اقصی سے کعبہ تک


فلسطین اسرائیل کشیدگی کو صحیح طور پر جاننے کے لیے معتبر معلومات کا ہم تک پہنچنا ضروری ہے اور ہر صاحب عقل جانتا ہے کہ خبریں اور معلومات عوام تک پہنچنے سے پہلے بہت سے مراحل سے گزرتی ہیں، چلیں آج اس خبر کا جائزہ ایک منظم طریقہ کار سے کرتے ہیں۔

امریکن فلاسفر ہر من اور نوام چومسکی نے مل کر کر سن 1988 میں پہلی مرتبہ میڈیا پراپیگنڈا ماڈل پیش کیا۔ ان کی کتاب کا نام Manufacturing Consent: The Political Economy of the Mass Media۔ ہے۔ اس تھیوری کا مقصد ذرائع ابلاغ پر پڑنے والے اثرات کا گہرائی سے مطالعہ کرنا ہے یعنی کے طاقت اور دولت کے بل بوتے پر ہم تک پہنچنے والی خبر کس حد تک عدم مساوات کا شکار ہے۔ اور یہ تھیوری ان مقاصد کی جڑ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہے کہ کیسے کسی خبر کو دولت اور طاقت کے معیار کے مطابق ڈھال کر قابل اشاعت سمجھا گیا ہے۔ ان تھیورسٹس نے ایک خبر کو کو عوام تک پہنچنے سے پہلے اس کی تقطیر یعنی فلٹریشن کے پانچ درجات مقرر کیے ہیں۔

پہلا فلٹر جس کو اونرشپ owner ship کا نام دیا گیا ہے اس کے مطابق کوئی بھی خبر ان تمام تنظیموں اور شخصیات کے مفاد کے مطابق ہوتی ہے جو مل کر کسی میڈیا کمپنی کے مالک کہلاتے ہیں یا اس کو own کرتے ہیں۔ دوسرا فلٹر جس کو تشہیر اور فنڈنگ کا نام دیا گیا ہے اس کے مطابق میڈیا پر اپنی تشہیر کرنے والی کمپنیاں میڈیا کی فنڈنگ کا ایک بڑا ذریعہ ہے جس کی وجہ سے سے کوئی بھی ایسی خبر جو کہ اشتہار والی کمپنیوں کے حق میں نہ ہو، اس کو عوام تک پہنچانا نا ممکن ہوتا ہے یعنی ان کمپنیوں کے مفاد کو بھی دیکھا جاتا ہے۔

تیسرا فلٹر جس کا تعلق سورسز کے ساتھ ہے اس کے مطابق کوئی بھی خبر جس کے ذرائع تک پہنچنا سفری و مالی ہر دو لحاظ سے آسان اور ممکن ہو وہ خبر با آسانی شائع ہو سکتی ہے مگر اس کے برعکس دوسری خبروں پر کم توجہ دی جاتی ہے، چوتھے فلٹر کو فلیک کا نام دیا گیا ہے جس کے مطابق ایک میڈیا کمپنی کے لئے کسی خبر سے پیدا ہونے والی مخالفت کا جائزہ لینا اور دوراندیشی بھی ضروری ہے کیونکہ کہ کسی بھی اثر و رسوخ والی شخصیت چاہے وہ حکومتی ہو یا مذہبی ہو اس کے خلاف بات کرنا موت کے مساوی ہے اور تاریخ میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ جبکہ آخری فلٹر کو اینٹی کمیونزم یا دہشت گرد مخالف فلٹر کا نام دیا گیا ہے جس کے مطابق مشترکہ یا اجتماعی مخالف کی صرف خامیوں پر ہی روشنی ڈالی جا سکتی ہے کیونکہ ہر سامع ان کی برائی سننے کا خواہاں ہے۔

اس طویل تمہید کے بعد اگر ہم موجودہ کشیدگی اور سانحہ کی بات کریں تو جان سکتے ہیں کہ کس کس میڈیا سورس کو اپنی بقا کے لیے کیسی خبر کو نشر کرنا مجبوری بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ اسرائیل سے مشترکہ مفاد کے پیش نظر سی این این کی گزشتہ چند ایام کی خبروں کا جائزہ لیں تو یقیناً مظلوم اسرائیل کو اپنا دفاع کرتا ہوا پائیں گے اس کے برعکس اسرائیل حملے کی زد میں آنے والے مسلم ملک کے چینل الجزیرہ کو پرکھیں گے تو آپ کو ضرور لاوارث، مظلوم، بے گھر انسانیت کی آہ و بکا سنائی دینے لگے گی۔

ان دوہری معلومات کی صداقت کو کسی حد تک جاننے کے لیے ہمیں کسی بالی وڈ اداکارہ کے متشدد بیانات کے ساتھ ساتھ اسرائیل برطانیہ اور امریکا میں مسلمانان فلسطین کے حق میں ہونے والے یکجہتی مارچ اور ریلیوں کو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا۔

اس کشیدگی کی بنیاد تک پہنچنے کے لئے اور فریقین کے دعوے کو پر کھنے کے لئے کچھ دہائیوں کی تاریخ کا مطالعہ اہم کردار ادا کرے گا مگر یاد رہے کہ تاریخ کو بھی اعلیٰ عہدے داروں اور شاہی طاقتوں کا ہتھیار گردانا جاتا ہے۔

دعا ہے کہ خدا حقیقی مظلوم کی فریاد سن لے اور اس کشیدگی کا خاتمہ ہو۔ ساتھ ہی ساتھ قبلہ اول اور تمام اہل کتاب کے مشترکہ معزز مقام پر دوبارہ امن و سلامتی قائم ہو۔ بطور مسلمان، بغیر دلیل کے ہم جانتے ہیں کہ صدیوں سے ہر خطہ میں مسلمان ہی ظلم و بربریت کا شکار ہوا ہے جس کی وجہ ازلی بغض و عناد رہا ہے۔ تمام مسلم فتوحات ہمیشہ سے پیغمبر آخر الزماں ﷺ کی نصیحت و وصیت کے مطابق ہوتی آئی ہیں جن میں مقبوضہ علاقوں کے مکینوں سے حسن سلوک دیدنی تھا نہ ہی بچوں کو پھوڑا جاتا نا ہی عزت پر حرف آتا، اور مقامی ہمیشہ سے اپنی مرضی کے تحت مذہب قبول کرتے آئے ہیں، ناکہ فلسطین و کشمیر کی طرح آزادی کے غم میں موت کے پیالے پئے۔

حرف آخر یہی ہے کہ اگر آج ہم نے اپنی حالت بدلنے کے لئے عملی جدوجہد شروع نہ کی تو کل بھی آج کی طرح ایک شہر جتنی آبادی والے ملک کے سامنے بیسیوں مسلم ممالک گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوں گے اور ایک کے بعد ایک مسلم ملک قربانی کا بکرا بنتا رہے گا۔ یہ سوال آج آپ پر چھوڑتا ہوں، بجائے الزام تراشی کے اپنے گریبان میں جھانکیں اور بتائیں کہ ایٹمی حملے میں تباہ ہونے والا ملک کیسے اپنے پیروں پہ کھڑا ہوا؟ ہمارے بعد آزاد ہونے والا ہمسایہ کیسے پوری دنیا کی معیشت پر راج کر رہا ہے اور بھیک مانگ کر اپنی جڑیں مضبوط کرنے والی ایک شہر جتنی ریاست کیونکر پوری مسلم امہ کو آنکھیں دکھانے کے قابل ہو گئی۔

ہم نے کیا کیا؟ ہماری ماضی قریب کی تاریخ ہمیں کیا بتا رہی ہے؟ پہلے سلطنت عثمانیہ اور مغل حکومت زیر آب آئے اور آج تک یہ زوال جاری ہے۔ ہم نے تعلیم سے منہ موڑا اور محنت سے کترائے، مغربی آسائشوں کو جنت کے بدلے قبول کیا، اسلامی روایات کو فرد پرستی کے تلووں سے روند ڈالا اور مسلکی و سیاسی جھگڑوں میں پڑ کے ایک دوجے کا گریبان چاک کیا تو ہمارا مستقبل، ماضی قریب کے رنگ میں رنگتا جائے گا۔

اپنے ہر ہر لفظ کا خود آئینہ ہو جاؤں گا
اس کو چھوٹا کہہ کے میں کیسے بڑا ہو جاؤں گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments