دو لفظ ریٹائرڈ و سابق


وہ اپنے جواں سال بیٹے کے ساتھ تھے۔ اس کا ڈرائیونگ لائسنس بنوانا چاہتے تھے ڈرائیونگ لائسنس برانچ داخلی دروازے سے اندر داخل ہوئے۔ نہ وہ مخصوص بڑی گاڑی۔ نہ تیزی سے راستہ کلیئر کراتے پولیس کے چاق و چوبند سیکورٹی گارڈز۔ گہرے کتھئی کلر کے شلوار قمیض زیب تن کیے صاحب کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا یہ سابق پولیس ڈی آئی جی ہیں۔ یہ کراچی کے تینوں زونز میں ڈی آئی جی رہے کئی ضلعوں میں ایس ایس پی بھی رہے یہ کئی ڈویژن کے سپریٹنڈنٹ رہے۔

انہیں دیکھ کر مجھے احساس ہوا کسی بھی عہدے سے قبل سابق اور بعد میں لگا لفظ ریٹائرڈ کیا معنی رکھتا ہے، یہ لفظ بتاتا ہے کہ آپ کی شکل و قابلیت اور اخلاق کی نہیں آپ کے عہدوں کی اہمیت ہوتی ہے یہ کیفیت آپ کو سمجھاتی ہے آپ کے ماتحت آپ کے نہیں آپ کے با اختیار قلم کے وفادار تھے آپ کے دفتروں کے باہر کیک اور مٹھائیاں لیے انتظار کرنے والے لوگ آپ سے محبت نہیں کرتے یہ آپ کے عہدے کے قدر دان تھے یہ مطلب مفاد، غرض کی ٹرین کے مسافر تھے جو آپ عہدے کے ساتھ سابق اور ریٹائرڈ کا لفظ لگتے ہی ٹرین سے اتر گئے اور اگلی ٹرین میں سوار ہو گئے۔

وہ آہستہ آہستہ چلتے میرے قریب آ گئے انہوں نے مجھے نہیں پہچانا اور ڈی ایس پی ڈرائیونگ برانچ کے کمرے میں داخل ہو گئے شاید ڈی آئی جی یا ایس ایس پی ڈی ایل نے ان کی آمد کے متعلق عملے کو آگاہی دے رکھی تھی عملے نے انتہائی خوش اخلاقی سے ان کے صاحبزادے کے ڈرائیونگ لائسنس عمل مکمل کرنا شروع کیا وہ ڈی ایس پی کے سامنے نشست پر تشریف فرما تھے میں پھر دو لفظوں کا ہیر پھیر سوچنے لگا۔ سابق اور ریٹائرڈ بڑے ظالم لفظ ہیں اپنے وقت کا ڈی آئی جی ڈی ایس پی کے سامنے عام نشست پر براجمان ہو گئے میں ایک بار پھر سوچنے لگا کمی ڈی ایس پی تربیت اخلاقیات میں ہے یا یہ بھی دو لفظوں کے اضافے کی ستم ظریفی ہے۔

عام طور افسر اعلی افسر کے لیے نشست چھوڑ دیتے ہیں یہ ان کی پیشہ ورانہ زندگی کا عام معمول بھی ہوگا۔ اچانک ان کی نظریں مجھ سے چار ہوئیں انہوں پہچانتے ہوئے نام سے پکارا۔ حال احوال کے بعد پرانے ساتھیوں کا پوچھنے لگے ایک ساتھی کے ذکر پر میں نے بتایا صف اول کے چینل کے اعلی عہدے دار ہیں انہوں نے فون پر بات کرنے کی خواہش ظاہر کی میں نے اپنے فون سے نمبر ملا کر بات کرا دی انہوں بات کی اور ان صاحب سے فون اٹینڈ نہ کرنے کا گلا کیا۔

موصوف نے نمبر سیو نہ ہونے کا بہانہ بنایا ان کے بیٹے کا ڈرائیونگ لائسنس کا پراسس مکمل ہو چکا وہ جانے لگے تو رک گئے۔ گویا ہوئے مجھے تم مل کر اچھا لگا۔ تمہارا اخلاق اور ہمیشہ کی طرح خلوص مسکراہٹ اچھی لگی۔ میں نے عرض کی صاحب میں عہدوں سے نہیں شخصیات سے محبت دوستی کا قائل ہوں۔ جب چاہیں فون کریں دفتر آئیں یا مجھے کہیں طلب کریں میں حاضر ہوں۔ مسکراہٹ سجائے رخصت ہو گئے۔ اسی دن بڑے عہدے پر تعینات صحافی صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے گلا کیا۔

تم نے میری ان سے بات کیوں کرائی میں ان کا فون نہیں اٹھاتا تھا تم نے بات کرا دی میں صحافت کی منافقت سے آشنا ہونے کے باوجود حیرت زدہ رہے گیا۔ میں سابق اور ریٹائرڈ لفظ کے اضافے سے ہونے والی تبدیلی کا احساس ہوا میں سوچنے لگا زندگی اور کرسی دونوں عارضی ہیں، ہم کچھ بھی کر لیں، ہم ہمیشہ عہدوں پر نہیں رہ سکتے ہم ہمیشہ تندرست و زندہ نہیں رہ سکتے ہم خواہ اہرام مصر بنا لیں یا اپنے اقتدار و اختیار کے گرد کنکریٹ چار دیواریاں لگا لیں، ہمارے تخت، ہماری کرسی اور ہمارے اقتدار کے سورج نے بالآخر ڈھل جانا ہے لہٰذا پھر جانے والی چیزوں اور ڈھلنے والے سورجوں سے اتنا دل لگانے کی کیا ضرورت ہے، وقت ایک ٹرین ہے یہ کسی کی خواہشوں کی غلام نہیں ہوتی ’یہ اپنی رفتار سے چلتی ہے اور مسافر اپنی اپنی باری اور اپنے اپنے مقام پر اترتے چلے جاتے ہیں‘ کسی دن انسان کا سفر ختم ہوجاتا ہے وہ کامیابیاں اور ناکامیاں سمیٹ کر ٹرین سے اتر جاتا ہے دنیا میں اقتدار، عہدے، اور شہرت سے زیادہ بے وفا کوئی چیز نہیں ہوتی ’یہ جب جاتے ہیں تو بڑے بڑے ناموروں کی طرف بھی مڑ کر نہیں دیکھتے جتنی مہلت مل جائے شکر ادا کریں اور لوگوں کے لیے خیر اور محبت کا ذریعہ بنیں‘ نیکی اور محبت دو ایسے دیے ہیں جو مرنے کے بعد بھی قبروں کو روشن رکھتے ہیں ورنہ عارضی دنیا کی ہر نعمت وقت کے ساتھ گل ہو جاتی ہے ’رخصت ہو جاتی ہے‘ زندگی مہلت نہیں دیتی ہم سوچتے رہ جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments