مرد کو درد نہیں ہوتا


اپنی زندگی میں عورت کے لئے حقوق نسواں اور دیگر اس جیسی بے شمار اصطلاحات دیکھی ہیں مگر مرد کے لئے ایسی اصطلاح میری نظر سے نہیں گزری، یقیناً اردو ادب میں ہوگی لیکن وہ کبھی اتنی عام یا ضروری نہیں سمجھی گئی کہ ہر خاص و عام کی زبان تک پہنچ سکے۔ یا یوں کہہ لیں کہ مرد کی زندگی کو ہمیشہ سے عمومی طور پر حقوق سے زیادہ فرائض یا ذمہ داریوں کے ساتھ ہی جوڑا گیا ہے۔

مرد جب پیدا ہوتا ہے تو بیٹے کی صورت میں ”وارث یا مستقبل کے سہارے“ کے طور پر پہلی ذمہ داری اسے سونپ جاتی ہے۔ جب ہوش سنبھالتا ہے تو ”بھائی“ کے طور پر بہن کی ذمہ داری اسے سونپی جاتی ہے۔ ایک ذمہ دار بھائی ہونے کے ناتے اسے ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہوتا ہے کہ اس کی کسی حرکت کی وجہ سے اس کی بہن کی ذات یا آبرو پر کوئی آنچ نا آئے۔ اس کی فطرت یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ اس کی خوشیوں سے کہیں زیادہ مقدم ان لوگوں کی خوشیاں ہیں جو اس کی ذات سے جڑے ہیں اور وہ اس تقسیم کو خوشی خوشی قبول بھی کر لیتا ہے کبھی اس پر گلہ نہیں کرتا۔

زندگی کے سفر میں تھوڑا آگے بڑھتا ہے تو اس کی زندگی میں ”بیوی“ کی صورت میں ایک نیا رشتہ شامل کیا جاتا ہے۔ اب اسے لگتا ہے کے شاید اس کی زندگی میں ذمہ داریوں کا بوجھ کچھ ہلکا ہو جائے گا مگر اسی خوش فہمی کے دوران اسے یہ یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ یہ جو نئی آنے والی ہے یہ تمھارے لئے اپنا ہر رشتہ چھوڑ کر آئی ہے۔ اس لئے اب تم نے ہر اس رشتے کا کردار نبھانا ہے جس کی کمی اس کی زندگی میں تمہاری وجہ سے آئی ہے یوں اس کے فرائض کی فہرست مزید لمبی کردی جاتی ہے۔

پھر وہ کچھ عرصے میں ایک باپ کا روپ دھار لیتا ہے۔ یہ اس کی زندگی کا سب سے خوبصورت لمحہ ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کے رشتوں میں وہ کتنا ہی غیر حساس یا غیر سنجیدہ کیوں نہ ہو، اپنی اولاد کے معاملے میں وہ بہت حساس ہوجاتا ہے۔ ایک بیٹی کی مسکراہٹ کے لئے وہ اپنی ہر خوشی قربان کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ بیٹے کی چھوٹی سے چھوٹی خواہش پوری کرنے کے لئے اپنی ذات پر لگائی گئی ہر پابندی، ہر اصول بھول جاتا ہے۔ اولاد جب بڑی ہوجاتی ہے تو ہر وقت اس کے مستقبل کی فکر کھانے لگتی ہے۔ اپنی زندگی میں کسی خواہش کو لے کہ وہ رب کے سامنے جھکا ہو یا نہ ہو، اپنی اولاد اور خاص کر بیٹی کے نصیب کی وہ رب سے بھیک مانگنے کو بھی تیار ہو جاتا ہے۔ ایک باپ ہی ہوتا ہے جس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد اس سے اعلیٰ مرتبہ پر جائے، اس سے اچھی زندگی بسر کرے!

اس سارے تغیر مسلسل کے دوران دنیا پل پل اس کے ضبط کا امتحان لے رہی ہوتی ہے۔ جب کبھی وہ اپنے کسی قریبی رشتے کو کھو دیتا ہے اور وہ سہارے کے لئے کوئی کندھا تلاش کر رہا ہوتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ خبردار رونا نہیں تم تو مرد ہو تم تو بہت بہادر ہو اور تمہیں ہرگز درد نہیں ہونا چاہیے!

کبھی زندگی اس کا امتحان یوں بھی لیتی ہے کہ بڑھاپے میں جب اس کی کمر جھک چکی ہوتی ہے اور اس کی بیٹی معاشرے کی نظر میں طلاق کا کلنک اپنے دامن پر لگا کر اس کے سامنے کھڑی ہوتی ہے۔ وہ اس وقت اندر سے مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہوتا ہے لیکن پھر بھی مسکراتے چہرے کے ساتھ اپنی بیٹی کو سینے سے لگا لیتا ہے اور ضبط کا دامن نہیں چھوڑتا کیوں کہ آخر مرد ہے ناں درد تو نہیں ہونا چاہیے اسے!

وہ اولاد کی خوشی کی خاطر ایسے ایسے انتہائی قدم بھی اٹھا لیتا ہے، جو کبھی اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ ضبط کا اصل امتحان تب ہوتا ہے جب یہی اولاد اسے بالواسطہ یا بلاواسطہ یہ کہتی ہے کہ ”بابا آپ تھوڑی محنت اور کر لیتے تو آج ہماری زندگی بہت اچھی ہوتی، ہمارے حالات اس سے بہتر ہوتے، آپ نے ہمارے لئے کیا کیا ہے وغیرہ وغیرہ“

زندگی کی ڈھلتی شاموں میں ماؤں کو تقریباً سبھی اولادیں سر پر بٹھاتی ہیں اور بٹھانا بھی چاہیے ماں کا ایک مقام و مرتبہ ہے۔ لیکن باپ کو سر پر بٹھانے والی کم اور اس سے سوالات کرنے والی اولادیں زیادہ ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اولاد کو یہ تو نظر آ رہا ہوتا ہے کہ ان کی ہر ضرورت ان کی ماں پوری کرتی رہی ہے۔ مگر اس لین دین کے عمل کے دوران اکثر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جو وسائل درکار تھے وہ گھر کی دہلیز تک باپ ہی پہنچاتا رہا ہے۔ اور یہ کرنے کے لیے اس باپ کی عزت نفس کتنی بار مجروح ہوئی، کتنا اسے خوار ہونا پڑا، اس بات کا اندازہ اولاد کبھی نہیں لگا سکتی۔

مرد کی آدھی سے زیادہ زندگی اپنی ذات سے جڑے رشتوں کی زندگیاں سنوارنے میں گزر جاتی ہے۔ اس کے مسکراتے چہرے کے پیچھے ہمیشہ ذمہ داریوں اور فرائض کا ایک انبار ہوتا ہے جو ایک تلوار کی طرح ہمیشہ اس کے سر پر لٹکتا رہتا ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مرد کو ایک انتہائی غیر حساس اور ضرورت سے زیادہ بہادر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ مرد کو درد ضرور ہوتا ہے لیکن اس کے درد کو محسوس کرنے والے بہت کم لوگ ہوتے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments