چاپلوس


سب سے تو ان بھولے بھالے قارئین سے معذرت کہ جواس کالم کو ’جانگلوس‘ کا سیکوئل سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ ناول تو اتنا ضخیم ہے کہ خود ہم نے بھی محتاط فاصلہ رکھ کر کافی دور سے ہی دیکھا ہے۔ ایک زمانے میں لیو ٹالسٹائی کے ’وار اینڈ پیس‘ اور اورشوکت صدیقی کے اس ’جانگلوس‘ کے درمیان ضخامت پر سخت مقابلہ رہا۔ اطلاعات ہیں کہ شوکت صدیقی ہار گئے لیکن کاظم پاشا کو 56 اقساط کا ایک ڈرامہ بنانے کا مواد ضرور دے گئے۔ جن لوگوں کو اس کتاب کی موٹائی کا اندازہ نہیں انہیں بتا دیں کہ یہ اتنی بھاری بھر کم ہے کہ اس کی جلدکے لیے دس جلد سازبھی کم ہیں بلکہ وہ بھی نیچے دب کے مر سکتے ہیں۔

اس دیو قامت کہانی کے توپچاس صفحات پڑھنے والے کو پی ایچ ڈی کی ڈگر ی مل جانی چاہیے اور پوری کتاب ختم کرنے والے کو میانی صاحب میں مزار کے لیے جگہ۔ بہرحال مزاح ہمیں اور ہم آپ کو غلط راستے پر لے آئے۔ بتانا صرف یہ مقصود تھا کہ ’چاپلوس‘ اور ’جانگلوس‘ میں صرف ہم وزن اور ہم آواز ہونے کے علاوہ کوئی تعلق نہیں۔

ہمیں تو ایک سیکرٹری تعلیم کے کچھ عرصہ قبل کے دورے پر بات کرنی تھی۔ ہوا یہ کہ ABCDیا ایسے ہی ایک نام کے کوئی صاحب صوبائی تعلیمی سیکرٹری مقرر ہو گئے۔ عہدہ پانے کے بعد آبائی علاقے کی یاد آئی توانہوں نے تین چار سکول اپ گریڈ کردیے۔ لہو لگاکر شہیدوں میں شامل ہو نے کا اتنا سا معروف فیصلہ بھی انہیں جنت دلانے کے لیے کافی تھالیکن حواریوں کا کیا کیا جائے۔ ان یار لوگوں نے ان کے کانوں میں بات ڈالی کہ ایسے کیسے ایک محکمانہ آرڈر پر سکول اپ گریڈ ہو جائیں اور کسی کو پتہ بھی نہ چلے۔ چند روز علاقے میں کھڑاک تو ہونا چاہیے کہ یہ کارنامہ صاحب بہادرکا ہے۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں، انہوں نے فوراً آفیشل وزٹ کا ارادہ کر لیا۔

یہاں سے اس رننگ کمنٹری کا آغاز ہوا جس کاغصہ اس کالم کا عنوان بنا۔ صاحب کا ارادہ ظاہر کرنے کی دیر تھی کہ لوکل و سوشل میڈیا پر ڈنکا پیٹ ڈالا گیا۔ ہمیں یہاں اجازت دیں، باقی کے چیدہ چیدہ ’واقعات‘ آپ چاپلوس مافیا کی زبانی ہی سنیے :

’جناب فلاں تاریخ کو اپنے آبائی علاقے کا سرکاری دورہ کریں گے۔ انہوں نے یہاں سے پرائمری، وہاں سے ہائی اور پتہ نہیں کہاں کہاں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ صاحب اعلیٰ عہدے کے باوجوداپنا علاقہ بھولے نہیں۔ شیڈول یہ ہو گا کہ حضرت پہلے یہاں جائیں گے، پھر وہاں، اور پھر جہاں تہاں۔‘

مقررہ تاریخ کوتو چاپلوسی کی لوٹ سیل ہی لگ گئی۔ ’جناب بے شمار گاڑیاں رکھتے ہیں۔ تاہم انہوں نے سفر کے لیے سرکاری گاڑی منتخب کی ہے۔ کیا بات ہے گاڑی کی، سبز رنگ کی ششکے والی نمبر پلیٹ غضب ڈھا رہی ہے۔ شوفر نے دائیں ہاتھ سے دروازہ کھولاہے جبکہ صاحب نے بایاں پاؤں پہلے اندررکھاہے۔ وہ منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ رہے ہیں۔ غالباً یورپ کی سڑکوں اور ٹریفک کی ثنا ء کر رہے ہیں۔ ضرور ریٹائر منٹ کے بعد سینئر تجزیہ نگار بنیں گے۔ ارے نہیں! یہ تو وہ ڈرائیور کو غلط موڑ کاٹنے پر بزبان انگریزی گالیاں دے رہے تھے۔

گاڑی پندرہ منٹ تک پہلے سکول پہنچے گی۔ لیں جی، پہنچ بھی گئے۔ صاحب گاڑی سے اتر نے لگے ہیں۔ اب واش روم میں چلے گئے ہیں۔ باتھ روم سے باہر آ گئے ہیں۔ ان کے دونوں ہاتھ گیلے ہیں۔ واش بیسن میں دو صابن پڑے ہیں، انہوں نے LUXکا انتخاب کیا ہے۔ گرم اور ٹھنڈے پانی کے دو نل لگے ہیں۔ جناب نے اعلیٰ ذوقی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پانی مکس کر لیا ہے۔ ہاتھ دھل چکے ہی، اب تولیے سے سکھائے جا رہے ہیں۔ یہاں خاص جناب کے لیے ایگزیکٹو Teaکا انتظام کیا گیا ہے۔ انہوں نے چائے میں ایک چمچ شکر ڈالی ہے۔ چمچے کو دائیں سے بائیں پانچ بار ہلایا ہے۔ چائے بارہویں گھونٹ میں ختم ہوئی ہے۔

اب دوسرے سکول میں پہنچ گئے ہیں۔ یہاں حضرت کے اعزاز میں سرخ قالین بچھا ہے۔ طلبہ ہاتھو ں میں تھال لیے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔ صاحب پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جا رہی ہیں۔ دست مبارک سے سکول اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔ نئی بلڈنگ کے لیے حکومتی امداد کا وعدہ بھی کیا ہے۔ بچے تالیاں پیٹ رہے ہیں۔ جناب انکساری سے تصویر ہوئے جاتے ہیں۔

تیسرے سکول میں پہنچا چاہتے ہیں۔ طلبہ ہاتھوں میں جھنڈے لیے نعرہ زن ہیں۔ زبان خلق، نقارہ خدا بنی ہے۔ سکول اپ گریڈ ہو گیا ہے ۔ وعدے وعیدکر لیے گئے ہیں۔ لنچ کا اہتمام ہے۔ مقامی کونسلر، صاحب کے لیے پلیٹ میں بوٹیاں بھر لایا ہے۔ جناب میڈیم سائز کے نوالے کھانے میں مصروف ہیں۔ ’

یہ سلسلہ اعلیٰ حضرت کی واپسی تک یونہی چلاکیا۔ ہم صبح سے رات گئے تک کئی مافیا کا سامنا کرتے ہیں۔ چینی، پٹرول، زمین، طاقت، اناج، بھکاری بے شمارمافیاؤں کو برا بھلا کہتے ہیں لیکن جو ان سب میں سے زیادہ خطرناک ہے، اس پر ہماری نظر پڑتی ہے، نہ ہم اس کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ ”چاپلوس مافیا“ ہے۔ یہ مافیا دراصل سسیلیئن مافیا سے بھی بڑاہے۔ یہ ہر عہدے دار کے اردگرد موجود ہوتاہے اور تب تک رہتاہے جب تک صاحب کرسی پر رہتا ہے۔

گو یہ حکمرانوں کی نا اہلی اور خوشامد طلبی کا جواز نہیں لیکن ان کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب دونوں ہاتھوں میں مکھن میں لیے یہ حواری ہیں۔ یہی انہیں جلتے روم کو ’بون فائر‘ دکھا کر بانسری بجانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ صاحبان کے لیے محافل رقص و سرود کا انتظام کرتے ہیں بلکہ میڈیا سے مثبت رپورٹنگ کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ پچھلے بلاگ پر ایک قاری نے ادب سے نابلدی اور بے ربطی کا طعنہ دیا تھا۔ اب، جب بات جانگلوس، چاپلوس سے ہوتی ہوئی کوے کو کبوتر دکھانے والی رپورٹنگ تک آ پہنچی ہے تو ہمیں وہ صاحبہ/صاحب سچے سچے لگنے لگے ہیں۔ بہرحال، آپ جاتے جاتے مشفق خواجہ کی زبانی چاپلوس مافیا کی مثبت رپورٹنگ سے متعلق ایک مثال ملاحظہ فرماتے جائیں۔ آپ لکھتے ہیں کہ: ”جب روم جل رہا تھا تو نیرو نے بانسری بجا کر یہ ثابت کر دیا تھا کہ کیسے بھی کٹھن حالات ہوں، ثقافتی سرگرمیاں معطل نہیں کی جا سکتیں۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments