ٹک ٹاک پر صارفین اپنی جان کیوں لیتے ہیں؟


پچھلے روز سوات کبل کے رہائشی حمید اللہ نامی ایک ٹک ٹاکر نے ٹک ٹاک کے لئے ویڈیو بناتے ہوئے خود پر گولی چلا دی جس کے باعث وہ موقع پر ہی جان کی بازی ہار گیا۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں جس میں ویڈیو بناتے ہوئے کسی کی جان گئی ہو۔ اس طرح ڈھیروں واقعات سامنے آئے ہیں جس میں کسی نہ کسی کی جان چلی جاتی ہے۔

دسمبر 2019 میں اسی طرز کا ایک واقعہ سیالکوٹ میں رونما ہوا۔ تین دوست ٹک ٹاک کے لئے ایک ویڈیو فلما رہے تھے کہ ایک دوست کو حقیقت میں گولی لگ گئی اور وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ نومبر 2020 کو لاہور کے علاقے سندر میں دو دوست پستول تھامے ٹک ٹاک کے لئے ویڈیو بنا رہے تھے کہ اچانک گولی چل گئی، ایک دوست آنکھ میں گولی لگنے سے موقع پر ہی جان بحق ہو گیا جبکہ دوسرا دوست بازو میں گولی لگنے سے شدید زخمی ہوا۔ جون 2020 کو کراچی میں 17 سالہ شخص ٹک ٹاک کے لئے ویڈیو بناتے ہوئے گولی لگنے سے جان بحق ہو گیا تھا۔

فروری 2020 کو لاہور میں پانچ نوجوان رکشہ میں بیٹھ کر ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہوئے ٹریفک حادثے کا شکار ہوئے، تین نوجوان جاں بحق جبکہ دو زخمی ہوئے تھے۔ جنوری 2021 کو اسی طرح ویڈیو بناتے ہوئے ریل سے ٹکرا کر ایک نوجوان جان کی بازی ہار گیا۔ اسی طرح کئی واقعات انڈیا، بنگلہ دیش اور یہاں تک کہ یورپی ممالک میں بھی پیش آئے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے اس جنون کی آڑ میں زندگی کی بازی ہا گئے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سکرین پر آنے کے لئے لوگ خود کو مار کیوں دیتے ہیں؟ ٹک ٹاک پر ایسے واقعات زیادہ کیوں رونما ہو رہے ہیں؟ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا خرابی سوشل میڈیا میں ہے یا سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں میں؟

ان سوالوں کا ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ کہ اصل مسئلہ نہ تو سوشل میڈیا میں ہے اور نہ ہی خاص کر ٹک ٹاک میں لیکن بنیادی مسئلہ سوشل میڈیا استعمال کرنے کے حوالے سے ضروری معلومات نہ ہونے کا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین ہر چیز کاپی کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کو یہ علم نہیں ہوتا کہ جو چیزیں میڈیا پر دکھائی جاتی ہیں وہ دراصل ایک مخصوص پراسس کے بعد تیار ہوتی ہیں۔ فلموں میں خاص طور پر جو خطرناک اور مافوق الفطرت مناظر دکھائے جاتے ہیں وہ سب یا تو ایک بند کمرے یا پھر ایک خاص ماحول کے اندر باقاعدہ پروفیشنلز کی نگرانی میں فلمائے جاتے ہیں۔

فلموں میں ہیرو اور ویلنز کے مابین پر تشدد لڑائی، بلندی سے گرنے کے مناظر، خون سے لت پت بدن، گولی لگتے ہی جسم سے خون کی روانی، گاڑیوں کا ایک دوسرے سے ٹکرانا، گاڑیوں کا ہوا میں اڑ کر تباہ ہو جانا، ہیرو کی سٹائلش انٹری، ہیرو کا شروعات سے لے کر آخر تک چیلنجز کا سامنا کرنا اور پیار محبت، یہ سب کمپیوٹر، پروفیشنلز، کیمرہ اور ہدایت کاری کی مدد سے ایک آئیڈیل ماحول مین فلمایا جاتا ہے جبکہ دیکھنے والوں کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ سب حقیقت میں ہو رہا ہے۔ اسی وجہ ہم وہ ایکٹ کاپی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہم بھی سکرین پر ٹھیک اسی طرح نظر آئیں لیکن ایسا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ ہمارے پاس نہ تو ضروری آلات ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ سکلز ہوتے ہیں جن کی مدد سے ہم اسی برز کی ویڈیوز بنا پائیں۔

اب جب ماس میڈیا تقسیم ہو گیا ہے ؛ سکرینز زیادہ ہو گئے ہیں ؛ ذرائع کی بھرمار ہے تو صارفین کی تعداد بھی حیران کن حد تک بڑھ گئی ہے۔ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہماری تقریباً آدھی آبادی موجود ہے۔ ان میں ایک فیصد لوگوں کو بھی ان چیزوں کے بارے میں علم نہیں ہوتا۔ یہ لوگ جیسا دیکھتے ہیں اسی طرح کاپی کر کے دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹک ٹاک کی آمد سے صورت حال مزید بگڑ گئی ہے۔ آپ خود سوچیں کہ ضروری معلومات اور آلات کے بغیر مختصر سی ویڈیو میں آپ کیا کیا کر سکتے ہیں؟

صارفین کم وقت میں زیادہ مواد دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مختلف سٹنٹس بھی کر جاتے ہیں جو بعض اوقات جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ سوات میں حمید اللہ نامی نوجوان کے ساتھ جو ہوا، اسی کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ شانگلہ کے تحصیل چکیسر میں بھی پیش آیا تھا، جہاں ایک بچے نے ٹک ٹاک ویڈیو بنانے کے لئے پھانسی کا پھندا تیار کیا اور لٹک کر جان دے دی لیکن ٹک ٹاک کے لئے ویڈیو نہیں بنا پایا۔ اس بچے نے بھی ایک ویڈیو دیکھی ہوگی جہاں یہ سٹنٹ کیا گیا تھا۔ ایسے سٹنٹس کے لئے ویڈیو بنانے کے دوران درجنوں وقفے لئے جاتے ہیں جبکہ ہمیں لگتا ہے کہ یہ پوری ویڈیو ایک ہی وقت میں ایک کلک سے فلمائی گئی ہے۔

یہ تمام معلومات، سکلز اور آلات دراصل میڈیا لٹریسی کے زمرے میں آتے ہیں۔ جب تک آپ میڈیا لیٹریٹ نا ہوں تو آپ میڈیا کو سمجھ بھی نہیں سکتے۔ آپ کو خبر سے لے کر گرافکس تک کسی چیز کی حقیقی سمجھ نہیں آ سکتی۔ میڈیا لیٹریسی سے مراد وہ صلاحیت ہے جس کے ذریعے آپ میڈیا کے مختلف ذرائع، ان ذرائع سے پنپنے والا میٹریل اور جس ماحول میں یہ میٹریل تیار ہوتا ہے، وہ سمجھیں اور پرکھیں۔ میڈیا لیٹریسی کے اپنے مخصوص سکلز ہوتے ہیں جن کو سمجھنا اور پرکھنا نہایت ضروری ہے۔ میڈیا پر موجود کوئی بھی کنٹینٹ یا تو مخصوص پیرائے میں معلومات کے لئے ہوگا یا پھر انٹرٹینٹمنٹ کے لئے۔ آپ کو یہ علم ہونا ضروری ہے کہ یہ مواد سیاسی، تفریحی، یا معلوماتی پیرائے میں تیار ہوا ہے اور انہی مقاصد کے لئے استعمال ہونا ہے۔

میڈیا لیٹریٹ ہونا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ آپ نے سمجھنا ہوتا ہے کہ ایک خبر کو یا پھر کسی بھی قسم کے مواد کو پچھلی خبر اور مواد سے کیسے جوڑا جائے اور جس ماحول میں یہ تیار ہوا ہے اسے کیسے سمجھا جائے۔ ذرا سا غور کرنے پر آپ ایک بہترین میڈیا لیٹریٹ ہو سکتے ہیں۔ ایک بہتر میڈیا لٹریٹ کو یہ ساری چیزیں معلوم ہوتی ہیں۔ ورنہ اسی طرح حمید اللہ کی صورت میں نوجوان جان کی بازی ہارتے رہیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حمید اللہ سمیت دیگر جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں یہ سب میڈیا لیٹریسی نہ ہونے کی وجہ سے پیش آئے ہیں۔

مثال کے طور پر شانگلہ میں جس بچے نے اپنے گلے میں موت کا پھندا ڈالا، اسے یہ علم ہر گز نہیں تھا کہ جس ویڈیو میں ایک صارف خود کو پھندا لگا کر ویڈیو بنا رہا ہے وہ دراصل دو یا تین شاٹس کا مجموعہ ہے۔ اس ویڈیو میں صارف نے پہلے گلے میں لگا پھندا دکھایا، پھر دوسرے شاٹ میں اپنے لٹکتے ہوئے پیر دکھائے ؛ جس کے دوران وہ اپنا اوپری حصہ نہیں دکھا رہا ہوتا ہے کیونکہ حقیقت میں وہ اوپر کسی چیز کے سہارے لٹک رہا ہوتا ہے۔

اسی طرح خود کو گولی مارنے والے حمید کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ جن ویڈیوز میں لوگ اپنے اوپر پستول تان کر گولی چلاتے ہیں وہ حقیقت میں ایسا نہیں کرتے بلکہ یہ سب بیک گراؤنڈ میوزک اور کچھ ایڈیٹینگ کا کمال ہوتا ہے۔ نہ ہی پستول میں گولی ہوتی ہے، نہ ہی پستول اصلی ہوتی ہے اور نہ ہی پستول سے گولی چلتی ہے۔ گولی چلنے کی آواز سے لے کر رونے، چیخنے، آہ و بکا اور چلانے کی آواز تک، یہ سب پہلے سے تیار پڑے ہوتے ہیں۔ اگر حمید کو یہ علم ہوتا تو امکان یہی تھا کہ وہ ایک بہتر میڈیا لیٹریٹ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ایک بہترین ویڈیو بنا پاتے لیکن افسوس کہ اسے یہ سب معلوم نہیں تھا۔

اسی طرح اگر ٹک ٹاک پر یا کسی بھی ذرائع پر مار دھاڑ کی ویڈیو آتی ہے، تو آپ سمجھ جائیں کہ یہ حقیقت میں نہیں ہو رہا بلکہ یہ بی جی ایم کی مدد سے باقاعدہ پہلے سے تیار شدہ ماحول میں بنائی گئی ویڈیو ہے۔ یاد رہے کہ سکرین پر دکھائی دینے والی ویڈیوز ہمیشہ فیک ہوتی ہیں، مطلب یہ کہ سکرین کے پیچھے اور سکرین کے سامنے دونوں کے مابین زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔

خود کو میڈیا کے اثرات سے بچانے کا واحد حل یہی ہے کہ آپ مختلف پلیٹ فارمز پر پڑے کیمرے کے پیچھے سے بنائے ویڈیوز دیکھیں۔ گرین سکرین اور وی ایف ایکس پر تھوڑی سے آگاہی حاصل کریں۔

ڈیجیٹل میڈیا کی تیز رفتاری کو دیکھتے ہوئے، ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا لیٹریسی کو سرکاری سطح پر توجہ دی جائے۔ حکومت میڈیا لیٹریسی کو نصاب میں شامل کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے، ورنہ آنے والے دور میں جو انتشار پھیلے گا، اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments