ننھی چڑیا کی موت


ننھی چڑیا کی وہ پہلی اڑان نہیں تھی۔ مگر اس اڑان میں ڈھیر سارے خوف، پور پور اذیت اور میلوں تک پھیلی دہشت تھی۔ کرب ناک لمحوں نے پہلی بار چڑیا سے بہت طویل گفتگو کی تھی۔ اپنے گھروندے سے باہر نکل کر چڑیا نے فضا میں کچھ دیر کھل کر سانس لیا تاکہ اپنے اس خوف کو آزاد فضاوں کے سپرد کر سکے۔ لیکن خوف اور دہشت تو اس روز چڑیا کی سانسوں کے ساتھ ہی سفر کر رہے تھے۔ آزاد فضاوں کے ساتھ اپنا حال دل بیان کرتے ہوئے ایک وجد کے عالم میں چڑیا نے بہت سی اڑانیں بھری تھیں۔

بلندیوں کے ساتھ ہم کلام ہوتے ہوئے ہر بار اس کی آنکھوں نے سیاہ رنگوں کی ایک قطار دیکھی۔ ان رنگوں میں چیختے چلاتے دکھ تھے ،میلوں تک پھیلا درد تھا اور صدیوں پر محیط ویرانیاں تھیں۔ صور پھونکتی ان چیخوں کی آوازیں سن کر چڑیا کا دل کہیں پستیوں میں ڈوب رہا تھا۔ ایک طویل اڑان بھرنے کے بعد وہ واپسی کی تیاریوں میں تھی۔ کہ اچانک فضاء دھویں سے بھر گئی۔ واپسی کے تو گویا تمام راستے بند ہو گئے۔ فضا میں پھیلے اداس لمحوں نے دو آنکھیں بنائیں۔

ان آنکھوں میں پھیلے کرب کی داستان سننا کوئی آسان کام تھوڑی تھا۔ چڑیا کے پر جیسے بے جان سے ہو گئے تھے۔ وہ زمین پر اتر آئی تھی۔ وہی زمین جہاں اس روز صرف درد ہی تقسیم ہو رہا تھا۔ چڑیا ایک ریت کے ٹیلے کے پاس سہم کر بیٹھ گئی۔ اس کی نظروں کے سامنے طویل قامت چند بونے ہاتھوں میں سنگ اٹھائے بہت شور کر رہے تھے۔ سنگ زنی کا نشانہ چڑیا سے چند کوس کے فاصلے پر موجود وہ دو نفوس تھے۔ جن کی مہربان فطرت سے چڑیا بہت اچھی طرح واقف تھی۔ دھنک رنگ جیسے خوابوں کے ان مسافروں کو یوں پتھروں کی بارش میں ٹوٹتے بکھرتے دیکھ کر چڑیا بہت تکلیف میں تھی۔ چند آنسو اس کی ننھی آنکھ سے نکلے اور ریت میں جذب ہو گئے۔ خواب جیسے چند لمحے اس کی آنکھوں کے سامنے ٹھہر گئے تھے۔

***************

”تعلیم شعور دیتی ہے
تعلیم آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔
تعلیم سے آگہی ملتی ہے۔ ”

چڑیا اس چھوٹے سے کمرے کی کھڑکی میں بیٹھی وہ منظر دیکھ رہی تھی جو دنیا کے تمام مناظر سے زیادہ حسین تھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے بچے جو کچھ وقت پہلے تک صرف وڈیروں کے جوتے صاف کرنے اور ان کی زمینوں پر ہل چلانے تک محدود تھے۔ اب علم حاصل کر رہے تھے اور یہ شعور انہیں ایک نازک سی لڑکی روشنی کی بدولت ملا تھا۔ چڑیا بچوں کو انہماک سے پڑھتے دیکھ کر خوشی سے پھولی نہیں سماتی تھی۔ خوشبوؤں سے گیت گاتی چڑیا کی ان دنوں اڑان دیکھنے والی ہوتی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی عقاب کی اڑان ہو۔ انہی دنوں چڑیا کچھ بیمار ہو گئی۔ چند روز بعد واپس آئی تو منظر کچھ بدلا بدلا سا تھا۔ اس کمرے میں صرف دو بچے تھے اور روشنی کمرے میں موجود نہیں تھی۔ چڑیا کمرے سے ملحقہ اسٹور روم کی دیوار کے اوپر بیٹھی کچھ نوکیلے جملے سننے لگی۔ جن کی چبھن بہت تیز تھی۔

”اے استانی،بس بہت ہو گیا اب تم شہر جاو،ہمارے بچوں کو خراب مت کرو۔
مہر میربخش اپنی مونچھوں کو تاو دیتے ہوئے نہایت رعب دار انداز میں بول رہا تھا۔
”میں تو انہیں شعور اور آگہی دے رہی ہوں۔ شاید آپ کو کسی نے غلط بتایا ہے۔“
روشنی نے وڑیرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک عزم سے کہا۔
”دو دن تک کا وقت دے رہا ہوں تمہیں ،اپنا سامان باندھو اور اپنی شکل گم کرو۔“
وڈیرے کی آنکھوں میں موجود وحشت دیکھ کر چڑیا کا ننھا سا دل بھی کانپ گیا تھا۔
”اور اگر میں ایسا نہ کروں تو۔“
روشنی نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔

”پھر اپنے انجام کے لئے تیار رہنا اور ہم بغاوت کرنے والوں کا ایسا عبرتناک انجام کرتے ہیں کہ ان کی آنے والی نسلیں بھی اسے بھول نہیں پاتیں۔“

وڈیرئے کی یہ دھمکی محض دھمکی نہیں تھی۔ لیکن روشنی نے وڈیرے کی اس دھمکی کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا تھا۔ اس آنے والے انجام کا سوچ کر چڑیا کی سانسوں کے ساتھ دوڑتے خوف کی عمر لمحوں میں بہت طویل ہو گئی تھی۔

***************

پتھروں کی بارش تھی کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ چڑیا بہت بے بس تھی۔ ان میں چھوٹے ،بڑے ،کمزور،طاقت ور،ہلکے ،بھاری ہر طرح کے پتھر شامل تھے۔ ان پتھروں کو یہی حکم تھا کہ سامنے موجود گوشت پوست کی ہستیوں کو مٹی کے ڈھیر میں بدل دیں۔ آگ برساتے سورج کے سامنے دو زندہ انسانوں کی قبریں بس اب تیار ہونے ہی والی تھیں

***************

چڑیا اس روز اسی کھڑکی میں تمام رات بیٹھی رہی۔ اس کا دل نہیں تھا کہ وہ روشنی کو چھوڑ کر جائے۔ اس پورے قصبے میں ایک اور شخص بھی تھا جس کی آنکھیں بھی روشنی کی ہی طرح بنجر زمینوں میں سبزہ اگانے کے خواب دیکھتی تھیں۔ خوابوں کا یہ طویل سفر وہ روشنی کے قدم سے قدم ملا کر طے کرنا چاہتا تھا۔ چڑیا ان دونوں کی خاموش محبت سے واقف تھی۔ رات کا جانے کون سا پہر تھا جب چڑیا نے زارون کی درد میں ڈوبی ہوئی آواز سنی

”روشنی ہم کل صبح ہوتے ہی یہاں سے نکل جائیں گے ،جب حالات مناسب ہوں گے تب واپس آ جائیں گے“
زارون روشنی سے منت بھرے انداز میں کہہ رہا تھا

”زارون ،میں دھمکیوں سے ڈرنے والی نہیں ہوں۔ میں نے پولیس کو اطلاع کر دی ہے۔ اس وڈیرے کے اب اس علاقے میں زیادہ دن نہیں ہیں۔“

روشنی کے لہجے میں اس کا عزم بول رہا تھا
”روشنی،پولیس ان کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ مان لو میری بات“

زارون کے لہجے میں شکستگی کے آثار نمایاں تھے۔ اس رات جیت روشنی کی ہی ہوئی لیکن روشنی کے پیچھے بھاگتے اندھیرے اب اس سے لمحے بھر کے فاصلے پر ہی تھے۔ چڑیا اس آگ جیسے ان لمحوں سے ڈرتی تھی۔ اس نے اس روز بہت لمبی اڑان بھری تھی۔ وہ اس آگ کی حدت سے کانپتی تھی لیکن قدرت اسے وہیں لے آئی جہاں روشنی اور زارون کو کاری کیا جا رہا تھا۔

چڑیا ابھی اس سنگ زنی کو روکنے کا سوچ رہی تھی کہ ایک زوردار پتھر چڑیا کے وجود کو بھی لہو لہو کر گیا۔ ننھی چڑیا پتھر کے اچانک وار کو روک نہ پائی۔ وہ شدید تکلیف میں تھی۔ لیکن اس کی چند سانسیں ابھی باقی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی روشنی اور زارون کے خون میں لتھڑئے ہوئے وجود پڑئے تھے۔ پتھروں کی بارش اب رک چکی تھی۔ ہجوم منتشر ہو چکا تھا۔ روشنی اور زارون کے مردہ وجود کو کاری کے قبرستان میں منتقل کیا جا رہا تھا۔ دور کہیں کچھ بچے سسکیاں لیتے ہوئے کہہ رہے تھے۔

”تعلیم شعور دیتی ہے
تعلیم آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے
تعلیم سے آگہی ملتی ہے۔ ”

یہ سن کر چڑیا کی آنکھوں میں ایک بار پھر امید کے دیے جلنے لگے ساتھ ہی اس نے ہمیشہ کے لئے آنکھیں موند لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments