ہوں۔ کسی بھی طرح کے غصے، نفرت اور مایوسی کا اظہار مددگار نہیں ہو گا۔ میں نے کبھی بھی امریکی فوجیوں کی واپسی کی مخالفت نہیں کی ہے اور نہ ہی میں نے افسوس میں کوئی وقت ضائع کیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مستقبل میں ہمارے مشترکہ مفادات کیا ہیں اور ہم ریاستہائے متحدہ کے ساتھ اپنی شراکت کو کس طرح نئی شکل دیں گے۔

اسپیگل : امریکی تعاون کے بغیر، آپ کی حکومت کب تک طالبان سے مزاحمت کر سکتی ہے؟

صدر غنی : ہمیشہ کے لئے! ایک کام جو میں نے کیا وہ تھا اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے اپنی افواج تیار کرنا۔ ہم نے ابھی بھی مئی میں حملوں کی پہلی لہر کی موثر طریقے سے مزاحمت کی ہے، لیکن کیا آپ اس کے بارے میں لکھیں گے (اپنے میگزین میں )؟ ہم دفاع کر سکتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ابہام تھا کہ امریکی چلے جائیں گے یا رہیں گے؟ یہ ابہام دو سال تک جاری رہا۔ اب واضح ہے، ایک نیا باب شروع ہونے جا رہا ہے اور کھیل کے نئے قواعد لاگو ہوتے ہیں۔

German journalist Susanne Koelbl from Der Spiegel Magazine interviews Afghan President Ashraf Ghani in Kabul.

اسپیگل : کیا یہ 1990 کی دہائی طرز پر خانہ جنگی کا آغاز ہے؟ جیسے سوویت یونین کا انخلا ہوا تھا؟

صدر غنی : خانہ جنگی کے امکانات موجود ہیں، لیکن صورتحال میں مزید اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔ آپ جانتے ہے، جب 2014 میں ریاستہائے متحدہ اور انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس (آیساف) کے جنگی مشن کا اس سال باضابطہ طور پر خاتمہ ہوا اور وہ ایک تربیتی مشن میں تبدیل ہو گیا، تو سب نے سوچا کہ جمہوریہ گر جائے گی، لیکن ہم جیت گئے۔ نوٹ کریں کہ یہ سب ایک روایت کا حصہ ہے افغانستان میں جتنا عدم استحکام کا منظر وسیع ہوتا جائے گا، ہمیں اتنا ہی تشدد کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اسپیگل : کابل میں ملک کے اشرافیہ کثیر الجماعتی ریاستی کونسل تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں جو نہ صرف امن عمل، بلکہ طالبان کے خلاف مزاحمت کو بھی منظم کرے گی، کیا آپ کے خیال میں یہ فائدہ مند ہوگا؟

صدر غنی : یہ کونسل تشکیل دی جا رہی ہے اور میں اپنی پوری صلاحیت سے اس کی حمایت کرتا ہوں۔ امن عمل بنیادی منظر نامہ ہے۔ اگر طالبان یہ سمجھ جاتے ہیں کہ وہ افغان حکومت کا تختہ پلٹ نہیں سکتے ہیں، تو پھر انہیں امن کے ایک غالب منظر نامے کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

اسپیگل : کیا آپ اب بھی امن عمل پر یقین رکھتے ہیں؟

صدر غنی : امن سے متعلق پہلا فیصلہ علاقائی سطح پر کیا جائے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک حساس اور غور و فکر کے لمحے میں ہیں۔ پہلا مسئلہ اس عمل میں پاکستان کی شمولیت کا مسئلہ ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ اب ایک جزوی کردار رکھتا ہے۔ امن اور دشمنی کا معاملہ اب پاکستان کے ہاتھ میں ہے۔

Afghan President Ashraf Ghani is interviewed by German journalist Susanne Koelbl from Der Spiegel Magazine in Kabul.

اسپیگل : پاکستانی حکومت کا طالبان کی جنگ پر کیا اثر و نفوذ ہے؟

صدر غنی : پاکستان نے (طالبان کی) حمایت کا ایک منظم نظام تیار کیا ہے۔ طالبان پاکستان میں لیس ہوتے ہیں اور مالی اعانت اور بھرتی کا نظام رکھتے ہیں۔ طالبان کے فیصلہ سازی کے مختلف ڈھانچے (کوئٹہ شوریٰ، میرامشاہ شورہ اور پشاور شوریٰ) کے نام ان شہروں کے نام ہیں جہاں پر طالبان کے مراکز قائم ہیں۔ پاکستانی حکومت کے ساتھ ان کے گہرے تعلقات ہیں۔

اسپیگل : ماضی میں امریکیوں نے طالبان کے اثر و رسوخ کو کمزور کرنے کے لئے پاکستان میں مداخلت کیوں نہیں کی؟

صدر غنی : آپ کو امریکیوں سے یہ سوال پوچھنا چاہیے۔ میں آپ کو تجربے سے بتا سکتا ہوں کہ انہوں نے (امریکی فوج) اپنی رسد اور نقل و حمل کے لئے پاکستان پر بہت زیادہ انحصار کیا۔

اسپیگل : اب جب پاکستان اپنے مقصد کے قریب ہے اور جلد ہی وہ طالبان کے توسط سے کابل میں سیاست کی سمت کا فیصلہ کرے گا تو اسے اپنی مستقل حکمت عملی میں کیوں تبدیلی لانا چاہیے؟

صدر غنی : جب میں نے کل پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے ملاقات کی تو انہوں نے مجھے یقین دہانی کرائی کہ طالبان امارت یا آمریت کی واپسی خطے کے کسی بھی ملک بالخصوص پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ اگرچہ انہوں نے کہا کہ فوج کے نچلے حلقے اب بھی کچھ معاملات میں الٹ ذہنیت رکھتے ہیں، لیکن اصل مسئلہ سیاسی ارادے کی عملی تشکیل کا ہے۔ ( یعنی پاکستانی فوج کے نچلے طبقے سے زیادہ یہ بات فوج کے پالیسی سازوں پر منحصر ہے )

Taliban fighters drive on a road of Khogiani district and display their flag.

اسپیگل : پاکستان کے آرمی چیف کے ہمراہ برطانوی جنرل نک کارٹر بھی تھے۔ طالبان پر قابو پانے میں لندن کا کیا کردار ہے؟

صدر غنی : جنرل کارٹر ہمارا مشترکہ دوست ہے۔ میں اسے دس برس سے جانتا ہوں، چونکہ وہ قندھار میں ایساف افواج کا کمانڈر تھا۔ وہ ایک بہت ہی دلچسپ آدمی ہے۔ تاریخ میں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خاص افراد بحران کی صورتحال میں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔

اسپیگل : کیا افغانستان اور پاکستان کے مابین سیکیورٹی معاہدہ مستقبل میں امن کی کلید ثابت ہو سکتا ہے؟

صدر غنی : ہاں، یہ اہم ہو سکتا ہے، لیکن میرا مقصد افغانستان کو غیرجانبدار بنانا ہے۔ ہم نئی معاون قوت نہیں چاہتے اور ہم علاقائی اور عالمی دشمنیوں کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔

اسپیگل : اگر آپ مستقبل میں طالبان کے ساتھ حکومت کا اشتراک کرتے ہیں تو، ایک مشترک حکومت کے تحت معاشرہ کیسا نظر آئے گا؟ کیا مرد ایک بار پھر لمبی داڑھی بڑھنے پر مجبور ہوجائیں گے اور خواتین کو گھروں سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوگی؟

صدر غنی : یہ طالبان سے پوچھئے! ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ طالبان افغان نوجوانوں کو زبردستی سرنڈر نہیں کر سکتے۔

اسپیگل : پچھلے پانچ برس میں افغانستان میں جو بہتری آئی ہے اسے جلد ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر، طالبان نے قندوز پر حملے میں صرف ایک ہی رات میں تمام اداروں، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو لوٹ لیا۔ کیا جرمن مسلح افواج سمیت مغربی تعمیر نو کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں؟

صدر غنی : میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خواتین یہاں اپنے حقوق سے محروم نہیں ہوں گی اور ان کی نمائندگی کے لئے غیر ملکی مشیروں کی ضرورت نہیں ہے۔ قومی اداروں میں خواتین کا حصہ 30 ٪ پر مشتمل ہیں، 68 ٪ سرکاری ملازمین جوان، خواندہ اور 40 سال سے کم عمر کے افراد ہیں۔ ہماری فوج رضاکار ہے۔ افغان کمیونٹیز نے آپس میں ایک وسیع بحث شروع کردی ہے اور آزاد فیصلے کر رہی ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ معاشرے میں شعور کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

اسپیگل : اور اگر طالبان برسر اقتدار آئے تو کیا ہمسایہ ممالک اور یورپی ممالک ایک بار پھر 1990 کی دہائی یا قریب پانچ سال پہلے کی طرح، نقل مکانی کی نئی لہر کے لئے خود کو تیار کریں گے؟

صدر غنی : سانحہ کی یہ روایت ختم ہونی چاہیے۔ سانحہ کی ان روایات کے بارے میں میڈیا جتنا زیادہ باتیں کرتا ہے، اتنا ہی لوگوں کو ملک چھوڑنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ میڈیا کو اس کے بجائے یہاں موجود مثبت مواقع کی وضاحت کرنی چاہیے، یہاں تک کہ مشکل اور جنگ سے دوچار حالات میں بھی۔ (تاکہ ہجرت کی وجہ سے جنم لینے والے عظیم انسانی سانحہ سے بچا جا سکے جو کہ سب کے لیے نقصان دہ ہے )

اسپیگل : کیا آپ کے پاس ان مثبت مواقع کی کوئی مثال موجود ہے؟

صدرغنی : کیوں نہیں؟ افغانستان دنیا میں خشک میوہ جات کا سب سے بڑا پروڈیوسر ہے۔ زیادہ تر وقت، یہ پاکستان اور پھر چین میں پروسیسنگ کے لئے اسمگل کیا جاتا تھا۔ اب ہم اسے ترک ائر لائنز کے ساتھ معاہدے کے تحت براہ راست جرمنی بھیجتے ہیں۔ پچھلے تین برس میں، ہم نے بہت سے باصلاحیت نوجوانوں کو تربیت دی ہے جو دنیا سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔ ہم ملک کو ڈیجیٹلائز کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ملازمت کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں اور کام کا مطلب استحکام ہوتا ہے۔

President Ashraf Ghani, in a library in The Arg, the Presidential Palace in Kabul.

اسپیگل : یورپین، خصوصاً جرمن، امن عمل میں طالبان کی مدد کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟

صدر غنی : بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان آخر کار ایک ریاست ہے اور اس ریاست کو اب ایک اہم فیصلہ کرنا ہوگا۔ جرمنی کے واضح پیغامات اور حوصلہ افزائی اس ضمن میں مدد کر سکتی ہے۔ اور اگر وہ توقع کے بر عکس دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے تو، انھیں پابندیاں عائد کرنا چاہیے۔ بطور یورپین آپ خود کو محض مبصر نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ آپ اس کوشش کا براہ راست حصہ بھی ہیں۔

اسپیگل : کیا آپ مغربی تنظیموں کے مقامی ملازمین کو طالبان کے ہاتھوں ہلاک ہونے سے بچا سکتے ہیں؟ یا شیعہ اقلیت جسے کافر سمجھا جاتا ہے اور اسے خطرہ لاحق ہے؟

صدر غنی : ہم اپنی سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ یورپ جائیں گے، لیکن ہم انہیں ایسا کرنے کی ترغیب نہیں دیتے ہیں۔ جرمنی کی چانسلر انگیلا میرکل نے یورپ میں مہاجرین کو قبول کرنے اور انضمام کے بحران میں اپنی مضبوط قیادت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس نے یورپ کی انسان دوست اور آئینی اقدار کو برقرار رکھا۔ ہم اس کی تعریف کرتے ہیں، لیکن یہاں رہنے والوں کے لیے، ہمیں یہ واضح کرنا ہوگا کہ یونان، ترکی یا بحیرہ روم میں ہجرت کرنا آسان نہیں ہے۔ جس نے بھی کولیشن فورسز کے ساتھ کام کیا ہے، ہم انہیں یہاں رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ وہ وہاں کیا کریں گے؟ افغانستان کو مستحکم کرنے میں جتنا آپ ہماری مدد کریں گے، وہاں (آپ کے ممالک میں ) کم پناہ گزین ہوں گے۔

اسپیگل : آخر کار کون سی چیز ہے جو طالبان کو امن کی طرف راغب کرے گی؟

صدر غنی : ویسٹرن ڈپلومیسی کو ہر صورت میں ان کے سر سے دست شفقت اٹھانا چاہیے۔ طالبان مجرم ہیں۔ انہوں نے بے گناہ لوگوں کو ہلاک کیا، حال ہی میں انہوں نے کابل کے دشت برچی کے علاقے میں لڑکیوں کے اسکول پر حملہ کیا، جس میں پچاسی افراد ہلاک ہو گئے۔ متبادل حکومت کی حیثیت سے ان مجرموں پر اعتماد نہ کریں۔

Afghan President Ashraf Ghani, photographed in a library in The Arg, the Presidential Palace in Kabul.

اسپیگل : طالبان کا دعوی ہے کہ انہوں نے یہ حملہ نہیں کیا، ان کا موقف ہے کہ یہ دولت اسلامیہ (آئی ایس آئی ایس) کا کام ہے۔

صدر غنی : آپ جانتے ہیں کہ زیادہ تر وقت میرا دل سخت ہوتا ہے، لیکن اس جرم نے مجھ پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ طالبان نے ان جرائم کی راہ ہموار کردی ہے، اور ان کے دعوی کے بر عکس، ان کے القاعدہ کے ساتھ تعلقات منقطع نہیں ہوئے ہیں۔ وہ اس (حملے ) کے ذمہ دار ہیں۔

اسپیگل : اگرچہ ملک میں زیادہ تر لوگ طالبان سے نفرت کرتے ہیں، لیکن آپ کی حکومت کو بھی عوام مسترد کرتی ہے۔ بدعنوانی ناقابل برداشت ہے، 50 ٪ افغان اب بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ایسا کیوں ہے؟

صدر غنی : حکومت کے بارے میں شکایت کرنا لوگوں کا حق ہے، لیکن ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ بحران کے شکار ملک میں بدعنوانی کی اصل وجہ اعتماد کا فقدان ہے۔ جب لوگ یہ سوچتے ہیں کہ، ”یہ نظام کام نہیں کرتا ہے“ ، تو پھر وہ جس چیز کے بارے میں سوچتے ہیں وہ یہ ہے کہ کس طرح سے اپنے لئے کچھ حاصل کریں یوں لوگ کرپشن کی طرف راغب ہوتے ہیں۔

اسپیگل : کیا آپ سے بھی غلطیاں سرزد ہوئیں ہیں؟

صدر غنی : بیشتر بین الاقوامی رقم (امداد) افغان حکومت کو نہیں دی جاتی۔ معمولی بجٹ سے اس منصوبے پر عمل درآمد ہونے تک کچھ معاہدوں کو چھٹے ہاتھ پر فروخت کر دیا گیا تھا۔ ہم نے ایسے اداروں کو قائم کیا ہے جو بدعنوانی کے مقدمات کی سماعت کو یقینی بناتے ہیں۔ عدلیہ کام کرتی ہے۔ افغانستان میں بدعنوانی کا ایک حصہ مجرمانہ معیشت اور منشیات کی اسمگلنگ کا سبب ہے۔ یہ مت بھولنا کہ طالبان اور امریکہ کے مابین ہونے والے مذاکرات میں، جس کے نتیجے میں پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کیا گیا، اس فہرست میں منشیات کے 60 مشہور اسمگلروں کے نام بھی شامل تھے۔

اسپیگل : کیا آپ امریکہ اور طالبان کے مابین امن معاہدے کے لئے طالبان کے مطالبات ماننے پر نادم ہیں؟

صدر غنی: ہمیں بتایا گیا کہ یہ ہمیں امن کے قریب لائے گا، لیکن کیا تشدد کم ہوا ہے؟ نہیں! بلکہ یہ اور بڑھ گیا۔ مجھے امید ہے کہ بین الاقوامی شراکت دار اس سے سبق حاصل کریں گے۔

اسپیگل : اب، امن مذاکرات کی شرط کے طور پر، سات ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے، کیا آپ اس کو قبول کریں گے؟

صدر غنی : صرف اس صورت میں جب امن کا ایک جامع معاہدہ ہو۔

اسپیگل : افغانستان کے صدر کی حیثیت سے کام کرنا شیر کی پیٹھ پر سوار ہونے کے مترادف ہے۔ آپ کی ملازمت کی وجہ سے آپ پر کتنا دباؤ ہے؟

صدر غنی : میں آرام کرنے کے لئے ہر دن کم از کم ایک گھنٹہ مطالعہ کرتا ہوں۔ میں آج کل یورپ میں شہری حقوق کے تیسرے دور سے متعلق، نیز فارسی شاعری کے ایک مجموعہ پر ایک کتاب پڑھ رہا ہوں۔ نوعمری میں، میں نے پانچ ہزار اشعار حفظ کی تھیں، لیکن اب میرا ذہن دوسری چیزوں میں مصروف ہے۔

اسپیگل : آپ کو اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں ذاتی طور پر کتنا اعتماد ہے؟ کیا آپ کو یہ خدشہ ہے کہ اگر صورتحال مزید خراب ہو جاتی ہے تو آپ بھی آخری پرواز پر کابل سے چلے جائیں گے، اسی طرح جیسے امریکیوں نے ویتنام چھوڑ دیا تھا۔

صدر غنی : میں موت سے محض ایک گولی کی دوری پر ہوں! مجھ پر بہت حملے ہوئے، لیکن افغانستان جنوبی ویتنام نہیں ہے اور میں نے بغاوت میں اقتدار حاصل نہیں کیا۔ میں ایک منتخب صدر ہوں۔ میرے پاس کبھی امریکی گارڈز نہیں رہے اور نہ ہی میں امریکی ٹینکوں پر بیٹھ کر اقتدار تک پہنچا۔ میں نے صدارت سے پہلے 28 سال تک ایک انتہائی کامیاب پیشہ ورانہ زندگی گزاری، لیکن میں خوش نہیں تھا۔ دنیا کی کوئی طاقت مجھے جہاز پر سوار ہونے اور اس ملک سے نکلنے پر مجبور نہیں کرسکتی۔ میں اس ملک سے محبت کرتا ہوں اور اس کا دفاع کروں گا۔

اسپیگل : کیا آپ یہاں ہوں گے؟

صدر غنی : چاہے جو بھی ہو!

اسپیگل : جناب صدر، انٹرویو کے لئے آپ کا بہت بہت شکریہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments