عورت کیا چاہتی ہے؟


صبح علی احمد خان صاحب سے بات ہو رہی تھی، انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی صحافیانہ زندگی کی یادداشتیں قلم بند کر رہے ہیں۔ ہم نے علی احمد جو اب سارے صحافیوں کے لئے خان صاحب ہیں کے ساتھ ہفت روزہ محور اور روزنامہ امن میں 79 اور 1980 کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں کام کیا ہے۔ معلوم نہیں کیوں لیکن جب انہوں نے اس زمانے کی بات چھیڑی تو ہماری ”شعور کی رو“ چلنا شروع ہو گئی۔ ہمیں مولانا شاہ احمد نورانی کی دعوت افطار یاد آ گئی جس کا اس زمانے میں کراچی کے مرد صحافیوں کو انتظار رہتا تھا کیونکہ سیاسی خبریں مل جاتی تھیں یا پیر پگارا سے مرد رپورٹروں کی ملاقاتیں جہاں ہونے والی باتیں اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بنتی تھیں۔ مرحوم پیر پگارا کی پیشگوئیاں مزے کی ہوتی تھیں۔ ظاہر ہے خواتین صحافیوں کو کبھی مدعو نہیں کیا جاتا تھا۔ ہمارے لئے مسئلہ افطار کی دعوت میں جانے کا نہیں تھا، مسئلہ یہ تھا کہ بہت سے شعبے صحافی عورتوں کے لئے شجر ممنوعہ سمجھے جاتے تھے۔ سیاسی اور مذہبی سرگرمیاں جو دراصل سیاسی ہی ہوتی تھیں، کی کوریج مرد رپورٹروں کی ذمہ داری تھی۔ عورتوں کو رپورٹر رکھا بھی نہیں جاتا تھا۔ وہ تو سب ایڈیٹر ہوتی تھیں۔ انگریزی اخبارات میں کوئی ایک آدھ خاتون رپورٹر مل جاتی تھی۔ اردو اخبارات میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ویسے اخبار خواتین میں کام کرنے والی صحافی رپورٹنگ کرتی تھیں لیکن وہ ہفت روزہ پرچہ تھا۔ اور خواتین کا تھا۔ روزناموں میں بھی عورتوں کو خواتین کے صفحے تک محدود رکھا جاتا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں ایک خاتون اسسٹنٹ یا ڈپٹی کمشنر کا انٹرویو کرنے گئی تو ان کی اپنے مرد کولیگز کے ساتھ یہی بحث چل رہی تھی کہ رات کو چھاپے مارنے والی ٹیم کے ساتھ وہ کیوں نہیں جا سکتیں۔ ہم خود یہی سنتے ہوئے بڑے ہوئے کہ لڑکیوں کے لئے تدریس یا میڈیکل پروفیشن ہی موزوں رہتا ہے۔ خیر لڑکیوں نے یہ بات مان کر نہیں دی اور ہر شعبے میں گئیں۔ مگر ہوا کیا؟ کیا جو وہ چاہتی تھیں، مل گیا، ظاہر ہے نہیں ملا ورنہ عورتوں کو تحریک چلانے اور مارچ کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ 2010 سے ہم نئی نسل کی لڑکیوں کا ایکٹو ازم دیکھ رہے ہیں۔ یہ لڑکیاں اپنی ماؤں اور نانیوں دادیوں کے مقابلے میں مختلف حالات میں بڑی ہوئی ہیں۔ 1960 کے عشرے کے وسط میں جو نسل سیاسی طور پر فعال تھی، اس کا اپنی ماؤں سے رسم و رواج اور سماجی قدروں کے بارے میں جھگڑا رہتا تھا۔ لیکن ان نئی فیمنسٹ لڑکیوں کا خاندانی زندگی کا تجربہ مختلف ہے کیونکہ یا تو ان کی مائیں خود اپنے زمانے کی فیمنسٹ تھیں یا انہوں نے عورتوں کے حقوق کے حصول کی تحریک میں حصہ نہ لینے کے باوجود اس کے بہت سے اصولوں کو مان لیا ہے۔ اور وہ اپنی بیٹیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنا مقام بنائیں۔ اس دور کی لڑکیاں پچھلی نسل کے مقابلے میں کہیں زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔ اور ان کی اکثریت کام کرنا چاہتی ہے۔ ان لڑکیوں کے ایکٹوازم کو آپ فیمنزم کی چوتھی لہر کہہ سکتے ہیں۔

پہلی لہر جب آئی تھی جب عورتوں نے ووٹ کے حق کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے دوسرے مطالبات بھی تھے، مثلاً خاندان میں مساوی حقوق (باپ اور شوہر کی حاکمیت کا خاتمہ) ، مساوی تنخواہ اور اعلیٰ تعلیم اور پروفیشنز تک رسائی، ورکرز کے حقوق اور اسی طرح کے دیگر بہت سے حقوق کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔ اس لہر میں فیمنزم کے دوسرے دھارے بھی شامل تھے جو ان مطالبات کے خلاف تھے اور انہیں اصلاحات پسند یا ریفارمسٹ قرار دیتے تھے۔ انیسویں صدی کے اختتام پر یورپ اور لاطینی امریکہ کی انارکو۔ فیمنسٹ خواتین سرمایہ داری کے خاتمے کی بات کر رہی تھیں اور ان اصلاحات کو بورژوازی کا مسئلہ قرار دیتی تھیں۔ دوسری طرف انقلاب فرانس لانے میں بھی ان مطالبات کا ہاتھ تھا۔ اس کے بعد بھی فیمنسٹ ایکٹوزم شمال کے صنعتی ممالک تک محدود نہیں تھا بلکہ یہ ایک بین الاقوامی اور آفاقی تصور تھا، ہر عورت کے دل کی آواز خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی ہو۔ پان۔ امریکن تحریک کی عورتوں کی پہلی میٹنگ 1922 میں بالٹی مور میں ہوئی تھی جس میں تیس ممالک کی عورتوں نے شرکت کی تھی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں جنوبی ایشیا، آسٹرلیشیا، اور مشرق وسطیٰ اور بعید میں بھی تحریکیں چل رہی تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی زبان اور صنعتی ممالک کو تب بھی برتری حاصل تھی۔ لیکن جنوب میں دیسی فیمنسٹس کو بھی اپنی شناخت اور جدوجہد کا واضح ادراک تھا۔ بہر حال یہ تحریکیں چھوٹے پیمانے پر چلتی تھیں، آنے والے عشروں میں ان کا زور کم ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ 1970 آ پہنچا، تب اور 1980 کے عشرے میں بھی فیمنزم کی تحریک پھیلتی چلی گئی۔

فیمنزم کی دوسری لہر نوجوانوں کی ایک وسیع تر تحریک کا حصہ تھی جس نے اعلیٰ تعلیم کی بدولت جنم لیا۔ اس نسل کی ایکٹوسٹس ریڈیکل آئیڈیاز کو قبول کرنے میں دیر نہیں لگاتی تھیں۔ وہ سماجی اور سیاسی تبدیلی کے لئے بے تاب تھیں اور بین الاقوامی مسائل کو اپنی سیاست کا حصہ بناتی تھیں۔ وہ امریکہ کی سول رائٹس کی تحریک سے متاثر تھیں، نسلی امتیاز اور ویت نام کی جنگ کے خلاف تھیں۔ جب کہ پاکستان میں چین نواز سوشلسٹ فیمنسٹس ماؤزے تنگ کے اس نعرے کی شیدائی تھیں کہ ”عورتوں نے نصف آسمان تھام رکھا ہے“ ۔ اس زمانے میں بہت سے نوجوان سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہوئے۔ اور 1968 میں جو کچھ ہوا وہ صرف یورپ تک محدود نہیں رہا بلکہ لاطینی امریکہ، فلپائن اور دنیا کے دیگر حصوں تک پھیل گیا۔

پاکستان میں ایوب خان کے عشرہ ترقی کے خلاف عوام کا غم و غصہ سیلاب کی طرح بہہ نکلا۔ بھٹو کو گرفتار کر لیا گیا۔ خواتین بڑی تعداد میں سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہوئیں، خیر اس کا ذکر پھر کبھی سہی۔

اپنی کچھ پیشروؤں کی طرح، دوسری لہر کی فیمنسٹ ایکٹوسٹس بھی ریڈیکل اور کریٹکل تھیں۔ ان کی اکثریت سوشلسٹ خیالات سے متاثر تھی۔ کچھ امن تحریکوں، مزدوروں کے حقوق کی انقلابی تحریکوں یا نسل پرستی کے خلاف جدوجہد میں میں سرگرم تھیں۔ ایک اہم اصول جو ہر فیمنسٹ گروپ میں مشترک تھا، وہ خود مختاری کے اصول کو اپنانا تھا۔ عورتیں اس بات پر اصرار کرتی تھیں کہ خواہ وہ کسی بھی تنظیم یا سیاسی پارٹی میں کام کریں، انہیں اپنا ایجنڈا مرتب کرنے کا اختیار ہو نا چاہیے۔ ان میں سے زیادہ تر عورتوں کا تعلق بائیں بازو سے تھا اور بائیں بازو پر مردوں کی اجارہ داری تھی جو عورتوں کے مطالبات کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے عورتوں کے کاکس بنانے شروع کیے یا صرف عورتوں کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ پاکستان میں بھی اسی وجہ سے نگہت سعید خان نے ”عصر ASR سنٹر اور نگار احمد اور شہلا ضیا نے عورت فاؤنڈیشن بنائی۔ شرکت گاہ کا قیام پہلے ہی عمل میں آ چکا تھا۔

فیمنزم کی دوسری لہر میں عورتوں نے اپنی محکومیت کی وجوہات سمجھنے کی بھی کوشش کی۔ شروع میں یہ عورتیں سیمون ڈی بوائر کی سیکنڈ سیکس سے متاثر تھیں لیکن آگے چل کر بحث کا رخ مارکسزم پر تنقید اور اس میں آنے والی تبدیلیوں کی طرف ہو گیا۔ پدر سری کی مختلف تھیوریز پیش کی گئیں۔ فرائیڈ اور لاکان کے تصورات کو بھی قبول کیا گیا۔ اکیڈمک فیمنسٹس نے گھریلو کام کاج کی اہمیت اور پدر سری اور سرمایہ داری کے باہمی تعلق کو سامنے لانے کی کوشش کی۔ جمہوریت اور شہریت کے لبرل تصورات پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے عورت کے دیکھ بھال یا کئیر والے کاموں پر توجہ دی، جس کے نتیجے میں بعد میں کئیر اکانومی یا دیکھ بھال کی معیشت کا تصور سامنے آیا۔

فیمنزم کی تیسری لہر 1980۔ 1990 کے عشروں پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس دوران یہ عورتیں سیاست کے مرکزی دھارے میں داخل ہوئیں۔ عورتیں صحافت کے شعبے میں آئیں اور این جی اوز اور بین الاقوامی این جی اوز میں شمولیت اختیار کی۔ یونیورسٹیوں، ٹریڈ یونینوں، سرکاری محکموں اور بین الاقوامی ایجنسیوں میں ملازمت اختیار کی۔ گو کہ ستر اور اسی کے عشروں میں بھی عورتوں کی سیاست اور قانون کے شعبوں میں شراکت کی بات کی جاتی تھی لیکن تیسری لہر کے دوران اس پر زیادہ توجہ مرکوز کی گئی۔ پاکستان اور جنوب کے دیگر ممالک میں ان عورتوں نے سیاسی، سرکاری اور عدالتی عہدے قبول کرنا شروع کیے ۔ کچھ لوگ انہیں ”فیموکریٹس“ بھی کہنے۔ لگے۔ 1979 میں اقوام متحدہ نے عورتوں کے خلاف ہر طرح کے امتیاز کے خاتمے کا کنونشن منظور کیا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان اور جنوب کے دیگر ممالک میں عورتوں کی تحریک زیادہ فعال ہو گئی۔ اور اس وقت فیمنزم کی چوتھی لہر چل رہی ہے جس میں نوجوان ایکٹوسٹس عورت مارچ کے نعروں کے ساتھ سامنے آئی ہیں

صنفی مساوات کی منزل ابھی بھی بہت دور ہے، عورت آج بھی دہرا تہرا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments