خوش رہنا بھی ایک آرٹ ہے


زندگی پھولوں کی سیج ہے نہ ہی کانٹوں کا بستر۔ بلکہ خوشی و غم دونوں سے عبارت ہے۔ راہ زیست میں خوشی و رنج، دکھ سکھ، اداسی و مسرت، مٹھاس و تلخی، خوشگواری و نا خوشگواری ہر دو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ اہم نہیں کہ آپ کو کبھی مصائب و آلام اور ناکامیوں کا سامنا نہ ہو بلکہ ضروری امر یہ ہے کہ تمام خطرات کا سامنا کرتے ہوئے بھی خوش و خرم زندگی گزارنے کے لوازمات تلاش کیے جائیں۔

خوشی کیا ہے؟ خوشی دراصل ان جذبات و کیفیات کا نام ہے جس میں انسان اطمینان و سکون، تسلی و تشفی، مسرت و انبساط اور ذہنی ثبات جیسے احساسات سے دو چار ہوتا ہے اور طبیعت میں خوشگوار و مثبت جذبات جنم لیتے ہیں اور وہ ذہنی طور پر خود کو زیادہ صحت مند محسوس کرتا ہے۔ لیکن آج کے نفسا نفسی کے اس دور میں خوشی اور طمانیت ایک نایاب شے بن چکی ہے۔ قدم قدم پر سماجی مسائل (عدم مساوات، بدعنوانی، انتہا پسندی، منافقت، بد اعتمادی، بے جا تنقید، عدم تحفظ) نے انسانی معاشرے کو ذہنی تناؤ اور نفسیاتی امراض میں مبتلا کر دیا ہے۔

دانستہ یا غیر دانستہ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب حالات اس کی منشاء کے مطابق نہ ہوں تو گھبرا اٹھتا ہے اور نا امیدی اور مایوسی میں گھرتا چلا جاتا ہے۔ حد سے زیادہ اضطراب اور ذہنی تناؤ انسان کی ذہنی و جسمانی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ خوشحالی کی زندگی بسر کرنا ہمیشہ سے انسان کا بنیادی مقصد رہا ہے اسی مقصد کے حصول کے لیے اقوام متحدہ نے 2012 ء میں ہر سال 20 مارچ کو خوشی کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا۔ جس کا بنیادی مقصد عوام کو خوشی کے نفسیاتی و جسمانی فوائد سے آگاہ کرنا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات نے تو 2016 میں خوشی کی باقاعدہ وزارت قائم کر لی ہے

خوش رہنا بھی ایک آرٹ ہے جس کو باقاعدہ سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ اسے سیکھیں گے تو خوش رہ سکیں گے۔ ییل یونیورسٹی امریکہ کی علم نفسیات کی پروفیسر لوری سینٹوس کا کہنا ہے : ”سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ خوش رہنے کے لیے دانستہ کوشش کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے آپ کو با قاعدہ مشق کرنی پڑتی ہے، ٹھیک ویسے ہی جیسے ایک موسیقار اور ایتھلیٹ اپنے آپ کو بہتر کرنے اور کامیاب ہونے کے لیے مسلسل ریاض اور مشق کرتے ہیں۔“ اگرچہ خوش رہنے کا کوئی حتمی فارمولا یا اصول و نسخہ تو موجود نہیں ہے، مگر ایک مخصوص طرز زندگی اور چند مثبت رویوں کو اپنا کر خوشگوار زندگی کا حصول ممکن ہے۔

خود سے محبت کرنا خوشی کا پہلا راز ہے۔ ہمارے ہاں عموماً اپنی ذات سے پیار خود غرضی سمجھا جاتا ہے۔ بچپن سے ہی یہ بات ہمارے ذہنوں میں بٹھا دی جاتی ہے کہ اپنے نفس کی قربانی ہی دوسروں سے محبت کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ تاہم یہ تصور درست نہیں ہے۔ اپنی ذات پر توجہ دینے سے خود اعتمادی اور برداشت کی صلاحیت مزید پختہ ہوتی ہے، جس سے ہم اپنے رشتوں میں بھی خوشگوار تبدیلی لا سکتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے نامناسب رویے کی وجہ اکثر ہمارے ذاتی مسائل ہی ہوتے ہیں جو اپنی ذات سے لاپرواہی کی بنا پر ہمارے مزاج کا حصہ بن جاتے ہیں۔

امریکی مصنفہ برین براؤن اپنی کتاب ”دی گفٹ آف امپرفیکشن“ میں لکھتی ہیں : ”اگر آپ خود سے پیار نہیں کرتے تو دوسروں سے بھی دیرپا خوشگوار تعلقات قائم نہیں رکھ سکتے۔“ اپنی زندگی کو پیار کے رنگوں سے بھرنا چاہتے ہیں تو اپنے آپ سے تعلق بحال کریں۔ اور خود کو یقین دلائیں کہ زمین کا پہلا شخص جس سے مجھے پیار کرنا سیکھنا ہے وہ میں خود ہوں۔

ہماری خوشیوں کا زیادہ تر تعلق دوسروں کی ذات سے جڑا ہوتا ہے۔ آپ کا اپنے اہل خانہ اور دوست احباب سے تعلق جتنا مضبوط ہوگا خوش رہنے کے امکانات اتنے زیادہ ہوں گے۔ خوش رہنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے قریبی لوگوں سے فاصلے کم کریں۔ برقی رابطوں کے بجائے بالمشافہ ملاقات پر مبنی تعلقات کو اہمیت دیں۔ بالمشافہ ملاقات سے آپ کا موڈ بہتر ہوتا ہے اور ڈپریشن میں کمی آتی ہے۔ صحت مند آپسی رشتوں اور سماجی رابطوں سے آپ کی فلاح و بہبود میں واضح بہتری آتی ہے۔

لندن سکول آف اکنامکس کے پروفیسر رچرڈ لئیر نے ایک تحقیق (جو دو لاکھ لوگوں پر کی گئی) سے نتائج اخذ کرتے ہوئے بتایا: ”شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو چیزیں ہماری خوشی اور دکھ میں سب سے زیادہ کردار ادا کرتی ہیں وہ ہمارے سماجی تعلقات اور ہماری ذہنی اور جسمانی صحت ہے۔“ ریسرچ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایسے لوگ جن کی زندگی میں پانچ یا اس سے زائد ایسے افراد ہوں جن سے وہ اپنے اہم مسائل پر گفتگو کرسکیں، دوسرے لوگوں کے مقابلے میں 60 فیصد زیادہ خوش پائے جاتے ہیں۔ باہمی انسانی تعلقات آپ کو خوشیوں تک لے جانے کا کلیدی زینہ ہیں۔

زندگی میں کبھی بھی کسی بڑی خوشی یا کامیابی کا انتظار نہ کریں بلکہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور کامیابیوں کی خوشی منائیں۔ گہری خوشی اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک آپ تیزی ترک کر کے چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے لطف اندوز نہیں ہوتے۔ بڑے مقاصد کے حصول کی کوشش کے دوران حاصل ہونے والی تمام چھوٹی چھوٹی چیزوں سے لطف اندوز ہونا خوشی ہے۔ انسان کی سرشت میں ہے کہ ہمیشہ میسر اور دستیاب سے بہت زیادہ کی خواہش کرتا ہے اور یہ خواہش بسا اوقات اتنی شدید ہوجاتی ہے کہ وہ شکوہ کناں اور ناخوش نظر آتا ہے۔

مشہور مصنف میکسم گورکی نے لکھا ہے : ”خوشی جب ہاتھ میں ہوتی ہے تو چھوٹی محسوس ہوتی ہے اسے ایک بار چھوڑ کر دیکھو ایک لمحے میں آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ کتنی بڑی اور خاص ہے۔“ نعمتوں کو شمار کرنا ان کی اہمیت کو بڑھا دیتا ہے۔ جس کے مقابلے میں شکایات اپنی اہمیت کھونے کھونے لگتی ہیں۔ آپ کے سر پر موجود چھت، آرام دہ بستر کی دستیابی، بنا کسی تکلیف کے دن کا گزرنا، ، مکمل جسمانی اعضا، زندگی میں محبت کرنے والے لوگوں کی موجودگی اور اس طرح کی لاتعداد نعمتیں ہیں جن سے بہت سے لوگ محروم ہیں۔

دن بھر کے معمولات کا جائزہ اور ان سے متعلق شکر گزاری کا اظہار اعصابی تناؤ، نفسیاتی دباؤ میں نمایاں کمی کا باعث بنتا ہے۔ روزمرہ کے امور کا جائزہ لیتے ہوئے ان واقعات پر شعوری طور پر توجہ دیجیے جو شکر گزاری کا مؤجب بن سکتے ہیں۔ وہ کسی دیرینہ دوست کا غیر متوقع پیغام یا کال، کسی مہمان کی پرمسرت صحبت، کسی پیارے کی مسکراہٹ یا کوئی تعریفی جملہ اور اس طرح کی کئی دوسری وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اگر آپ زندگی کی سادہ چیزوں سے مکمل طور پر لطف اندوز نہیں ہوں گے تو ان سے حاصل ہونے والے امکانی فائدوں سے خود کو محروم کردیں گے۔

ہر وقت ماضی کی یادوں میں گم رہنا یا مستقبل کا جال بنتے رہنا ایک منفی عمل ہے۔ تلخ سے تلخ ماضی کو بھی فراموش کریں اور مستقبل کے لئے فکر و الجھن کی بجائے اپنے مقصد کے حصول کے لئے تمام دستیاب وسائل اور اسباب کو آزمائیں اور اپنے حال میں جئیں۔ آج میں زندہ رہنا اور حال کو بھرپور انداز میں محسوس کرنا ہمیں ماضی کی سوچوں میں ڈوبنے سے بچا سکتا ہے۔ کل کس نے دیکھا ہے؟ تو کیوں نہ حال میں زندہ رہنا سیکھیں۔ کوئی بھی انسان مکمل اور کامل نہیں ہوتا۔

انسان کامیاب اس وقت ہو سکتا ہے جب وہ اپنا احتساب کرتے ہوئے اپنی خامیاں قبول کرے کیونکہ اپنی خامیوں کو قبول کر کے ہی ان میں سدھار لایا جاسکتا ہے۔ انسان خطاوٴں کا پتلا ہے۔ نیکی و بدی، خیر و شر، حق و باطل، وفا و بے وفائی اور سچ و جھوٹ غرض سب متضاد چیزیں انسان کے خمیر میں موجود ہیں۔ لہذا اپنی کمیوں کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی کوتاہیوں سے بھی درگزر کرنا سیکھیں۔ اگر آپ دوسروں کی لغزشوں کو معاف کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پر سکون زندگی گزار سکتے ہیں۔

اگر خوش و مطمئن زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو مثبت سوچ سے گہری دوستی کر لیں۔ ہر طرح کے حالات میں خوشی کا جواز تلاش کرتے رہنا اور ہر منفی سے منفی بات میں بھی مثبت پہلو کی کھوج میں رہنا ہی آپ کو طمانیت اور ذہنی ثبات سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ منفی خیالات کو جھٹک کر مثبت اور بامقصد سوچ اور طرز فکر اپنایا جائے تو حالات کا زیادہ بہتر طریقے سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ مثبت لوگ حالات و واقعات کے مطابق زندگی بسر نہیں کرتے بلکہ وہ چند مخصوص رویے اپنا کر ہر طرح کے حالات و واقعات میں ان رویوں کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔

ایسے لوگ ناکام بھی ہوں تو ناکامی کو ایک موقع سمجھتے ہیں، ترقی کرنے اور زندگی سے ایک نیا سبق سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خوشی آپ کے آس پاس موجود ہے بس اسے تلاشنے کی ضرورت ہے تو اپنے آس پاس دیکھیے شاید خوشی کا کوئی سبب مل جائے۔ کیونکہ زندگی چند برے تجربات سے بہت آگے کی چیز ہے۔ آزمائش شرط ہے اور اگر آپ کوشش کریں تو زندگی کے ہر لمحے سے خوشی کشید کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments