گل ودھ گئی اے مولانا صاحب


آج تقریباً ڈھائی ماہ بعد غیر موثر پی ڈی ایم جس میں سے پیپلز پارٹی کے ”پی“ نکل جانے کے بعد اب صرف ڈی ایم یعنی ”ڈمی“ بچا ہے کا اجلاس ہوا، اندرونی ذرائع اور باقی بچ جانے والی جماعتوں سے کچھ قریبی دوستوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کی واپسی کے معاملے پہ خاصی بحث ہوئی، لیکن جب مولانا سے پوچھا گیا تو انہوں نے تکبر اور گھمنڈ سے فرمایا کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی، پی ڈی ایم کا حصہ ہی نہیں ہیں تو بحث کس بات کی، یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس پہ میٹنگ میں بات کی جاتی، جبکہ مریم نواز نے کہا مولانا صاحب نے جو فرمایا وہی موقف میاں نواز شریف کا بھی ہے، آپ لوگ نان اشو کو اشو مت بنائیں ”جبکہ شہباز شریف کی کوشش تھی کہ یہ ڈیڈ لاک ٹوٹے اور دونوں جماعتوں کی پی ڈی ایم میں واپسی ہو مگر حزب مخالف کی آٹھ جماعتوں پہ مشتمل اس ڈمی اتحاد میں شامل انقلابی بیانیہ مفاہمتی بیانیے پہ غالب نظر آیا۔

مولانا فضل الرحمان پہ پیپلز پارٹی کی جانب سے سندھ میں پی ٹی آئی اور حکومتی اتحاد کے ساتھ اتحاد کرنے اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف ہرزہ سرائی کی وجہ سے شدید ناراضی اور تحفظات ہیں جبکہ نون لیگ کی مریم نواز اور شاہد خاقان کی جانب سے پیپلز پارٹی پہ لفظی گولا باری پہ بھی پارٹی قیادت و کارکنان سخت نالاں اور غصے میں ہیں۔ حالیہ دنوں میں جے یو آئی سندھ کے امیر راشد محمود سومرو پیپلز پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں ان کے پیپلز پارٹی مخالفت کا اندازہ اس بات لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اس جماعت کی گود میں جا بیٹھے ہیں جس کے خلاف پی ڈی ایم بنی ہے، انہوں نے اپنے بیانات میں پیپلز پارٹی قیادت کے خلاف دشنام طرازی کی، خود مولانا صاحب نے پیپلز پارٹی قیادت کو نابالغ کہا، آخر ایسی کیا وجہ تھی کہ پیپلز پارٹی دشمنی میں ان لوگوں سے ہاتھ ملانا پڑا جو مولانا صاحب کو زن دختر گالیاں نکالتے ہیں اور ایسے ایسے القابات سے نوازتے ہیں کہ اکثر انہیں سن کر کانوں پہ ہاتھ لگانے پڑ جاتے ہیں۔

ڈمی اتحاد میں چوں کہ نون لیگ سب سے بڑی جماعت ہے اور پھر مولانا صاحب کی جے یو آئی، تو غلبہ بھی ان کا ہی رہا اور اس بات پہ زور دیا گیا کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی معذرت کریں اور باپ سے اتحاد پہ وضاحت دیں پھر انہیں پی ڈی ایم میں شامل کیا جائے گا۔ اب کوئی ان عاقبت نااندیش لوگوں سے پوچھے کہ دونوں جماعتوں کو اگر پی ڈی ایم واپس آنا ہوتا تو وہ خود سے کیوں اتحاد چھوڑتے، اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود دونوں جماعتوں نے پی ڈی ایم میں واپسی کی کوئی بات نہیں کی، دونوں جماعتوں کا استدلال ہے کہ اتحاد میں کسی کو شوکاز نہیں دیا جاتا اور شوکاز دے کر دونوں جماعتوں کی توہین کی گئی ہے لہذا جب تک مریم نواز اور مولانا اپنے رویے اور شوکاز پہ معافی نہیں مانگتے اس وقت تک پی ڈی ایم میں واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

آٹھ جماعتی اتحاد نے حکومت مخالف جلسوں کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ پارلیمانی فورم کی ذمے داری میاں شہباز شریف کے حوالے کردی گئی ہیں وہ جس سے چاہے پارلیمان میں رابطے کریں اور مفاہمت کریں۔ اب دیکھتے ہیں میاں شہباز شریف جب اے این پی اور پیپلز پارٹی کی قیادت سے پارلیمنٹ میں بجٹ سازی کے موقع پر مشترکہ لائحہ عمل بنانے کے لیے رابطہ کریں گے تو دونوں جماعتوں کی قیادت شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال جیسے انقلابیوں کی شعلہ بیانیوں کے باوجود پارلیمان میں تعاون کے حوالے سے کیا موقف اختیار کرتے ہیں، مگر یہ انتہائی ناقابل فہم موقف مولانا اور مریم الائنس کی جانب سے سامنے آیا ہے کہ پارلیمانی معاملات اور پی ڈی ایم معاملات دونوں الگ ہیں، اگر پی ڈی ایم اور پارلیمان دونوں الگ معاملات ہیں تو پھر پیپلز پارٹی پہ استعفوں کا دباؤ کیوں ڈالا گیا، کیوں پیپلز پارٹی پہ استعفے نہ دینے کا الزام لگا کر یہ سارا ٹوپی ڈرامہ رچا گیا۔

پی ڈی ایم کے ڈمی اجلاس میں ایک بات واضح طور پر کھل کر سامنے آئی کہ مریم نواز پی ڈی ایم کا کوئی بھی عہدہ نہ رکھتے ہوئے بھی مسلم لیگ نون کی صدارت رکھنے والے میاں شہباز شریف پہ بھاری نظر آئیں، مولانا تو پہلے ہی صدارتی کرسی پہ قبضہ جمائے ہوئے ہیں، مگر نون لیگ اس اجلاس کے بعد مزید منتشر دکھائی دی، پریس کانفرنس کے دوران مسلم لیگ نون کے صدر مولانا سے ذرا پیچھے کھڑے خاموش اور کچھ مضطرب لگ رہے تھے جبکہ مریم نواز بغیر کسی حیثیت کے مولانا کے پہلو میں کھڑی مولانا کے موقف کو اپنا اور بڑے میاں صاحب کا موقف قرار دے رہی تھیں، یعنی وہ یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئیں کہ صدر ہونے کے باوجود شہباز شریف کی حیثیت محض ایک ربڑ اسٹیمپ کی سی ہے۔

اس آٹھ جماعتی اتحاد نے اس بات کو تو واضح کر دیا کہ انہوں نے کوئی استعفے نہیں دینے تھے یہ صرف ایک بہانا تھا کہ کسی طرح سے حکومت کے خلاف سخت رویہ رکھنے والی پیپلز پارٹی سے پلو چھڑایا جائے، مریم نواز شریف کی ایک اور بات نے ان کے کردار کو اور بہتر انداز میں ایکسپوز کیا جب انہوں نے فرمایا کہ ”جب ہماری جانب سے سخت مزاحمت ہوگی تب ہی تو ریاست مفاہمت کی طرف آئے گی“ یعنی مزاحمت صرف اس لیے ہے کہ مفاہمت ہو، مولانا صاحب صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے گرج برس اور اپنا غصہ نکال رہے ہیں۔

یہ سب ڈرامے ’مجھے کیوں نکالا‘ ووٹ کو عزت دو ’فلاں جنرل فلاں کرنل یہ سب اس لیے تھا کہ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے نہ صرف سیف پیسیج بلکہ 1999 کی طرح ایک اور ایمنسٹی حاصل کی جائے۔ پی ڈی ایم کی وضع قطع اگر دیکھی جائے تو صدر کسی پارلیمان کے رکن نہیں، اس کے بعد طاقت و اختیار رکھنے والی مریم صاحبہ نا اہل سزایافتہ ضمانت پہ باہر کسی پارلیمان کی رکن نہیں، میاں نواز شریف جو وڈیو لنک پہ انقلابی درس دیتے نظر آتے ہیں سزایافتہ اشتہاری مفرور، باقی کی چھ جماعتوں میں سے صرف ایک اختر مینگل صاحب اور ان کی جماعت پارلیمان کا حصہ ہیں مگر ان کے پاس کوئی اختیار نہیں، باقی حضرات بھی کسی پارلیمان کا حصہ نہیں اور مولانا اور مریم صاحبہ کے سیاسی دھاگے سے بندھے نظر آتے ہیں یوں عملاً پی ڈی ایم کا خاتمہ ہو چکا ہے اب اسے صرف مریم صاحبہ اور مولانا صاحب کی چودھراہٹ برقرار رکھنے اور پی ڈی ایم کے نام کا استعمال کر کے میڈیا کی توجہ حاصل کرنے لیے اسے مصنوعی تنفس کے ذریعے زندہ رکھا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments