فلسطین: تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی؟


جب بھی فلسطینیوں کے حقوق کی بات شروع ہوتی ہے، خواہ وہ کتنی ہی معروضی کیوں نہ ہو، دو طرح کے فوری رد عمل سامنے آتے ہیں۔ اسرائیل کے حامی ایسی ہر کسی رائے کو، یہود دشمنی، یا Antisemitism کا غلغلہ بلند کر کے، مختلف میڈیا میں سنسر شپ کا سلسلہ شروع کروا دیتے ہیں۔ دوسری جانب وہ لوگ جو تاریخی حقائق سے یا تو واقف نہیں ہوتے یا دانستہ طور پر حقائق سے رو گردانی کرتے ہیں، موجودہ تنازعہ میں صرف اور صرف حماس کو مورد الزام قرار دیتے ہیں، اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ہر صاحب رائے، حماس کو فنا کرنے کا مطالبہ کرے۔ ان میں بدقسمتی سے ایسے جریدوں کے مدیر، اور رائے نگار بھی شامل ہیں جن سے ہمارا تعلق ہے۔

اس کے باوجود عالمی رائے عامہ میں ایسے بھی ہیں جو حقائق کو سمجھاتے ہوئے، تنازعہ کے حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں ‘بیتسیلم’ B’Tselem جیسی اسرائیلی تنظیم، میڈیا ادارہ Democracy Now اور نیویارک ٹائمز یا گارڈین جیسے میڈیا اداروں کے کچھ صحافی اور مبصر بھی شامل ہیں۔

اس ضمن میں نیو یارک ٹائمز نے ایک تفصیلی مضمون میں ان فوری محرکات کا جائزہ لیا ہے، جو موجودہ گمبھیر صورت حال کا باعث بنے۔ اس رپورٹ میں اسرائیلی پارلیمان کے سابق اسپیکر، اور عالمی صیہونی تنظیم کے سابق چیئرمین، Avraham Burg کے ایک بیان کا حوالہ دیا گیا ہے، جنہوں نے کہا کہ “یہ سالہا سال سے غزہ پر جبری حصار، سخت پابندیوں اور دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقوں پر کئی دہائیوں سے جاری قبضہ اور اس سے زیادہ عرصہ سے اسرائیلی ریاست میں جاری عربوں کے ساتھ نسلی امتیاز، کا قدرتی نتیجہ تھا”۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ، ‘آتش گیری کے سب اسباب پہلے ہی سے موجود تھے، جن کو صرف ایک چنگاری کی ضرورت تھی، اور یہ چنگاری مسجد اقصٰی میں ہونے والے واقعات نے فراہم کر دی “۔

مسجد اقصیٰ کے ضمن میں نیویارک ٹائمز کے اسرائیلی بیورو چیف کی تحریر توجہ طلب ہے۔ اس نے لکھا کہ “اس ہفتہ غزہ سے پھینکے جانے والے پہلے راکٹ سے، ستائیس دن قبل، پہلی رمضان کو اسرائیلی پولیس مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئی، اور وہاں کے فلسطینی کارکنوں کو دھکیلنے کے بعد، اس نے لاؤڈ اسپیکروں کے وہ تار کاٹ دیے جن سے مسجد اقصیٰ کے چار تاریخی میناروں سے اذان اور نماز کی کارروائی نشر ہونی تھی۔ یہ دراصل 13 اپریل کی شام تھی۔ اس دن اسرائیل میں ان لوگوں کی یاد منائی جاتی ہے، جو اسرائیل کے لیے جنگوں میں ہلاک ہوئے۔ اس دن بیت المقدس میں یہودیوں کے مقدس مقام، دیوار گریہ، پر اسرائیلی صدر کا خطاب بھی ہونا تھا، اور اسرائیلی افسروں کو خدشہ تھا کہ ان کی آواز اذانوں میں دب جائے گی۔ اسرائیلی پولیس نے تار کاٹنے کے واقعہ کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی، اور بیرونی دنیا میں بھی یہ خبر نہیں پھیلی۔”

trump at wailing wall

لاؤڈ اسپیکروں کے کاٹے جانے کے فوراً بعد اسرائیلی پولیس نے بیت القدس کا وہ چھوٹا سا میدان بھی بند کر دیا تھا جو وہاں “دمشقی دروازہ” کے باہر ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں فلسطینی مسلمان نوجوان شام کی نمازوں کے بعد جمع ہو کر رمضان مناتے ہیں۔ پولیس کا کہنا تھا کہ اس نے ایسا زیادہ بڑے مجمع کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا تھا تاکہ امن و امان کی صورت حال نہ پیدا ہو۔ فلسطینیوں نے اسے ایک اور ذلت انگیز اقدام قرار دیا، جس کے بعد ان میں اور پولیس میں تصادم کئی دن جاری رہا اور اپریل کے تیسرے ہفتہ میں اس میدان کو کھولے جانے کے بعد اس میں کچھ کمی آئی۔

اسی دوران فلسطینی نوجوانوں نے اسرائیلیوں پر حملے شروع کیے اور سوشل میڈیا پر حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے جواب میں ایک شدت پرست اسرائیلی تنظیم، نے جوابی کارروائی شروع کی اور ‘عربوں کو مارنے’ کے نعرے لگاتے ہوئے ایک فلسطینی گھر پر حملہ کیا، اور ان گاڑی سواروں پر تشدد کیا جو ان کے نزدیک عرب تھے۔

اسی اثنا میں یروشلم کے مشرقی علاقہ، شیخ جراح، میں ایک اور تنازعہ زور پکڑ رہا تھا۔ یہاں کم ازکم بیس سال سے اس علاقہ سے فلسطینوں کی بے دخلی کے مقدمات عدالتوں میں جاری ہیں۔ یہ ایک سابقہ فلسطینی علاقہ ہے جہاں فلسطینی سالہا سال سے آباد ہیں۔ اسرائیلی قوانین کے مطابق اسرائیلی یہودی تو ان علاقوں میں بس سکتے ہیں جہاں وہ قیام اسرائیل سے پہلے رہائش کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن اسرائیلی عربوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ اسی ماہ ایسے چھ عرب خاندانوں کے خلاف فیصلہ ہونے کا امکان ہے۔ فلسطینی اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، اور ان پر اسرائیلی پولیس کے حملوں اور تشدد کی خبریں آئیں ہیں۔ مختلف سفارت کار ان کارروائیوں کی مخالفت کر رہے تھے۔

حالیہ تنازعہ میں حماس کا پہلا راکٹ دس مئی کو پھینکا گیا۔ یہاں یہ بھی یا رکھنا کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان موجودہ بڑا تنازعہ تقریباً سات سال بعد شروع ہوا ہے۔ پہلا فلسطینی انتفاضہ سولہ سال قبل ہوا تھا۔

حالیہ قضیہ کے سیاسی محرکات بھی بہت اہم ہیں۔ گزشتہ کئی سال سے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو، Nethanyahu، ایسی اقلیتی حکومتیں بنانے پر مجبور ہیں، جن میں انہیں دائیں بازو کے شدت پرست اسرائیلی مذہبی گروہوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ان کو فوجداری مقدموں کا بھی سامنا ہے۔ اپنی سیاسی اور ذاتی بقا کے لیے وہ آج کل بھی شدت پرست یہودی جماعتوں سے مذاکرات اور لین دین میں مصروف ہیں۔ فلسطینیوں کے خلاف حکومت کی سختی ان مذاکرات میں ان کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ایسا وہ وہ گزشتہ تقریباً بیس سال سے کرتے رہے ہیں۔ ان کے نزدیک فلسطینی حقوق کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

دوسری جانب فلسطینی بھی ایک سیاسی خلفشار کا شکار ہیں۔ فلسطینیوں کی قومی حکومت، Palestinian National Authority چلاتی ہے۔ یہ ایک عارضی انتظام ہے جو، اوسلو معاہدوں کے بعد طے پایا تھا۔ اس میں بنیادی کردار PLO کی باقیات کے ہاتھ میں ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ  PLO کو سالہا سال خود اسرائیل نے کمزور کیا۔ ایک زمانے تک اسرائیل اور اس کے مغربی حامیوں بالخصوص امریکہ کی نظر میں PLO اور اس کی ساتھی جماعتیں دہشت گرد جماعتیں تھیں۔ ان جماعتوں کو کمزور کیے جانے کا ایک اہم نتیجہ یہ تھا کہ فلسطینیوں کے حقوق اور اہم تمدنی معاملات کھٹائی میں پڑ گئے۔ جس کے نتیجہ میں دائیں بازو کی فلسطینی مذہبی جماعت حماس کو فروغ ملا۔ حماس کے بارے میں یہ حقیت جاننا ضروری ہے کہ اس کا تعلق ہمیشہ سے مصر کی شدت پرست اسلامی جماعت اخوان المسلمون سے تھا۔ بعض مبصر یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ حماس کا قیام اصلاً PLO کو کمزور کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔

یوں فلسطینی دو واضح گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو معاہدوں سے قبل PLO اور اس کی حامی جماعتیں اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتی تھیں۔ ان معاہدوں کے بعد ان کے رویوں میں نرمی پیدا ہوئی۔ لیکن یوں وہ دائیں بازو کے مذہبی گروہوں کے نزدیک غدار قرار پائیں جس کا فائدہ حماس کو پہنچا۔

حماس PNA کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتی اور اس کا غزہ پر مکمل کنٹرول ہے جہاں وہ حکمران ہے۔ فلسطینی معاملہ کے ہر طالب علم کو جان رکھنا چاہیے کہ حماس کے قیام میں، اسرائیلی جارحیت اور اسرائیلی حکومت کے ہاتھوں فلسطینیوں کی شدید حق تلفی، اہم ترین عناصر ہیں۔ PLO کی شکست و ریخت کے بعد ہر اسرائیلی حکومت حماس کو بھی تباہ کرنا چاہے گی۔ لیکن کوئی بھی اسرائیل حکومت فلسطینیوں کو حق دینے کی کوئی بات نہیں مانے گی۔

موجودہ تنازعہ کے دوران تقریباً پندرہ سال بعد فلسطینی انتخابات ہونے والے تھے۔ یہ انتخابات دریائے اردن کے مغربی کنارے کے کٹے پھٹے اسرائیلی علاقہ اور غزہ دونوں ہی میں ہونے والے تھے۔ اپریل کے آخری ہفتہ میں محمود عباس نے انتخابات کے التوا کا اعلان کر دیا۔ جس کو حماس نے ان کی کمزوری قرار دیا ہے۔ اور اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ موجود صورت حال میں جارحیت کی ابتدا حماس نے نہیں کی تھی۔ وہ تقریباً سات سال سے غیر متحرک تھی۔ سو اس پر کوئی بھی فوری الزام لگانا درست نہیں ہے۔ ہم بذات خود حماس کے قیام اور اس کے اقدامات کے کبھی بھی حامی نہیں رہے۔ ہمارا جھکاؤ ہمیشہ سیکولر فلسطینیوں کی طرف تھا اور رہے گا۔

فلسطین اور اسرائیل کے تنازعہ میں چند اور تلخ حقائق بھی یاد رکھنا ضروری ہیں۔ ان میں یہ بہت اہم ہے کہ یہود دشمنی میں اب سے پہلے یورپی عیسائی اقوام پیش پیش تھیں۔ ان میں پولینڈ، روس، اور کئی یورپی ممالک شامل تھے۔ بعد میں ہٹلر کے عہد حکمرانی میں وہ ظلم برپا ہوا جسے Holocaust کہتے ہیں۔ یہ وہ بدترین انسانی نسل کشی تھی جس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ کہتے ہیں کہ اس میں تقریباً ساٹھ لاکھ یہودیوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔

دوسری جنگ عظیم میں امریکہ یورپ اور یہودیوں کا نجات دہندہ بنا اور جب سے اب تک امریکہ ہی اسرائیلی ریاست کا سب سے اہم اتحادی اور مدد گار ہے۔ اس ضمن میں اسی ہفتہ، بی بی سی کی ایک رپورٹ میں یاد دلایا گیا ہے کہ “امریکہ کے ڈیمو کریٹک صدر اوباما نے ایک طویل المیعاد امدادی معاہدہ کے تحت اسرائیل کو اڑتیس ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا۔ ایک اور معاہدہ کے تحت گزشتہ اسرائیل میں یہودی تارکین وطن کو بسانے کے لیے پچاس لاکھ ڈالر کی امداد دی گئی۔ اس کے بعد صدر ٹرمپ نے اسرائیل کی حمایت کو اور مضبوط کیا، اور یروشلم میں امریکی سفارت خانہ کھولا۔ حالیہ تنازعہ کے دوران صدر بایئڈن، نے اسرائیلی فضائی دفاع کے لیے سات سو پچاس ملین ڈالر کا اعلان کیا۔ صدر بائیڈنؔ ہی کی حکومت نے حالیہ جھگڑے میں اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی کسی بھی کوشش کو رد کر دیا۔ کسی بھی سازشی نظریہ سے قطع نظر یہ جان رکھنا چاہیے کہ امریکی اسرائیلی اتحاد، مشرق وسطٰی میں اہم تزویراتی اور ترجیحاتی مفادات کی وجہ سے ہے۔ یہ مفادات فلسطینی حقوق کی ہر جدوجہد کے مخالف ہیں۔ چاہے ایسی جد و جہد PLO کرے یا حماس۔

فلسطینی حقوق کی جد و جہد کو سمجھنے کے لیے ہمیں ممتاز یہودی نژاد دانشور، نوآم چومسکی کی معروضی تحریروں اور آرا کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔ یہ الگ بات کہ شدت پرست اسرائیلی طبقات انہیں بھی یہود دشمن گردانتے ہیں۔ انہوں نے لکھا، “فلسطینیوں کو دو اختیار دیے گئے تھے : (1) وہ ایک کھلے قید خانہ میں محدود حقوق کے ساتھ زندگی گزاریں، اور کم اجرتی مزدوریاں کریں جن میں انہیں ماجور کا کوئی بھی حق حاصل نہ ہو۔ (2) ہلکی سی بھی مزاحمت کر کے سخت ترین قید و بند کا سامنا کریں۔ اجتماعی سزائیں برداشت کریں، جن میں گھروں کا تباہ کیا جانا، بغیر مقدمات کے حق کے گرفتاریاں، وطن بدر کیا جانا، اور قتل کئے جانا شامل ہے۔”

فلسطینی مسئلہ کا، کوئی بھی حل کسی مذہبی یا مسلم جہاد میں نہیں ہے۔ سب سے سے پہلے ہمیں ماننا ہو گا کہ نازیوں کے ہاتھوں یہودی نسل کشی یا Holocaust ایک حقیقت ہے۔ یہودی من حیث القوم اپنی ریاست اور بقا کا حق رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ فلسطینی بھی اپنی ریاست اور اپنے انسانی حقوق کا ویسا ہی حق رکھتے ہیں جیسا کہ یہودی۔ اسرائیل کے قیام ہی سے اسرائیلی ریاست نے فلسطینیوں کے ساتھ جو حق تلفی اور ظلم کیا ہے، کینیٖڈا میں مقیم ممتاز آرٹسٹ امین رحمان کی نظر میں یہ ویسی ہی زیادتی ہے جو ہٹلر یہودیوں کے ساتھ کر رہا تھا۔ ان کا اشارہ ان نسل کش اقدامات کی طرف ہے جو اسرائیلی حکومت نے روا رکھے ہیں۔

ہماری نظر میں فلسطینی معاملات معروضی زمینی حقیقتوں کی روشنی میں ہی حل ہوں گے۔ اور اس کا عملی نتیجہ تبھی نکلے گا جب سب سے پہلے اسرائیل کا اہم طرح اتحادی امریکہ اور اس کے دیگر حلیف فلسطینیوں کے حقوق کو تسلیم کریں گے۔ اس ضمن میں انہیں حماس کو بھی مسئلہ کے حل میں شامل کرنا ہوگا بالکل اسی طرح جس طرح کے انہوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل اور حماس دونوں ہی کو شہری آبادیوں کو نشانہ بنانا بند کرنا ہو گا۔ کئی مبصرین کے نزدیک یہ ایک خام خیالی ہے۔

حماس کے غیر اسرائیلی ناقدین کو یاد رکھنا چاہیے کہ دہشت گردی کے جو الزام آج فلسطینی تناظر میں حماس پر لگتے ہیں، یہی الزام اس سے پہلے PLO، PFLP اور اسی طرح کی دیگر جماعتوں پر لگتے رہے ہیں۔ یہ ساری جماعتیں 1967 سے پہلے کی سرحدوں میں اسرائیل اور فلسطین ریاستوں اور ان میں یہودیوں اور فلسطینیوں کی بقائے باہمی کے حق کو تسلیم کر چکی ہیں۔ گزشتہ دنوں حماس کے ایک رہنما نے ایک بار پھر حماس کی اس پالیسی کا اعادہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک فلسطینیوں کے مکمل حقوق نہیں ملیں گے، کوئی بھی جنگ بندی عارضی ہی رہے گی۔ اور ہر چند سال کے بعد جنگ ابھرتی رہے گی۔

ہم بار بار کہتے رہیں گے کہ فلسطینوں کے حق کی آواز اٹھانا برحق ہے، یہود دشمنی یا Anti۔semitism ہرگز نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments