اسد طور پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کرلیں تو معافی مانگنے کو تیار ہوں: حامد میر
پاکستان کے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے آف ایئر ہونے والے صحافی حامد میر نے معافی مانگنے کی مشروط پیش کش کی ہے۔
حامد میر نے منگل کو اپنے ایک ٹوئٹ میں اشارتاً کہا ہے کہ “اگر وہ صحافی اسد طور پر حملہ کرنے والے ملزمان کو گرفتار کر لیں تو میں معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں۔”
حامد میر نے اپنے ٹوئٹ میں لفظ ‘وہ’ کا استعمال کیا جس کے بعد ایک مرتبہ پھر بات ہو رہی ہے کہ ان کا اشارہ کس کی جانب ہے۔
حامد میر کی جمعے کو سیکیورٹی اداروں سے متعلق اشاروں کنایوں میں کی جانے والی ایک تقریر کے بعد انہیں جیو نیوز پر نشر ہونے والے پروگرام ‘کیپٹل ٹاک’ کی میزبانی سے روک دیا گیا تھا۔
جیو نیوز سے پیر کی شب آٹھ بجے نشر ہونے والے پروگرام ‘کیپٹل ٹاک’ کی میزبانی حامد میر کی جگہ مارننگ شو کے میزبان عبداللہ سلطان نے کی۔ تاہم، انہوں نے اس پروگرام میں حامد میر کے آف ایئر ہونے کے معاملے کا ذکر نہیں کیا۔
"if they arrest the persons who attacked @AsadAToor then I am ready to apologise” https://t.co/Mmq1Rh8QyW
— Hamid Mir (@HamidMirPAK) June 1, 2021
البتہ دیگر نجی ٹی وی چینلز سے وابستہ صحافیوں نے پرائم ٹائم کے دوران اپنے پروگرامز میں حامد میر کو آف ایئر کیے جانے کے معاملے کو اٹھایا۔
سینئر صحافی عاصمہ شیرازی نے ‘آج’ ٹی وی پر نشر ہونے والے اپنے پروگرام کے دوران دعویٰ کیا کہ حامد میر کو کہا گیا ہے کہ اگر وہ معافی مانگ لیں تو انہیں پروگرام کرنے کی اجازت دے دی جائے گی۔ تاہم انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
جیو نیوز پر حامد میر کو پروگرام کی میزبانی سے روک دیا گیا۔۔۔ پاکستان میں میڈیا کی صورتحال، آزادی اظہار پر قدغنیں اور آئے روز کی پابندیاں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔۔#FaislaAapKa
Aaj News#hamidmir @FaislaAapKaa @aaj_urdu @HamidMirPAK pic.twitter.com/Wo3tGETipG— Asma Shirazi (@asmashirazi) May 31, 2021
صحافی نسیم زہرہ نے اپنے پروگرام کے دوران کہا کہ ملک میں قوانین اور عدالتیں موجود ہیں۔ اگر کسی کو صحافی کی کوئی بات پسند نہیں آئی، رپورٹ ٹھیک نہیں لگی تو اس طرح کے معاملات کو عدالتوں میں لے کر جایا جائے۔ لیکن صحافی کو اٹھانا، مارنا، پیٹنا اور پھر ان کی تضحیک کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
اُٹھانا ، مارنا پیٹنا اور پھر کہنا کہ لڑکی کے بھائیوں نے کیا ہے اسکا کوئی فائدہ نہیں اگر کسی صحافی نے غلط بات کہہ دی تو عدالت میں جائیے ۔۔@NasimZehra نے اصولی طور پر درست بات کی ہے لیکن @AsadAToor کو مارنے سے پہلے جھوٹے مقدمات میں الجھایا گیا اب پھر یہی ہو رہا ہے pic.twitter.com/xQkKJtB8L4
— Hamid Mir (@HamidMirPAK) June 1, 2021
صحافی ندیم ملک نے اپنے پروگرام میں کہا کہ اگر حامد میر اور طلعت حسین صحافت کی تعریف پر پورا نہیں اترتے تو کون اترتے ہیں؟ ان کے بقول، یہ لوگ کئی برسوں تک ٹی وی اور اخبارات کے ہر شعبے سے وابستہ رہے اگر وہ اب بھی جرنلسٹ نہیں تو کون جرنلسٹ ہے؟ اور یہ معیار مقرر کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔
حامد میر اور طلعت حسین صحافی نہیں تو کوئی صحافی نہیں۔ ندیم ملک صاحب نے کمال کئ باتیں کئ ہیں۔۔چاپلوس لوگوں کو شاید شرم آ جائے۔۔ ملک صاحب سلامت رہیں۔ @nadeemmalik pic.twitter.com/9zxX63oEWZ
— Waseem Abbasi (@Wabbasi007) May 31, 2021
یاد رہے کہ وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے جمعے کو برطانوی نشریاتی ادارے ‘بی بی سی’ کے پروگرام ‘ہارڈ ٹاک’ میں انٹرویو کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ وہ طلعت حسین کو صحافی نہیں مانتے۔
حامد میر کو کیوں آف ایئر کیا گیا؟
حامد میر کو چینل انتظامیہ کی جانب سے آف ایئر کرنے کا معاملہ ان کی ایک تقریر کے بعد سامنے آیا تھا۔ جمعے کو انہوں نے اسلام آباد میں صحافیوں کے ایک احتجاج کے دوران اشاروں کنایوں میں پاکستان کے سیکیورٹی اداروں پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘اگر آپ ہمارے گھر میں گھس کر ماریں گے تو ہم آپ کے گھر میں نہیں گھس سکتے۔ لیکن ہم آپ کے گھر کے اندر کی باتیں آپ کو بتائیں گے۔’
حامد میر نے صحافیوں کے جس احتجاجی مظاہرے سے خطاب کیا تھا وہ صحافی اسد علی طور پر گزشتہ ہفتے تین نامعلوم ملزمان کی جانب سے کیے جانے والے حملے کے خلاف کیا جا رہا تھا۔
جنگ و جیو گروپ کا مؤقف
‘جنگ و جیو’ گروپ نے منگل کو شائع ‘جنگ’ اخبار میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ حامد میر کی تقریر اور اس کے بعد سامنے آںے والے عوامی ردِ عمل پر ایڈیٹوریل کمیٹی اور وکلا کے ساتھ صورتِ حال کا جائزہ لیں گے کہ پالیسی یا قانون کی کوئی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی۔ اس دوران کیپٹل ٹاک کی میزبانی عارضی میزبان کے سپرد کی جارہی ہے۔
البتہ جیو نیوز سے منسلک تجزیہ کار اور سینئر صحافی مظہر عباس نے انتظامیہ کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں حامد میر کو آف ایئر کرنے کے فیصلے کی منطق سمجھ نہیں آئی۔
I don't understand the logic behind the decision to put Hamid Mir, one of the top tv anchor in Pakistan off air as he said anything objectionable GEO nor has written on the issue in Jang. The only reason could be outside pressure and than government claimed media is free.
— Mazhar Abbas (@MazharAbbasGEO) May 31, 2021
دوسری جانب صحافتی تنظیموں اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے حامد میر کو آف ایئر کرنے کی مذمت کی ہے جب کہ بعض حلقے حامد میر کے آف ایئر کیے جانے کو چینل انتظامیہ پر حکومتی دباؤ کا شاخسانہ بھی قرار دے رہے ہیں۔
تاہم وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ کس نشریاتی ادارے نے کیا پروگرام نشر کرنا ہے اور اس کی ٹیم کیا ہوگی یہ فیصلہ ادارے خود کرتے ہیں۔ ہمارا اداروں کے اندرونی فیصلوں سے کوئی تعلق نہیں۔
کس نشریاتی ادارے نے کیا پروگرام نشر کرنا ہے اوراس کی ٹیم کیا ہوگی یہ فیصلہ ادارے خود کرتے ہیں، ہمارا اداروں کے اندرونی فیصلوں سے کوئ تعلق نہیں تمام ادارے آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اپنی پالیسی بنانے کے خود ذمہ دار ہیں۔
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) May 31, 2021
وائس آف امریکہ کے عاصم علی رانا کی رپورٹ کے مطابق جنگ گروپ کے ایک سینئر کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ حامد میر کو فی الحال آف ایئر کیا گیا ہے لیکن وہ بدستور گروپ کا حصہ رہیں گے۔
ان کے بقول پروگرام ‘کیپٹل ٹاک’ کسی اور اینکر کے ذریعے جاری رہے گا اور حالات بہتر ہونے پر حامد میر ہی اس پروگرام کو دوبارہ کریں گے۔
اسد طور کے الزامات اور اس کی تردید
یاد رہے کہ صحافی اسد طور نے الزام عائد کیا تھا کہ ان پر حملہ کرنے والے تین ملزمان کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) سے ہے۔
لیکن حکومت کا مؤقف تھا کہ اسد طور پر حملے کی تحقیقات جاری ہیں۔ تاہم، قبل از وقت کسی کو موردِ الزام ٹھہرانا درست نہیں۔
دوسری جانب آئی ایس آئی نے بھی وزارتِ اطلاعات کے توسط سے جاری ایک بیان میں اسد طور پر ہونے والے مبینہ تشدد سے اظہارِ لاتعلقی کیا تھا۔
آئی ایس آئی کا مؤقف تھا کہ وہ کیس کی تفتیش میں تعاون کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ اسد طور پر ہونے والے حملے کے الزامات ظاہر کرتے ہیں کہ سازش کے تحت آئی ایس آئی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جب کہ آئی ایس آئی سمجھتی ہے کہ سی سی ٹی وی میں ملزمان کی شکلیں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں تو پھر کیس کی تفتیش کو آگے بڑھانا چاہیے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).