جب منٹو کو آگ پر چلنا پڑا (دوزخ نامہ سے اقتباس)


میرے والد مولوی غلام حسن نے اپنی پہلی بیوی کے تینوں بیٹوں کو پڑھایا لکھایا، بیرون ملک بھیجا، انھیں مستحکم کیا، اور اس منٹو کو سڑک پر چھوڑ دیا۔ جاؤ سالے، لاوارث کتے کی طرح گھومو اور لوگوں کے پھینکے ہوئے ٹکڑے چن کر کھاؤ۔ ان کی پہلی بیوی کے تینوں بیٹے، محمد حسن، سعید حسن، سلیم حسن، انگلینڈ میں رہتے تھے، مرزا صاحب، اور میں سمرالہ کی سڑکوں پر، کیا کر رہا تھا بھلا؟ بندر کا تماشا دیکھ رہا تھا، آگ میں کودنے کا کھیل دیکھ رہا تھا۔

میں نے میٹرک کے بعد پڑھائی چھوڑ دی۔ پڑھائی کا خرچ کون اٹھاتا؟ آخر مولوی غلام حسن کو اپنے تینوں بیٹوں کو انگلینڈ میں امیر آدمی نہیں بنانا تھا کیا؟ مرزا صاحب، میں اور کیا کرتا، آخر ایک دن میں ایک شراب خانے میں جا گھسا۔ پولیس والے مجھے پیٹتے ہوئے جیل لے گئے۔ پتا نہیں کس طرح دوچار دنوں میں چھوٹ بھی گیا۔ اس کے بعد اکثر پینے لگا۔ اسی طرح میں نے بی بی جان کے پیسے چرانے شروع کیے۔ شراب کے بعد نیند، نیند میں خواب، اور خواب میں کون آ کر کھڑا ہوتا تھا، جانتے ہیں؟

مولوی غلام حسن، سالا سؤر کا بچہ، میں اس پر پتھر پھینکتا۔ پاخانہ پھینکتا، کیچڑ پھینکتا، لیکن وہ آدمی پھر بھی ہاہاہا کر کے ہنستا رہتا۔ بڑا ہی بے شرم انسان تھا۔ خبیث۔ جانتے ہیں مرزا صاحب، وہ آدمی میری زندگی میں کسی شیطانی روح سے کم نہیں تھا۔ معلوم ہے وہ میری طرف کس طرح دیکھتا تھا؟ جیسے میں کوئی کیڑا ہوں، جو نالی سے نکل کر اس کے گھر میں گھس آیا ہے۔ جانتے ہیں وہ میری والدہ سے کیا کہتا تھا، ’تم کیوں اس لفنگے کو پیار کرتی ہو؟ اس پر تو مقدمہ چلنا چاہیے۔‘

مقدمے، ہاں، میری ساری زندگی تو مقدموں ہی میں کٹ گئی، مرزا صاحب۔ محض کہانیاں لکھنے کی پاداش میں، نہ جانے کتنی بار عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا مجھے۔ میر کا وہ شعر یاد ہے، مرزا صاحب؟

دل کے تئیں آتش ہجراں سے بچایا نہ گیا
گھر جلا سامنے، پر ہم سے بجھایا نہ گیا

اپنے بچپن میں، میں ایک ایسے ہی آتش ہجراں سے گزرا تھا۔ بس اسی دن سے، مرزا صاحب، میں آگ کا مکین ہو گیا۔ یا آپ اسے آگ کا دریا کہیں گے؟ جو بھی کہہ لیجیے، پر مجھے اس آگ میں جلتے تینتالیس سال گزر گئے۔ صفیہ بیگم کہتی تھیں، ’اس طرح خود کو جلا کر آپ نے کیا پایا، منٹو صاحب؟‘

قصے، بیگم۔
کس کے قصے؟

ان کے، وہ جو سڑک کے اس پار کھڑے ہیں۔ کیا تمھیں نظر نہیں آتے؟ وہ جو دھوئیں کے مرغولوں میں گھرے کھڑے ہیں۔

کون؟
منٹو کی روحیں۔

پہلے میں آگ کی کہانی سناتا ہوں، مرزا صاحب۔ میں آپ کو بتاتا ہوں، برادران، جان لیجیے۔ یہ منٹو تھا۔ سعادت حسن تو کب کا مر چکا تھا، یہ منٹو تھا جو آگ پر سے چل کر آیا تھا۔ یہ بات بالکل سچ ہے۔ ذرا بھی جھوٹ نہیں۔ منٹو کو جھوٹ کا پتا نہیں تھا، وہ جھوٹ نہیں جانتا تھا، اسی لیے وہ لوگ اسے بار بار عدالت کے کٹہرے میں گھسیٹ لاتے تھے۔ بڑے بڑے جغادری ادیبوں کا کہنا تھا، ’منٹو کو کب لکھنا آتا ہے؟ اور کمیونسٹوں نے بھی کب اسے چھوڑا، سالا منٹو، سؤر کا بچہ، ادب کے نام پر کیچڑ اچھالتا ہے۔‘ جو لوگ میرے دوست ہونے کے دعوے دار تھے وہی میرا مذاق اڑاتے رہے۔ کہتے تھے کہ میں سنکی ہوں، رجعت پسند ہوں۔ میں مردوں کی جیب سے بھی سگریٹ چرا لیتا ہوں۔ میں بچپن میں جس آگ سے گزر کر آیا تھا، مرزا صاحب، پھر اسی آگ میں چلے جانے کے سوا میرے پاس کوئی دوسری جگہ نہیں تھی۔ آپ نے مدت پہلے کہا تھا ؎

غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

فرض کیجیے، اگر میرا جنم 1918 ء میں ہوا ہوتا؟ ویسے اگر مولوی غلام حسن اسے قبول کریں تو، میں تب محض دس بارہ سال کا پلا تھا۔ آپ لوگ نہیں جانتے لیکن اس سال لندن کے پکاڈلی سرکس میں ماسٹر خدا بخش نے آنکھوں پر کالا کپڑا باندھ کر گاڑی چلائی تھی اور ہلچل مچا دی تھی۔ بڑی سرگرمی رہی۔ سالا! ہم نے جیسے سارا جہان پا لیا۔ پھر پتا ہے، ایک حادثہ ہو گیا۔ جیسے خدا نے ہی مجھے اس کی خبر دی ہو۔

آپ لوگوں کو ماسٹر خدا بخش کا کارنامہ یاد ہے نا؟ جس نے پکاڈلی سرکس میں آنکھوں پر کالا کپڑا باندھ کر گاڑی چلانے کا انوکھا کرتب دکھایا تھا؟ خدا بخش کے بعد امرتسر میں اللہ رکھا نام کا ایک شخص ظاہر ہوا۔ سنا ہے کہ وہ خدا بخش کے استاد تھے۔ وہ سڑک پر گڑھا کھود کر اس میں کوئلے بھر کر جلا دیتے، اور پھر ان سلگتے ہوئے انگاروں پر چلتے تھے۔ اللہ رکھا کا جادو دیکھنے کے لیے روز بہ روز بھیڑ لگنے لگی۔ ان کے بارے میں قصے کہانیاں پھیلنے لگیں۔ میں چپ چاپ بیٹھا اس آدمی کو دیکھتا رہتا تھا۔ کوئی آدمی جلتے ہوئے انگاروں پر کیسے چل سکتا ہے؟ چلنے کے بعد وہ اپنے پاؤں مجھے دکھاتے، جس پر کہیں کوئی پھپھولا نہیں ہوتا تھا۔

ایک دن اچانک اللہ رکھا نے کہا، ’کیا تم سب خدا پر یقین رکھتے ہو؟‘
جی، جناب۔ مجمعے نے یک زبان ہو کر کہا۔
اور مجھ پر؟
حضور آپ ولی ہیں، سب نے جواب دیا۔
اللہ رکھا صاحب قہقہہ مارکر ہنس پڑے۔ ولی؟ ولی کو دیکھا ہے کبھی؟ ولی کون ہیں، جانتے ہو؟
مجمعے میں سب ایک دوسرے کا منھ تکنے لگے۔

تم لوگوں نے کہا تھا کہ تم خدا پر یقین رکھتے ہو اور مجھ پر بھی۔ تو جس کسی کو بھی یقین ہے، آگے آ جائے اور میرے ساتھ اس آگ پر چلے۔

اس پر مجمع دھیرے دھیرے چھٹنے لگا۔ کوئی چپ چاپ سرک گیا تو کوئی آگ پر ایک نظر ڈالتے ہی بھاگ کھڑا ہوا۔ تب مجھ سے رہا نہیں گیا، مرزا صاحب، میں اللہ رکھا صاحب کی طرف بڑھا۔ میں نے جوتے موزے اتارے اور اپنا کرتا سمیٹ لیا۔

اللہ رکھا صاحب نے حیران ہو کر میری طرف دیکھا اور کہا، ’بیٹا، تو میرے ساتھ آگ پر چلے گا؟‘
جی۔
تو پھر آ جا۔ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچا۔ کلمہ پڑھ۔ لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ۔
لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ۔

جیسے ہی میں نے کلمہ پڑھا۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میرا جسم ہوا کی طرح ہلکا ہو گیا ہو، مرزا صاحب۔ اللہ رکھا صاحب کا ہاتھ پکڑ کر میں آگ کے گھیرے میں داخل ہو گیا۔ میں ان کے پیچھے پیچھے سلگتے ہوئے انگاروں پر چلنے لگا۔ جی ہاں، مرزا صاحب، پہلی بار میں اپنے آپ کو ڈھونڈ پایا۔ اپنے باپ کے ڈراووں سے پرے، اپنے اعلیٰ تعلیم یافتہ سوتیلے بھائیوں کی حقارت سے پرے، اللہ رکھا صاحب کے پیچھے پیچھے، آگ کے گھیرے میں چلتے ہوئے میں اپنی راہ پر چل پڑا۔ نہیں، میرے پیروں میں چھالے نہیں پڑے، مرزا صاحب۔

(دوزخ نامہ باب 10 کی تلخیص)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments