عورت کی شادی اور بچے پر مبارکباد لیکن کرئیر پر خوشی کیوں نہیں؟

ثنا آصف ڈار - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


میرے لیے میری زندگی کی سب سے بڑی کامیابی بی بی سی میں نوکری حاصل کرنا تھاـ جب تقریباً تین برس قبل مجھے بی بی سی کے دفتر سے میری ملازمت کے بارے میں اطلاع دی گئی تو میں خوشی کے عالم میں سب کو فون کر کے اس بارے میں آگاہ کر رہی تھی۔

لیکن میری یہ ساری خوشی کچھ ہی لمحوں میں اس وقت خاک میں مل گئی جب میری ایک انتہائی قریبی عزیزہ نے مجھے مبارکباد دینے کے فوراً بعد ہی کہا کہ چلو اب اچھے سے لڑکے سے تمہاری شادی بھی ہو جائے تو مزہ آ جائے۔

یہ ایک جملہ میری ساری خوشی پر حاوی آگیا اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہوئی کہ شاید کسی عورت کی اصل کامیابی اس کا کرئیر، اس کی پیشہ ورانہ کامیابیاں یا اعلیٰ تعلیم نہیں بلکہ اس کی کامیاب ازدواجی زندگی ہے۔

مجھے اس لمحے یہ بھی محسوس ہوا کہ پاکستانی معاشرے میں کسی عورت کو صرف اسی وقت مبارکباد وصول کرنے کا حقدار سمجھا جاتی ہا جب وہ شادی یا بچہ پیدا کرے۔

لیکن ایسا صرف میرے ساتھ ہی نہیں ہوا بلکہ میرے ارد گرد ایسی بے شمار خواتین موجود ہیں جن کی شادی اور بچہ ہونے پر تو مبارکبادوں کے ڈھیر لگا دیے جاتے ہیں لیکن ان کے کرئیر کی کامیابیوں پر خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا۔

سنہ 2019 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں صرف 22 فیصد خواتین ہی گھروں سے باہر جا کر ملازمت کرتی ہیں اور اس کم شرح کی کئی وجوہات ہیں۔

ان میں سے ایک وجہ خواتین پر جلد از جلد شادی اور بچے کے لیے دباؤ بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں خواتین کی کامیابی کو صرف ان کی ازدواجی زندگی اور بچوں سے ہی مشروط کیا جاتا ہے اور پیشہ ورانہ کامیابیوں پر ان کی حوصلہ افزائی کم ہی کی جاتی ہے۔

میں نے اپنے اپنے شعبوں میں کامیاب چند خواتین سے بات کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ پاکستان میں پیشہ ور خواتین کی حوصلہ افزائی کیوں نہیں کی جاتی۔

شہناز رمزی
شہناز رمزی سمجھتی ہیں کہ پیشہ ورانہ زندگی میں خواتین کی کامیابیوں کے اعتراف کے لیے معاشرے کی سوچ میں تبدیلی کے لیے وقت درکار ہے اور یہ ایک رات میں ممکن نہیں

لوگ سمجھتے ہیں کہ عورت کی زندگی کا مشن ہی شادی اور بچہ ہے

کراچی میں وومین چیمبر آف کامرس ساؤتھ کی صدر شہناز رمزی کہتی ہیں کہ عام لوگوں کی سوچ ہے کہ عورت چار دیواری میں ہی بند رہے تو ٹھیک ہے، اسی لیے لڑکیوں کے آگے بڑھنے کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کی جاتی اور ایسی لڑکیوں یا خواتین سے لوگ خوف محسوس کرتے ہیں۔ اور کافی عرصے سے ہمارا معاشرہ ایسا ہی چلا آ رہا ہے۔

شہناز رمزی کہتی ہیں کہ ’لوگ سمجھتے ہیں کہ عورت کا زندگی میں مشن ہی شادی اور بچہ پیدا کرنا ہے اسی لیے خواتین کی دوسری چیزوں پر خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا لیکن اب چیزیں بدل رہی ہیں۔‘

شہناز رمزی جن کی شادی کم عمری میں ہی ہو گئی تھی، کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنی پڑھائی بھی شادی کے بعد مکمل کی اور فوراً باقاعدہ طور پر کوئی ملازمت بھی اسی لیے نہیں شروع کی کہ بچوں کی دیکھ بھال پر انھیں توجہ دینا ہوتی تھی۔

ڈاکٹر وجیہہ رضا رضوی لاہور کی بیکن ہاؤس یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ وہ کہتی ہیں ہمارے معاشرے میں کوئی بھی عورت شادی اور بچے کے دباؤ سے مکمل طور پر آزار نہیں ہو سکتی کیونکہ ہمارا معاشرہ ہی ایسا ہے۔

’لیکن میں نہیں سمجھتی کہ شادی یا بچہ ہی کسی عورت کی سب سے بڑی کامیابی ہے کیونکہ جب ہم عورت کی تربیت ہی ایسے کرتے ہیں کہ شادی اور بچہ ہی تمہاری سب سے بڑی کامیابی ہے تو ہم اس کے پیر میں بیڑی ڈال دے دیتے ہیں۔‘

اپنے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ جب وہ انگلینڈ پڑھنے چلی گئیں تو بہت سے لوگ ایسے تھے جنھوں نے ان کے والدین پر الزم لگایا کہ آپ اپنی بیٹی کی کمائی کھانا چاہتے ہیں اس لیے آپ اس کی شادی نہں کر رہے۔

ڈاکٹر وجیہہ
ڈاکٹر وجیہہ رضا رضوی لاہور کی بیکن ہاؤس یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں

انگلینڈ سے پڑھائی مکمل کرنے کے بعد وطن واپسی پر ڈاکٹر وجیہہ کی شادی ہو گئی اور اس کے بعد انھیں امریکہ میں فل برائیٹ سکالر شپ بھی ملا۔

’جب مجھے شادی کے بعد فل برائیٹ سکالر شپ ملا، تو میری نند نے میرے سکالر شپ پر اعتراض کیا۔ اس کا خیال تھا کہ اس سے میری گھریلو زندگی متاثر ہو گی اور شاید وہ اپنی جگہ ٹھیک تھیں لیکن میں سمجھتی ہوں کہ اگر میں نے وہ سکالر شپ نہ لیا ہوتا تو آج میں اتنی خودمختار نہ ہوتی۔‘

ڈاکٹر ثروت جو وزرات برائے سائنس و ٹیکنالوجی میں ڈپٹی مشیر کے طور پر کام کر رہی ہیں، نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ اپنی شادی کے بعد بھی نہیں روکا۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں اپنے خاندان کی طرف سے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوا تاہم سوسائٹی کی جانب سے تنقید کا سامنا ضرور رہا۔

وہ کہتی ہیں کہ اگر کوئی مرد شادی کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا ہوتا ہے تو اسے ہر طرف سے پذیرائی مل رہی ہوتی ہے لیکن خواتین اپنے گھر کی تمام ذمہ داریاں پوری کرنے کے بعد ہی تعلیم یا کرئیر کی طرف جا سکتی ہیں۔

’بچہ پیدا کر کے اپنی پیشہ ورانہ ترقی پر سجھوتہ کرتے ہیں

ڈاکٹر وجیہہ کہتی ہیں کہ اگلی نسل بہت اہم ہوتی ہے اور انھیں اپنے بچوں سے بے حد پیار ہے لیکن ان کا ماننا ہے کہ ’جب آپ بچہ پیدا کرتے ہیں تو آپ اپنی پیشہ ورانہ ترقی پر سمجھوتے کے دستخط کر رہے ہوتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں ’اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بچوں کے ساتھ پیشہ ورانہ ترقی نہیں ہوتی۔ میں نے اپنی پی ایچ ڈی بھی بچوں کے ساتھ کی لیکن فیملی لائف کا اثر آپ کی پیشہ ورانہ زندگی پر لازمی ہوتا ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کا ذمہ دار خواتین کو ہی سمجھا جاتا ہے۔‘

شہناز رمزی کہتی ہیں کہ ’ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے ایسا چلا رہا آ رہا ہے کہ شادی کرنا، پارٹنر ڈھونڈنا، بچے پیدا کرنا، اگلی نسل کو کھڑا کرنا ہی ایک مقصد سمجھا جاتا ہے۔ یہ تصور بچپن سے ہی ہم میں اتنی سختی سے ڈال دیا جاتا ہے، خاص کر خواتین کے ذہن میں تو یہ چیز بہت نارمل سمجھی جاتی ہے۔‘

ڈاکٹر ثروت
ڈاکٹر ثروت نے بتایا کہ ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے اور ان کی پیشہ ورانہ زندگی میں اس قدر کامیابیوں کے باوجود بھی لوگ جب یہ سنتے ہیں کہ وہ سنگل مدر ہیں تو ہمدردی سب سے پہلے آتی ہے

ڈاکٹر ثروت نے بتایا کہ ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے اور ان کی پیشہ ورانہ زندگی میں اس قدر کامیابیوں کے باوجود بھی لوگ جب یہ سنتے ہیں کہ وہ سنگل مدر ہیں تو ہمدردی سب سے پہلے آتی ہے۔

’میرا سارا کرئیر ایک سائیڈ پر رہ جاتا ہے اور لوگ ہمدردی کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ تو تمہارے ساتھ بہت بری چیز ہو گئی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اس سفر میں آپ اکیلے ہی ہوتے ہیں اور آپ کو یہ سب برداشت کرنا ہوتا ہے۔ معاشرہ ایسی صورتحال میں خواتین کی تعریف یا حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ معاشرہ یہی کہتا ہے کہ پہلے شادی ہو، بچہ ہو۔ ایسے میں جب آپ اعلیٰ تعلیم کا سوچتے ہیں تو بعض اوقات ایسا دباؤ بھی آتا ہے کہ آپ ایک لمحے کے لیے رک جاتے ہیں۔‘

جو خواتین اپنا خیال خود نہیں رکھتی فیملی ان کے فیصلوں کو کنٹرول کرتی ہے

ڈاکٹر وجییہ کہتی ہیں کہ ہمیں لڑکیوں اور خواتین کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ بھی فیملی کا بوجھ اکیلے اٹھا سکتی ہیں۔

’تعلیم کبھی آپ کو نقصان نہیں پہنچاتی، یہ آپ کا وہ خزانہ ہے جو آپ کو زندگی میں مدد کرتا ہے۔ جو خواتین ایسے اپنا خیال خود نہیں رکھتی فیملی ان کے فیصلوں کو کنٹرول کرتی ہے، وہ اپنا کوئی فیصلہ خود کر ہی نہیں سکتیں۔‘

ڈاکٹر ثروت کہتی ہیں کہ خواتین کو ان تمام رکاوٹوں کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کرنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے آپ کو خود بخود اس سب چیزوں کے حل نظر آئیں گے اور رکاوٹیں بھی آپ کے لیے راستہ بنائیں گی۔

’میرا بھی یہی اصول رہا کہ میں نے کسی رکاوٹ کس حتمی نہیں سمجھا، کہ ایسا ہو گیا ہے تو اب اس کے آگے کچھ نہیں رہا۔‘

شہناز رمزی سمجھتی ہیں کہ پیشہ ورانہ زندگی میں خواتین کی کامیابیوں کے اعتراف کے لیے معاشرے کی سوچ میں تبدیلی کے لیے وقت درکار ہے اور یہ ایک رات میں ممکن نہیں لیکن وہ اس حوالے سے کافی پرامید ہیں۔

’ہمارے لوگوں میں اب آگاہی آ رہی ہے، اب ہمارے مرد حضرات بھی کھلے ذہن کے ہوتے جا رہے ہیں اور وہ عورت کے کام کرنے کو قبول کر رہے ہیں کہ یہ ایک اچھی چیز ہے لیکن یہ تبدیلی آہستہ آہتستہ ہی آئے گی اور ایک دم سے ہر مرد ایسا نہیں سوچنے لگ جائے گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp