بوڑھی ماں کی سسکیاں


رات کا ایک پہر بیت چکا تھا، کوری ڈور میں مریضوں کے اکا دکا لواحقین آ جا رہے تھے، گہرے اندھیرے میں برقی قمقموں کی سفید روشنیاں فضا کی فسوں خیزی کو مزید بڑھا رہی تھیں، سیکیورٹی گارڈز کی آنکھوں میں اترنے والی لالی نیند کی پیغام رسانی کا فریضہ سر انجام دے رہی تھی، وہ کبھی جمائیوں سے تو کبھی انگڑائیوں سے نیند کو دفع کرنے کی کوشش کرتے، مگر نیند کا غلبہ تو دار پر بھی ہو جاتا ہے، وہ بھی نیند سے مغلوب کر چند منٹ اونگھ لیتے اور پھر کسی کے قدموں کی آہٹ پا کر چوکس ہونے کی سعی کرتے مگر ہر بار مات کھا جاتے، کچھ لواحقین کرسیوں پر آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش مسلسل کر رہے تھے تو کچھ بینچوں پر نیم دراز ہو کر دن بھر کی تھکاوٹ رفع کرنے کے خواہش مند تھے، درویش اس وقت کارڈیالوجی کے ایک ستون کے ساتھ ٹیک لگائے یہ منظر دیکھ رہا تھا، یہ منظر کب تک کسی کو اپنی طرف متوجہ رکھ سکتا تھا جب کہ چھ سیڑھیوں میں زمین کی طرف سے دوسری سیڑھی پر بیٹھی ایک معمر خاتون، جس کے چہرے کی جھریاں اس کی بے بسی میں اضافہ کر رہی تھیں، کی سسکیاں جگر کو شق القمر کی طرح دو ٹکڑے کر رہی تھیں، غم و اندوہ کا ہمالہ اگر طاقت ور بھرپور جوانی پر بھی گر پڑے تو لاچاری کی کچھ انتہا نہیں رہتی، وہ تو پھر ایک بوڑھی عورت تھی، جس کے سارے بالوں میں چاندی اتر آئی تھی.
اس عورت کے پاس اس کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا اس کو تسلی دے رہے تھے، مگر الفاظ کی تسلی سے غموں کا مداوا نہیں ہوتا، اس ماں کا دل اپنے اس بیٹے کے ساتھ تھا جو انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ڈاکٹروں کی مدد سے موت کے ساتھ برسر پیکار تھا، اس دوران اس بوڑھی عورت کی سسکیاں برابر جاری رہیں، کبھی وہ سینہ کوبی کرتے ہوئے کہتی کہ مینوں چھڈ کے نہ جائیں، میں تیرے باہجوں زندہ نہیں رہنا (مجھے چھوڑ کے نہ جاتا، تمھارے جانے سے میں بھی زندہ نہیں رہوں گی) ، کبھی وہ خدا کے حضور ہاتھ دعا کے لیے اٹھا رہی تھی، مگر خدا تو دعاؤں کو قبول کرنے سے بے نیاز ہے، اس کے ہاں جذبات کا گزر نہیں، گزر اگر ہوتا تو وہ بھی بے چین ہو جاتا، یہ سارا منظر اس قدر دل دوز تھا کہ سینے میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں، آنکھوں سے گرمیوں میں پہاڑوں کے دامن میں بہنے والے چشمے رواں تھے، ٹانگیں جسم کا بوجھ اٹھانے سے انکاری ہو رہی تھیں، میں قدرے ستون کے سائے میں ہو گیا کہ اپنی بے بسی کو چھپا سکوں.
غم کی کیفیت کے دوران ایک عجب قسم کی حیرانی بھی تھی کہ نہ وہ بوڑھی عورت میری کچھ لگتی ہے اور نہ اس کے بیٹے سے کچھ آشنائی ہے، پھر بھی میں اتنا دکھی کیوں ہوں، یا حد سے حساسیت کا مظاہرہ کر رہا ہوں، پھر یہ بات یاد آئی کہ مائیں تو سانجھی ہوتی ہیں، کسی اجنبی کی ماں کا دکھ بھی کب دیکھا جاتا ہے، ستون کے سائے میں ابھی خود کو سہارا دے رہا تھا کہ اسٹریچر پر بے جان جسم کو کمبل سے ڈھانپے کارڈیالوجی کا عملہ ایمبولینس کی طرف جانے لگا، پاس گزرنے والوں میں سے ایک شخص دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ جاؤ اماں کو سنبھالو، مگر اب اماں کہاں سنبھلنے والی تھی جب کہ اس کا لعل ایسے سفر پر روانہ ہو چکا تھا جہاں سے واپسی کا اختیار کسی کو نہیں ہوتا، اب اس ماں کی سسکیاں بڑھ چکی تھیں، گمان ہوتا تھا کہ اگر سسکیاں نہ رکیں تو آسمان گر پڑے گا. ان لوگوں نے اپنی ماں کو گاڑی میں بٹھایا اور چل دیے، وہ چلے گئے مگر دکھ ایک ریلا میرے اوپر سے بہہ چکا تھا.
بار بار یہی سوچتا ہوں کہ وہ ماں اپنے بیٹے کو کھونے کے بعد کتنا عرصہ زندہ رہے گی، روح تو شاید اس ماں کی اسی وقت پرواز کر گئی تھی جب اس نے بیٹے کی موت کی خبر سنی تھی، اب تو فقط سانسیں چل رہی تھیں جن کو کسی وقت بھی تھم جانا تھا، یہ اولاد کا دکھ والدین کو قبروں میں پہنچا دیتا ہے، نہ جانے خدا نے والدین کے دل میں اولاد کی محبت اتنی زیادہ کیوں ودیعت کر دی ہے، والدین کو اگر اپنی اولاد کو کاندھا دینا پڑ جائے تو یہ محبت اذیت بن جاتی ہے جس چھٹکارا پانا اس دنیا میں ممکن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments