پنجابی سنگیت کے کنگ سردار گورمکھ سنگھ لالی المعروف بابا بوہڑ والا


ماسٹر قاسم قصور شہر سے پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر گاؤں ’بقاپور‘ میں رہتے ہیں۔ ان سے میرا فون پر نگار ویکلی کی وساطت سے کافی عرصے سے تعلق تھا۔ اکثر مجھے اپنے گاؤں میں آنے کا کہتے۔ گزشتہ سال نومبر کی پندرہ تاریخ کو میں لاہور سے براستہ قصور، بقاپور پہنچ گیا۔ میرا یہ سفر ایک خاص مقصد کے لئے تھا۔ مشرقی پنجاب کے جناب گورمکھ سنگھ لالی سے ٹیلی فون پر انٹر ویو کرنا تھا۔ یہ پنجابی زبان کے فلمی اور غیر فلمی گیتوں کے سب سے بڑے کلکٹر ہیں۔ ان کی سنگیت لائبریری میں ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی پنجابی فلمی اور غیر فلمی گیت بھی شامل ہیں۔ میں وہاں اتوار کو دوپہر کو پہنچا۔ ماسٹر صاحب نے لالی صاحب کو وہاٹس ایپ پر فون ملایا۔

لالی جی نے بتایا: ”ابھی پانچ بجے طوفان آیا۔ ایک گھنٹے مسلسل اولے بھی پڑے۔ سوال جواب تو اس وقت بھی ہو سکتے تھے لیکن ابھی میری بہن، بہنوئی اور بھانجے آئے ہوئے ہیں۔ پھر میرا نیٹ ختم ہونے والا ہے۔ میں کل صبح اس کا انتظام کروں گا۔ اس لئے انٹرویو کل کر لیں ”۔

” کتنے بجے؟“ میں نے کہا، ”میں تو بقا پور آپ ہی کے لئے آیا ہوں“ ۔

” چلیں آپ صبح نو بجے کے بعد فون کر لینا“ ۔ لالی صاحب نے جواب دیا۔ ”ماسٹر صاحب! طوفانی ہوائیں ایک سو پیس کلو میٹر کی رفتار سے چلی تھیں۔ کل دیوالی تہوار کا آخری دن تھا۔ ہم نے خوشی میں تین کلو بکرا بنایا تھا“ ۔

” واہ لالی جی! آپ تین کلو بکرا لائے تو میں تین کلو ’کٹا‘ لے کر آیا ہوں“ ۔ ماسٹر صاحب نے جواب دیا۔
” لالی جی! سنگیت سے پیار کرنے والے مہمان ہیں لاہور سے آئے ہیں“ ۔

” ویری گڈ، ویری گڈ! آپ کے مہمان آئے ہیں ان کی پوری ’سیوا‘ کرو۔ انہیں گجریلا کھلاؤ۔ ماسٹر جی گجریلے میں کاجو ڈالو، بادام پستہ ڈالو۔“ ۔

” یہ شاہد صاحب آپ کی گفتگو کا بڑا مزہ لے رہے ہیں ’رنگلے متر‘ ہیں جو کبھی کبھی ہی ملتے ہیں۔ ہنس رہے ہیں۔ ساتھ آپ کی گفتگو ریکارڈ کر رہے ہیں“ ۔

” کرنی چاہیے!“ ۔ لالی جی نے کہا، ”یہاں لائٹ نہیں ہے موجیں لگی ہوئی ہیں۔ ہا ہا ہا!“ ۔ سردار جی نے ہنستے ہوئے کہا۔ لالی صاحب کمال کی شخصیت ہیں۔ ان سے بات چیت کی خاص خاص باتیں پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش ہیں :

” ماسٹر صاحب کل میں نے لاؤڈ اسپیکر لگایا اور منور سلطانہ اور دوسرے پاکستانی کلاکاروں کے پنجابی گانے بجائے۔ ’چنی کیسری تے گوٹے دیاں دھاریاں۔‘ ، ’واسطہ ای رب دا توں جاویں وے کبوترا۔‘ ، ’چل چلئے دنیا دے اس نکرے جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہووے۔‘ ، ’جب توں مینوں یاد آوے گی۔‘ پرویز مہدی کا، ’چلے چلے پرے دی ہو اتے پو دا مہینہ۔‘ ، ایک نسیم بیگم کا بڑا تگڑا گانا لگایا، اور عاشق جٹ کا گانا۔ میرے گھر سے پانچویں گھر میں لڑکی کا بیاہ تھا اس کی خوشی میں یہ گانے لگائے تھے۔ آج دیوالی کے ساتھ ساتھ ’بابا وشماکرما‘ کا بھی دن ہے۔ اس دن سب دین مذہب والے ہر طرح کی مشینیں بند رکھتے ہیں۔ مشینوں کے مستری بھی اپنی دکانیں نہیں کھولتے۔ اپنے اوزاروں کو دھوپ لگاتے ہیں“ ۔

” آپ کے مہمان حیران ہو جائیں گے کہ پاکستان کی وہ چیزیں جو خود پاکستان کے کسی بھی کلکٹر کے پاس نہیں ہوں گی وہ گورمکھ سنگھ لالی کے پاس ہوں گی۔ ستارہ بائی / ستارہ دیوی انڈیا کی کتھک ڈانسر ہوئی ہے۔ اس نے صرف ایک ہی پنجابی گیت 1942 میں ریکارڈ کروایا تھا جو میرے پاس ہے۔ فلمی موسیقار اوپی نیر کی آواز میں پنجابی گانے کا ریکارڈ بھی ہے۔ یہ گراموفون ریکارڈ پاکستان میں کسی کے پاس نہیں ہو گا۔ اسی طرح سی ایچ آتما کا پنجابی ریکارڈ موجود ہے“ ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ”میرا جنم 1957 کا ہے۔ میرے گاؤں کا نام ’شیر سنگھ پورہ‘ ہے جو ضلع برنالہ میں واقع ہے۔ میں نے بی اے تک پڑھائی کی ہے۔ اور تیس سال ’پنجاب راج ساہو کاری بینک لمیٹڈ انڈیا، ڈویژن آفس بھٹنڈہ میں کام کیا۔ میری زیادہ تر سروس بھٹنڈہ کی ہے۔ کچھ وقت چندی گڑھ میں بھی سروس کی۔ پھر برنالہ شہر میں رہا۔ میں بینک منیجر کی حیثیت سے ریٹائر ہوا“ ۔

” مجھے باغبانی کا بہت شوق ہے۔ میں اب بھی پھولوں اور کیاریوں کی خود دیکھ بھال کرتا ہوں۔ میرے گھر کے درخت بھی میرے ہی لگائے ہوئے ہیں“ ۔

” کبھی زمینداری کی؟“ ۔

” جی ہاں! میرے پاس اسی نوے کلہ زمین تھی۔ میرے والد چیف منسٹر کے ساتھی تھے۔ لوک سیوا کی خاطر دس بیس کلہ زمین خراب بھی ہو گئی۔ اب بھی میرے پاس بتیس کلہ زمین ہے جس پر میں کھیتی باڑی کرتا تھا۔ اب میں نے وہ ٹھیکے پر دے دی ہے۔

ٹھیکے پر زمین دینے کا رواج پنجاب میں بہت ہو گیا ہے ”۔
” لالی جی! گراموفون ریکارڈ جمع کرنے اور موسیقی کا شوق کب اور کیسے ہوا؟“

” میرے والد صاحب لیڈر تھے۔ لیڈر کے لئے ریڈیو اور اخبارات سے با خبر رہنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اردو کا اخبار روزنامہ ’ہند سماچار‘ ، میرے والد برنالہ شہر سے منگواتے تھے۔ پھر ’قومی درد‘ ، جالندھر سے شائع ہونے والا روزنامہ ’اجیت‘ ، ماسٹر تارا سنگھ کا اخبار ’جتھے دار‘ ، ’کالی پترکا‘ اور کئی اور اخبارات بھی آتے تھے۔ اردو تو میں نہیں پڑھ سکتا تھا باقی اخبارات کی ورق گردانی کرتا اور بہت توجہ کے ساتھ لاہور، سری نگر، جالندھر، شملہ اور دلی کے ریڈیو اسٹیشن سنتا۔ میں نے یہاں سے جو گانے سنے وہ مجھ میں حلول کر گئے۔ یوں ریڈیو سے سنگیت کا شوق پیدا ہوا“ ۔

” اب تک سب سے مہنگا ریکارڈ کس کا اور کہاں سے خریدا؟“ ۔

” آج کل تو پنجابی ریکارڈ بھی بہت مہنگا مل رہا ہے۔ میں پندرہ، بیس اور بائیس ہزار کا ایک ریکارڈ بھی خریدتا رہا ہوں۔ ان میں انگلینڈ اور کینیڈا کے بنے ہوئے ریکارڈ بہت کم ہیں۔ ہندی میں ’اوڈین‘ ، ’پولی ڈور‘ کمپنی کے بنے ہوئے بھی پچیس ہزار کے خریدے ہیں۔ ہندی فلمی گیت بھی پندرہ بیس ہزار کے لئے تھے“ ۔

” آپ کے ہاں سب سے قدیم ترین گراموفون ریکارڈ کون سا ہے؟“

” میرے پاس سب سے قدیم گراموفون ریکارڈ۔ ’گوہر ہ جان‘ کی آواز میں ہے۔ پھر ہمارے سکھوں کے ’ارداس‘ کا گراموفون ریکارڈ، پھر ستارہ دیوی، سی ایچ آتما، او پی نیر اور ہمارے قومی لیڈر جنہوں نے ہماری آزادی میں حصہ لیا جس میں نہرو جی، لال بہادر شاستری جی، مہاتما گاندھی جی، ڈاکٹر رادھا کرشن وغیرہ کی آوازیں بھی“ ۔

” لالی صاحب! ہمیں بتائیں کہ آپ کے ریکارڈوں کے ذخیرے میں کتنے پنجابی اور کتنے اردو کے ہیں؟“ ۔

” میرے پاس سب سے زیادہ پنجابی کے گراموفون ریکارڈ ہیں۔ کیوں کہ جس دھرتی پر جنم لیا اس سے پیار کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بعد میرے پاس ہندی، پھر کلاسیکل۔ اردو میں مسلمان فنکاروں کی گائی ہوئی بڑی نایاب غزلیں بھی موجود ہیں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ اس لائبریری میں جو آئے وہ مایوس ہو کر نہ جائے۔ جو جس طرح کی چیز سننا چاہتا ہے میں اس طرح کی چیز سناتا ہوں۔ ہر طرح کا ’ای پی‘ ، اور ’ایل پی‘ ریکارڈ میری اس سنگیت لائبریری میں سنبھالا ہوا ہے“ ۔

اپنی-لائبریری-میں

” میرے پاس پندرہ ہزار پنجابی کے ریکارڈ ہوں گے۔ اس کے علاوہ دو تین ہزار پاکستان کے پنجابی نایاب ریکارڈ بھی پڑے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کو میں لاہور ریڈیو اسٹیشن سے سنتا تھا۔ ایک دلچسپ بات یاد آئی۔ میرے پاس پاکستان سے ایک میوزک ڈائریکٹر آیا، افسوس کہ اس کا نام یاد نہیں، وہ میری سنگیت لائبریری دیکھ کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ ہمارے ہاں کے ریکارڈ کلکٹروں

کے پاس انڈیا والے پانچ دس ریکارڈ ہوں گے۔ لیکن آپ نے کمال کر دیا کہ پاکستان کے نایاب ریکارڈ سنبھالے بیٹھے ہو! میری کوشش ہوتی ہے کہ چاہے پاکستان کا ہو، کینیا میں بیٹھا ہے، کینیڈا یا انگلینڈ میں ہے جس نے اچھا گایا ہے وہ ریکارڈ میرے پاس ہو۔ کیوں کہ سنگیت میں کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ جو پنجابی زبان میں گاتا ہے اس کی آواز کا سنبھالنا بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ پھر یہ آواز نہیں ملے گی ”۔

” ایک نایاب گراموفون ریکارڈ ٹوٹ جائے تو اس کے ساتھ تین چار لوگوں کی موت ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ اب نہ وہ گانے والا رہا، نہ سنگیت کار اور نہ ہی وہ گیت نگار، چوتھی کمپنی ختم ہو گئی پانچویں میری طرح کوئی اس گراموفون کو سنبھالنے والا نہ رہا تو پھر سب غائب۔ مدعا ختم“ ۔

” سردار جی! آپ کی سنگیت لائبریری میں پیش آنے والا کوئی دلچسپ واقعہ؟“ ۔

” بٹھنڈہ کے نوجوان ایس ایس پی سنگیت کو پیار کرنے والے تھے۔ وہ کبھی کبھی میرے پاس گیت سننے آتے اور ہمیشہ نیچے بیٹھ کر گیت سنتے۔ انہوں نے مجھے محمد رفیع صاحب کی گائی ہوئی بہت ہی نایاب ’ہیر‘ کا 78 آر پی ایم کا گراموفون ریکارڈ دیا کہ اس کا صحیح ٹھکانہ آپ کی یہ سنگیت لائبریری ہے۔ وہ سنگیت کے بارے میں بہت معلومات رکھتے تھے۔ مجھ سے پوچھا کہ کیا میرے پاس ’شوھبا لکشمی‘ کا کوئی ریکارڈ ہے؟ یہ دکن کی ایک کلاسیکل کلاکارہ گزری ہیں۔

میں نے ان کے پنجابی میں گائے ہوئے چار ’شبدھ‘ گراموفون ریکارڈ نکال کر سنوائے۔ 1969 میں گرو نانک کے پانچ سو سالہ جنم دن کے سلسلے میں ’ایچ ایم وی‘ نے وہ ریکارڈ بنائے تھے۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ میں جب بھی ان سے ملنے بٹھنڈہ جاتا تھا۔ بس ان کے دفتر میں اتنا ہی بتانا کافی ہوتا تھا کہ لالی جی آئے ہیں۔ وہ فوراً مجھے اپنے دفتر میں بلوا کر عزت دیتے تھے ”۔

” لالی جی ذرا بتائیں کہ نامور موسیقار او پی نیر اور سی ایچ آتما نے کون سے پنجابی گیت گائے تھے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” او پی نیر نے گرو گرنتھ صاحب میں ہماری گورومانی کے بابا فرید کے سلوک گائے ہیں۔ وہ لاہور کی ریکارڈنگ ہے۔ سی ایچ آتما کا بھی میرے پاس پنجابی ریکارڈ ہے۔ ان کے علاوہ کچھ ایسے کلاکاروں کے کئی ایک نایاب ریکارڈ ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگوں کو علم نہیں“ ۔

” لالی صاحب! اس سنگیت خزانے کے سلسلے میں آپ کو کوئی قومی سطح کا ایوارڈ ملا؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” میں پنجاب کا پہلا بھگتی ہوں جسے گیت سنبھالنے پر ہماری پنجاب حکومت نے 2013 میں سرکاری ایوارڈ دیا۔ اس میں گیارہ ہزار روپے اور سونے کا تمغہ شامل تھا۔ میرا نام انڈیا کی ’لمکا بک آف انڈین ریکارڈ‘ میں درج ہے۔ پنجابی کے مہان کلاکار ہربھجن سنگھ پاکستان میں پیدا ہوئے انہوں نے ملتانی کافیاں بھی گائی ہیں۔ وہ خاص مجھ سے ملنے میرے گاؤں آئے۔ وہ بتا رہے تھے کہ انہوں نے ایچ ایم وی مال روڈ لاہور میں یہ ریکارڈنگ کی تھیں۔ ہربھجن سنگھ کے وہاں بائیس گراموفون ریکارڈ بنے تھے۔ کچھ گورومانی کے، کچھ دھارمک اور دو لوک رنگ والے۔ وہ بائیس ریکارڈ کینیڈا، امریکہ اور انگلینڈ کہیں نہیں ملے۔ خود ان کے اپنے ریکارڈ پیرس کی سنگیت لائبریری میں منتقل ہو گئے۔ ان کے وہ ریکارڈ انہیں صرف میرے پاس ملے۔ اس پر انہوں نے بھارت سرکار سے مجھے ڈاکٹر مہندر سنگھ جو ہمارے ڈی سی تھے ان کی وساطت سے اکیس ہزار روپے ایک تقریب میں دلی میں دلوائے ”۔

” بہت اعلیٰ! ماشاء اللہ آپ کی بہت حوصلہ افزائی ہوئی!“ ۔
” جی ہاں!“ ۔

” آپ نایاب گراموفون ریکارڈوں کے حصول میں اتنا وقت اور پیسہ خرچ کرتے ہیں تو آپ کی بیگم صاحبہ کچھ نہیں کہتیں؟“ ۔

” بالکل! شروع میں تو خاصا مسئلہ بنا تھا۔ کہ خواہ مخواہ پیسے برباد کر رہے ہیں! جب میرے پاس بڑے بڑے لوگ آنے لگے کبھی ڈی سی آ گیا کبھی آئی سی ایس افسر آ گیا تو میری بیگم کا حوصلہ بڑھتا گیا کہ ہاں! ان کا تو اچھے لوگوں کے ساتھ میل جول ہو رہا ہے۔ پھر میرا ساتھ دینے لگیں۔ ویسے وہ بھی سنگیت سے پیار کرتی ہیں۔ میرے گھر میں میرے بچے صبح دوپہر اور شام کو گورومانی ارداس (عبادت) کا پاٹھ کرتے ہیں“ ۔

” بہت اچھی بات ہے۔ کیا آپ کا فیس بک، اخبارات اور ٹی وی چینل سے بھی اس سلسلے میں تعلق ہے؟“ ۔

” بیس سال سے جالندھر دور درشن میرے پروگرام کر رہا ہے۔ میں نے ایک پروگرام“ وگدی سی راوی ”شروع کیا تھا۔ ہم نے اس پروگرام کی ساٹھ عدد قسطیں بنائیں۔ یہ جالندھر دور درشن کا ایسا پروگرام تھا جس میں پرانے پنجابی گیتوں کو فلمایا جاتا تھا۔ اس میں ہم نے پاکستان کے گیتوں کو بھی فلمایا۔ ستر، اسی اور نوے سال پرانے گیتوں کو فلمایا جاتا تھا۔ یہ پروگرام آپ کے ماسٹر صاحب نے بھی دیکھا ہے۔ اب بھی اس پروگرام کی مانگ ہے۔ اس کے پروگرام کبھی کبھار دوبارہ نشر کیے جاتے ہیں۔ ان کو سن کر لوگ مجھے فون کرتے ہیں۔ دوسرے ٹی وی چینل جیسے ’پریم ایشیا ء‘ میرے آدھے گھنٹے کے پروگرام کرتے ہیں“ ۔

” کیا آپ کی اس لائبریری میں کالج اور یونیورسٹی کے طلباء تحقیق کرنے آتے ہیں؟“ ۔

” یہ بہت اچھا سوال کیا آپ نے! مجھے یہ کہتے ہوئے بڑی خوشی ہو رہی ہے کہ پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ اور دیگر یونیورسٹی کے ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے بائیس طلباء ہماری سنگیت لائبریری سے تحقیق کر کے پی ایچ ڈی کر گئے اور آج کل کالجوں میں پروفیسر لگے ہوئے ہیں“ ۔

” لالی جی! یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ ماشاء اللہ!“ ۔

” ایک ضروری بات بتانا رہ گئی۔ میں پنجابی کے اخبار ات میں بھی کبھی کبھار لکھتا ہوں جیسے : ’اجیت‘ ، ’پنجابی ٹریبیون‘

وغیرہ۔ یہ لوگ مجھے آدھا صفحہ دیتے ہیں۔ بڑے اخبار کا آدھا صفحہ دینا بہت بڑی بات ہوتی ہے ”۔
” واقعی لالی جی! آدھا صفحہ بڑی بات ہوتی ہے!“ ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا : ”جو سچے دل سے سنگیت کی خاطر محنت کرتا ہے قدرت بھی اس کے لئے آسانیاں پیدا کرتی ہے۔ جو ارادہ میں اس سلسلے میں کرتا ہوں وہ پالن ہار پورا کر دیتا ہے اور وہ چیز مجھے مل جاتی ہے۔ ایک واقعہ یاد آیا: میں جب میں بٹھنڈہ میں بینک میں کام کرتا تھا تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ میرے والد صاحب کے ساتھیوں میں سے تھے۔ میرے والد صاحب نے مجھے نصیحت کی تھی کہ جب کوئی تمہارے پاس کسی کام سے آئے تو اس کے ساتھ چلنا چاہیے۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ کام کئی مرتبہ ہو جاتے ہیں اور بعض دفعہ رہ بھی جاتے ہیں۔ لہٰذا اس کی حوصلہ شکنی نہیں کرو بلکہ ایک دفعہ اس کے ساتھ چلو۔ سنگیت کے ساتھ جڑا ہوا واقعہ یہ ہے کہ جب سردار سرجیت سنگھ برنالہ گورنر تھے تو دو آدمی میرے پاس آئے اور کہا کہ پنجاب کا وزیر تعلیم سردار سرجیت برنالہ کے گروپ کا آدمی ہے۔ ہماری گھر والی کے تبدیلی کے احکامات کا مسئلہ ہے وزیر موصوف کا کہنا ہے کہ گورنر سے کہلوا دو تو آپ کا کام ہو جائے گا۔

میں نے کہا کہ فلاں دن آ جانا ڈیرہ دون چلیں گے۔ جس کا کام تھا وہ اپنے ساتھی کے ساتھ شام پانچ بجے میرے گھر گاڑی لے کر آ گیا۔ ہم رات نو بجے انبالہ ( 214 کلو میٹر) شہر پہنچ گئے۔ یہاں سے برنالہ صاحب کے ’اے ڈی سی‘ کو فون کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ گورنر صاحب پندرہ دن ڈیرہ دون اور پندرہ دن ’نینی تال‘ میں ہوتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اگر آپ کو کام کرانا ہے تو آپ کو نینی تال ( 425 کلومیٹر) جانا پڑے گا۔ ورنہ واپس چلے جاتے ہیں۔ پھر دوبارہ پندرہ دن بعد آ جائیں گے۔ اس نے ڈرائیور سے پوچھا کہ رات کو گاڑی چلا لے گا؟ اس کے ہاں کہنے پر دوسرے دن دو بجے نینی تال پہنچ گئے۔ برنالہ صاحب نے کہا کہ لالی صاحب بہت اچھا کیا کہ میرے پاس نینی تال آ گئے کیوں کہ آج چالیس سال کے بعد ’راج بھون‘ ( گورنر ہاؤس) کھلا ہے۔

( یہ گورنر اتر کھنڈ کی موسم گرما کی سرکاری رہائش گاہ ہوتی تھی) ۔ مہاتما گاندھی، لال بہادر شاستری اور دیگر قومی لیڈر یہاں آتے رہے ہیں۔ گرمیوں کے لئے بہت خوشگوار ہل اسٹیشن ہے۔ میں نے برنالہ صاحب کو بتایا کہ یہ لوگ ہیں اور ان کی گھر والی کے بدلی کے احکامات کے مسئلہ کے حل کے لئے آپ کے پاس آئے ہیں۔ مجھے کہا کہ صبح راج بھون آ جانا۔ میں اگلی صبح نو بجے ہی پہنچ گیا۔ یہاں کئی پھول کے پودے جواہر لال نہرو کے لگائے ہوئے تھے۔

لکھا ہوا تھا کہ فوٹو گرافی سخت منع ہے۔ میں نے کہا کہ میں تو پہلی دفعہ یہاں آیا ہوں پھر پتا نہیں کبھی یہاں آنا بھی ہو لہٰذا مجھے تصاویر اتارنے کی اجازت دیں۔ میں نے وہاں سے بڑی اہم تصویریں اتاریں۔ برنالہ صاحب نے بادل صاحب کو ٹیلی فون کر دیا جو اس وقت وزیر اعلیٰ تھے۔ میری سنگیت لائبریری میرے والد ’جتھے دار پرگھٹ سنگھ پنجابی سنگیت لائبریری ’کے نام سے موسوم ہے۔ گورنر برنالہ صاحب نے وزیر اعلیٰ بادل صاحب کو کہا کہ میرے دوست جتھے دار پرگھٹ سنگھ، جس نے میرے ساتھ کام کیا ہے اس وقت دنیا میں نہیں۔ اس کا بیٹا ایک ذاتی کام لے کر آیا ہے۔ اگلے دن احکامات جاری ہو گئے۔ برنالہ صاحب نے کہا کہ لالی یہاں ایک گردوارا ہے وہاں درشن کر کے جانا۔ ہم وہاں ماتھا ٹیک کر واپس بٹھنڈہ ( 637 کلو میٹر) کے لئے چل دیے۔ گیارہ گھنٹے ستائیس منٹ میں سے چار گھنٹے کا سفر طے ہو گیا۔ تو ڈھابے میں چائے پینے کے لئے طبیعت چاہنے لگی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شہر آ گیا۔ سوچا کوئی سموسہ اور میٹھی چیز کھائیں۔ یوں بازار کے بیچ میں چلے گئے۔ وہاں ہمارے سردار پنجابی بہت پھر رہے تھے اور دکانوں میں بھی بیٹھے تھے۔ جتنی دیر چائے بنتی میں ایک کیسٹوں والی دکان میں آ گیا۔ پوچھا کہ کیا گراموفون ریکارڈ مل جائیں گے؟ اس نے کہا کہ سردار جی اب تو سی ڈی کا زمانہ ہے البتہ آٹھ دس دکانیں چھوڑ کر ایک پرانی دکان ہے وہاں دیکھ لو ”۔

ماسٹر-قاسم-کے-ساتھ

” وہاں جا کر ست سری اکال، نمستے اور السلام علیکم کیا پھر کہا میں پنجابی ریکارڈوں کا کلکٹر ہوں۔ معلوم کرنا ہے کہ کیا آپ کے پاس یہ مل سکتے ہیں؟ وہ کہنے لگے کہ ایک ڈبہ پڑا ہے۔ یہ بات 2002 کی ہے۔ میں نے وہ ڈبہ اٹھایا۔ اس میں چالیس ریکارڈ موجود تھے اور ان میں دو ایسے بھی تھے جو کہیں سے نہیں ملتے تھے۔ قیمت پوچھی تو انہوں نے کہا دس روپے فی ریکارڈ۔ میں نے فوراً چار سو روپے میں وہ ڈبہ لے لیا۔ یہ چالیس کے چالیس بالکل نئے ریکارڈ تھے۔ اب آپ دیکھیں کہ میں نے ڈیر ہ دون جانا تھا لیکن پرماتما مجھے نینی تال لے آئی اور وہاں سے اس دکان پر۔ میں نے یہ ریکارڈ حاصل کرنا تھے!“ ۔

” آپ کے گاؤں والے آپ کے اس شوق کی پذیرائی اور قدر کرتے ہیں؟“

” جی بالکل کرتے ہیں! میں نے تہواروں کے لئے خصوصی لاؤڈ اسپیکر رکھا ہوا ہے۔ موقع کی مناسبت سے ریکارڈ سنواتا ہوں۔ لوگ موبائل کرتے ہیں کہ فلاں گیت دوبارہ بجاؤں۔ پرسوں دیوالی تھی میں نے تین پروگرام کیے۔ پینتالیس منٹ تو میں نے پاکستانی پنجاب کے گیت لگائے۔ ان میں ایک ریشماں کا لگایا، مہدی حسن کا ’چل چلئے دنیا دی اس نکرے۔‘ ، ’چلے پرے دی ہوا۔‘ ، ’مکئی دی روٹی تے گندلاں دا ساگ۔‘ ، پھر ایک منور سلطانہ کا ’سوں رب دی وے مینوں تیرے نال پیار ہو گیا۔‘ ۔ ان کے علاوہ پاکستان کے بیس پچیس نایاب ریکارڈ بجائے۔ جو پنجابی کا گیت گاتا ہے چاہے ہمارے ہاں کا ہو، آپ کے ہاں کا ہو یا کہیں اور کا بھی ہو ہمارے لئے سب کا برابر رتبہ ہے“ ۔

” لالی صاحب! کیا آپ خود گانا گاتے ہیں؟“
” بس گنگنا لیتا ہوں۔ !“ ۔

” ایک مرتبہ میرے پاس ایک بہت مہان بھگتی آیا۔ یہ میرے لئے پاکستان سے دو ریکارڈ لایا جن کو شام چو راسی کے کلاسیکل فنکار نے گایا تھا۔ وہ دو لایا تو میرے پاس چار اور موجود تھے۔ وہ کہنے لگا کہ لالی کمال ہی کر دیا۔ میں نے کہا کہ مجھے اس کام میں لگے

بتیس سال ہو گئے ”۔

” ہنس راج ہنس جب آئے تو کہنے لگے کہ لالی! ان کلاکاروں کو دنیا سے گزرے سو سال ہو گئے، کسی کو اسی، کسی کو ساٹھ تو کسی کو چالیس سال۔ تو آتما تو امر ہے نا! جب آپ ان کے ریکارڈ مشین میں بجاتے ہیں تو وہ آتما آپ کو اشیش ( برکت کی دعا ) دیتی ہو گی“ ۔

” میرا گورمکھ سنگھ لالی کے نام سے پیج ہے۔ میں یہاں باقاعدگی سے موسیقی کا پروگرام کرتا ہوں۔ پاکستان سے بھی بہت سے لوگ میرے پروگرام سے جڑے ہوئے ہیں۔ جو گراموفون ریکارڈ انہیں نایاب محسوس ہوتا ہے وہ سننے کی فرمائش کرتے ہیں۔ میں ایک چیز اور کرتا ہوں۔ وہ ریکارڈ پورا نہیں سنواتا۔ کیوں کہ آج کل فیس بک، یو ٹیوب میں نیٹ چور بھی ہو گئے ہیں۔ میری محنت اور پیسہ لگا ہوتا ہے اور یہ نیٹ کے چور میرے ریکارڈوں سے اپنے پیسے بناتے ہیں“ ۔

” کیا آپ کے بچوں کو بھی موسیقی سے رغبت ہے؟“ ۔

” میرے لڑکے کرم سنگھ نے بی ٹیک کیا ہے۔ اور سنگیت بھی سیکھ رہا ہے۔ میری بیٹی اور بہو بھی سنگیت سے پیار کرتے ہیں“ ۔

پڑھنے والوں کے لئے دلچسپی کی بات ہے کہ لالی صاحب کے اس کام سے متعلق کئی ایک کتابوں میں ان کا نام اور سنگیت لائبریری کا ذکر کیا گیا ہے۔ انہیں ’پنجابی سنگیت کا کنگ‘ کہا جاتا ہے۔ پنجابی یونیورسٹی کی کتابوں میں لالی جی اور ان کی سنگیت لائبریری کا ذکر کیا گیا ہے۔ ساڑھے پانچ سو سال پہلے مسلمان راگی جو دربار صاحب میں کیرتن کرتے تھے ان سے متعلق ایک کتاب چھپی ہے۔ اس میں بھی ایک صفحہ پر صرف ان کا ذکر ہے۔ جہاں بھی پنجابی سنگیت کی بات کی جاتی ہے چاہے انگلینڈ، امریکہ یا کینیڈا میں جہاں پنجابی گیت سنگیت ہو گا وہاں کسی نا کسی حوالے سے ان کا نام لیا جاتا ہے کہ گورمکھ سنگھ لالی بھی ہے ایک! ”۔

لالی صاحب کا کہنا ہے : ”ہمارا تو جوڑنے کا کام ہے۔ لڑائیوں میں کچھ نہیں رکھا۔“
لالی صاحب کی شاندار سرکاری پذیرائی:

مورخہ 21 فروری 2021 کو چندی گڑھ میں پنجابی زبان کے سالانہ دن کے موقع پر انڈین پنجاب کے وزیر ثقافت ’چرن جیت سنگھ چنی‘ نے ڈاکٹر سرجیت پتر وغیرہ کی موجودگی میں سرادر گورمکھ سنگھ لالی کو پنجابی لوک موسیقی اور فلمی گیتوں کو سنبھالنے، فیس بک پر روزانہ لائیو پروگرام کر کے دونوں طرف کے پنجاب کو آپس میں ملا کر رکھنے پر مبلغ ایک لاکھ روپے کا کیش ایوارڈ دیا گیا۔ اس کے بعد لالی صاحب اور دیگر مہمانوں کو اپنے دفتر میں چائے بھی پلائی۔

لالی صاحب تقریباً روزانہ فیس بک پر انڈین پنجاب اور پاکستانی پنجاب کے ہزاروں سامعین کو لائیو پنجابی، اردو، فلمی،

غیر فلمی اور مذہبی تہواروں خاص کر رمضان میں اسلامی نظموں، قوالیوں، اور نعتوں پر مبنی گراموفون ریکارڈ ( توے ) سنا کر محظوظ

کرتے ہیں۔ جواباً سامعین انہیں فوری لایؤ کمنٹس بھیجتے ہیں۔
وزیر خارجہ محترمہ سشما سوارج کا لالی صاحب کے پاس آنا:

لالی صاحب کے گھر اس وقت کی وزیر خارجہ محترمہ سشما سوارج ( 1952 سے 2019 ) بھی خود چل کر آئیں اور کچھ دیر لالی جی کے والد کے نام پر بنی ہوئی ’جتھے دار پرگھٹ سنگھ پنجابی سنگیت لائبریری‘ میں رہیں۔

ان کی سنگیت لائبریری میں نامور پنجابی شاعر ’بابو سنگھ مان‘ کے لکھے ہوئے بہت سے گیتوں کی کافی تعداد بھی موجود ہے۔ پچھلے دنوں ان کے ایک نامور شاگرد گلوکار، اداکار، فلمساز ہربھجن سنگھ، لالی صاحب کی سنگیت لائبریری میں آ کر بہت خوش ہوئے اور اپنے 1986 کے ای پی کے کوور پر دستخط کیے۔ ان کی فرمائش پر گلوکار شوکت علی (م) کا ایک گیت بھی سنوایا۔

بابو سنگھ مان مشرقی پنجاب کے گیت نگار اور بڑے مشہور شاعر ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے تقریباً تمام ہی گیت مقبول ہیں۔ ان کا شاگرد بے مثال ہربھجن نے ہمارے ماسٹر قاسم صاحب کو فون پر بتایا کہ انشاء اللہ کورونا کے بعد پاکستان آ کر آپ کے گھر ٹھہروں گا۔ انہوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں۔

دعا ہے کہ بین الاقوامی شہرت یافتہ گراموفون ریکارڈ کلکٹر، انڈیا کی ’لمکا بک آف ریکارڈ‘ میں نام درج کروانے والے، پنجابی سنگیت کے کنگ، بابا بوہڑ کہلوا نے والے سردار گورمکھ سنگھ لالی پنجابی فن و ثقافت کی خدمت کرتے رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments