تخلیق سے جنون تک


لوئی آلتھوسر اکتوبر 1918 ء کو نارتھ الجیریا میں پیدا ہوئے۔ یہ نارتھ افریقہ کا ایک ملک ہے۔ وہ پیرس میں پڑھتے رہے۔ جہاں وہ ایک دن فلسفے کے پروفیسر بن گئے۔ وہ فرانس میں معتبر اور معزز ہوئے۔ انہوں نے empiricist اور Marxist کام میں گراں قدر اضافہ کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک تنقیدی سوچ کے حامل بھی رہے۔ انہوں نے کارل مارکس کے کام پر تنقید بھی کی۔ لوئی 1980ء میں اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے۔ ذہنی توازن کھونے کی شدت بہت زیادہ تھی۔ پاگل پن کے دورے کے دوران انہوں نے اپنی بیوی کا قتل کر دیا۔ ان کا کئی سال تک نفسیاتی علاج ہوتا رہا۔ 1990ء میں وہ انتقال کر گئے۔

ورجینیا وولف 25 جنوری 1982 ء کو لندن میں پیدا ہوئیں انہوں نے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ 1912 ء میں ان کی شادی لیونارڈ وولف سے ہوئی۔ شادی کے بعد ہی انہوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کیا۔ یہ ان خوش نصیب لوگوں میں شامل تھیں۔ جنہوں نے اپنی زندگی میں ہی عزت، دولت اور شہرت دیکھ لی۔ یہ ناول نگار ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی نقاد بھی تھیں۔ 1914 ء میں انہوں نے اپنے کوٹ کی جیبوں میں پتھر ڈالے اور دریا میں اتنی دور چلی گیں کہ لوٹ کر کبھی واپس نہ آئیں۔ انہوں نے خودکشی کر لی۔ خودکشی کے وقت وہ ڈپریشن کے چھٹے دورے کا شکار تھیں۔ خود کشی کرنے سے قبل انہوں نے اپنے خاوند کو ایک محبت بھرا خط لکھا۔ جس میں درج تھا کہ میرا نہیں خیال کہ کسی جوڑے نے مل کر اتنی خوشیوں سے بھری زندگی گزاری ہو جتنی ہم نے گزاری۔

Virginia Woolfe

ارنسٹ ہیمنگوے نے جولائی 1899 ء کو آنکھ کھولی وہ امریکہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ہیمنگوے ایک شارٹ سٹوری رائٹر ہونے کے علاوہ ایک ناولسٹ بھی تھے اور اس کے ساتھ ساتھ صحافت میں بھی اپنا ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ انہوں نے 1953 ءمیں مشہور ادبی ایوارڈ پلٹز بھی حاصل کیا۔ بعد میں وہ پیرس چلے گئے انہوں نے انیس سو اکسٹھ میں اپنے ہاتھ سے اپنی جان لے لی۔ ونسنٹ وین گو نے پاگل پن کے دورے کے دوران اپنا کان کاٹ لیا تھا۔ میر تقی میر نے بھی بہت سی مشکلات کا سامنا کیا۔

میر جوانی میں دیوانگی کا شکار ہو گئے تھے۔ بقول علی سردار جعفری وہ کئی ماہ تک گھر میں قید رہے۔ انہیں اپنے کمرے میں زنجیروں سے باندھ دیا گیا۔ میر جب گھر سے باہر نکلتے تھے تو بچے انہیں پتھر مارتے تھے۔ ہرمن ہیس کو ادب کا نوبل پرائز ملا۔ انہیں یہ ایوارڈ ایک ناول جس کا نام سدھارتھا تھا لکھنے کی وجہ سے ملا۔ آدھا ناول لکھنے تک سدھارتھا کو نروان مل چکا تھا۔ جو کہ ان کے ناول کا مرکزی کردار تھا اور حقیقی زندگی میں بدھ مت کا بانی تھا۔ بدھ مت کے بانی پر یہ ناول ہرمن ہیس نے لکھا تھا۔ ادھر ناول میں سدھارتھا کون نروان ملا۔ ادھر حقیقی زندگی میں ہرمن ہیس کو نروس بریک ڈاؤن ہو چکا تھا۔ وہ ایک ماہر نفسیات کے پاس اپنا نفسیاتی معائنہ کروانے گئے۔ ماہرین نفسیات نے ان کا انٹرویو کیا۔ ماہر نفسیات نے ان سے کہا کہ آپ ایک قابل انسان ہیں۔ آپ ایسا کریں میرے استاد سے رابطہ کریں۔ یوں ان کا رابطہ اپنے وقت کے مشہور ماہر نفسیات کارل یونگ سے ہوا۔ وہ روحانیت تخلیقی صلاحیتوں جیسے موضوعات میں دلچسپی رکھتے تھے اور اپنے فن پر بھی دسترس رکھتے تھے۔

American writer Ernest Hemingway (1899 – 1961)

یونگ نے ہرمن ہیس کا نفسیاتی علاج کیا اور وہ بہت بہتر سے بہتر ہوتے چلے گئے۔ مکمل نفسیاتی صحت یابی کے بعد انہوں نے اپنا باقی آدھا ناول مکمل کیا اور نوبل انعام کے حقدار ٹھہرے۔ مائیکل اینجلو پتھروں کو تراش کر خوبصورت مجسموں کی شکل دیا کرتے تھے۔ وہ کئی کئی دن تک مسلسل کام میں مگن رہتے تھے۔ کام کے دوران وہ پتھروں پر ہی آرام کر لیا کرتے تھے۔ بعض اوقات وہ جوتے اتارنے کی کوشش کرتے ہیں تو مسلسل جوتے پہننے کی وجہ سے ان کی کھال تک ادھڑ جاتی تھی۔

ان کا مشہور جملہ ہے کہ پتھر میں فرشتہ قید ہے میں اس فرشتے کو آزاد کروا رہا ہوں۔ ڈیوڈ کا شاہکار مجسمے بنانے کے بعد اس نے تیشہ اس کی ٹانگ پر مارا اور زور سے کہا بول اب بولتا کیوں نہیں؟ نطشے 1889 ء میں دیوانگی کا شکار ہو گئے تھے انھیں ایک دماغی امراض کے ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔ وہ بے خوابی کی زندگی گزارتے تھے۔ وہ احساس برتری کا شکار بھی تھے۔ نطشے کہا کرتے تھے کہ وہ دس جملوں میں بات بیان کر سکتے ہیں جنہیں دوسرے فلاسفر پوری کتاب میں بھی نہیں بیان کر سکتے۔

زندگی کے آخری دس سالوں میں وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے تھے ان برسوں میں ان کی بہن نے ان کا خیال رکھا۔ انہوں نے تمام عمر شادی نہیں کی اور مجرد زندگی گزاری۔ دوستوفسکی بھی مرگی کے مریض تھے۔ ایبنارمیلٹی کی ایک جھلک دنیا کے بہت سے تخلیقی لوگوں میں نظر آتی ہے۔ ورجینیا وولف نفسیاتی علاج کو ذہنی بلاتکار کہتی تھی بہرحال نفسیاتی علاج سے بہتری کی گنجائش رہتی ہے۔ کیونکہ نفسیاتی علاج کرنے والوں نے بھی اپنی زندگی دوسرے انسانوں کی ذہنی حالت بہتر کرنے میں صرف کی۔

اس دنیا کو مزید خوبصورت کرنا دنیا کی سوچ کو نئی جہتوں سے آشکار کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ نو سے پانچ کام کرنا انسانی ضرورتوں کو تو پورا کر سکتا ہے لیکن نسل انسانی کے شعوری ارتقاء کو اگلی منزل پر لے جانا عام انسان کی اوقات سے باہر ہے۔ یہ لوگ نئی اور منفرد سوچ کے حامل تھے۔ انہوں نے اپنے آدرشوں کے لئے بہت سی قربانیاں دیں۔ انہوں نے زندگی کی تلخیاں بھی برداشت کیں زمانے کے ٹھنڈے ظلم و ستم برداشت کی ہے کچھ لوگ بظاہر صحت مند ہو گئے کون جانے اندر سے کوئی کتنا زخمی تھا۔

کچھ نے درد برداشت سے باہر ہونے کے سبب زندگی کا خاتمہ کر ڈالا۔ مشہور ماہر نفسیات کارل ولسن کا کہنا ہے کہ insanityاور creativity کے جینز ایک ہی ہیں۔ جن خاندانوں میں دماغی امراض کی شرح زیادہ ہوتی ہے ان خاندانوں میں شاعر، ادیب، دانشور اور تخلیقی کام کرنے والے لوگ بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ بہرحال ایبنارمیلٹی کا کچھ نہ کچھ یا کسی نہ کسی حد تک کریٹیویٹی سے تعلق ضرور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments